غزہ میں اسرائیلی جارحیت دوبارہ شروع، امن معاہدہ تعطل کے دہانے پر

رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
جنگ بندی معاہدے کے تحت 9 دن کی خاموشی کے بعد غزہ کی فضا پھر اسرائیلی طیاروں کی خوفناک آوازوں سے گونچ اٹھی اور زمین ایک بار پھر خون سے رنگین ہوگئی۔
اتوار کے روز اسرائیلی فوج نے فضائی اور زمینی دونوں محاذوں پر ایک نئی اور شدید جارحیت شروع کی، جس نے محض نو روز قبل نافذ ہونے والے جنگ بندی معاہدے کو خطرے کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ خان یونس، رفح اور وسطی غزہ کے علاقوں میں مسلسل بمباری نے اس نازک سمجھوتے کو تقریباً غیرموثر بنا دیا ہے۔ غزہ کے مکین اس منظر کو ’جنگِ نسل کشی کے ابتدائی دنوں کی یاد‘ قرار دے رہے ہیں جہاں ہر آواز میں دھماکوں کا شور اور ہر سانس میں بارود کی مہک رچ گئی ہے۔ طبی ذرائع کے مطابق ان حملوں میں کم از کم 40 فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔ حملوں کا نشانہ خیمہ بستیاں، ایک اسکول اور حتیٰ کہ ایک صحافتی دفتر بھی بنا جہاں بے گھر شہری پناہ لیے ہوئے تھے۔ ملبے سے بچوں کے بستے، پھٹے جوتے اور خون آلود کپڑے برآمد ہوئے۔ یہ وہ مناظر ہیں جنہیں دنیا نے شاید درجنوں بار دیکھا مگر اسرائیل کی جنگی مشین کے لیے وہ محض ’کولیٹرل ڈیمیج‘ ہیں۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق فوج نے تقریباً 120 فضائی حملے کیے اور متعدد ’ٹارگٹڈ اسیسنیشنز‘ انجام دیں۔ ان حملوں میں جبالیا کیمپ کے اندر کئی نمایاں مزاحمتی شخصیات شہید ہوئیں جن میں عائد صبری سلمان، یحییٰ المبحوح (ابوالعبد)، حسین الصوالحہ، محمد ابورفیع، زکریا ابو حبل اور مسلم بدر شامل ہیں۔ یہ نام غزہ کے لوگوں کے لیے محض افراد نہیں بلکہ مزاحمت کے استعارے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے اپنے حملوں کی توجیہ یہ دی کہ رفح کے قریب فلسطینی جنگجووں نے ان کی انجینئرنگ گاڑیوں پر اینٹی ٹینک راکٹ سے حملہ کیا تاہم فلسطینی مزاحمت نے اس دعوے کو ”مکمل طور پر من گھڑت“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ایک بہانہ ہے تاکہ اسرائیل اپنی جارحیت کو قانونی لبادہ پہنا سکے۔ مزاحمت کے سیاسی دفتر نے کہا کہ ’اسرائیل شرم الشیخ معاہدے کے انہدام کا براہِ راست ذمہ دار ہے‘ اور عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ مداخلت کرکے اسرائیل کو اپنے وعدوں کا پابند بنائے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ اسرائیلی فوج نے ابتدا میں واقعے کی تفصیلات پر مکمل سنسر لگا دیا مگر بعد میں تسلیم کیا کہ جھڑپ میں اس کے دو فوجی ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔ اسرائیلی میڈیا نے بتایا کہ مرنے والے فوجی ناحال بریگیڈ کی 932 ویں بٹالین سے تعلق رکھتے تھے لیکن اسی موقع پر بعض عبرانی ذرائع نے ایک چونکا دینے والا انکشاف کیا: رفح میں کی جانے والی بمباری دراصل یاسر ابوشباب نامی شخص کی حفاظت کے لیے تھی جو مبینہ طور پر طویل عرصے سے اسرائیلی انٹیلی جنس سے روابط میں تھا۔
’غدارِ اکبر‘ غزہ کے اندرونی محاذ کا نیا چہرہ
غزہ کے اندرونی حلقوں میں یاسرابوشباب ایک متنازع اور نفرت انگیز نام ہے۔ اسے ’غدارِ اکبر‘ کہا جاتا ہے، ایک ایسا شخص جو مزاحمت کے اندر رہ کر دشمن کے لیے کام کرتا رہا۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق ابوشباب رفح کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک مسلح گروہ کا سربراہ ہے جو بظاہر خود کو ’سلفی مزاحمتی دھڑا‘ کہلاتا ہے مگر اس کی سرگرمیوں پر ہمیشہ اسرائیلی اداروں سے تعلقات کا شک شبہ رہا ہے۔ اس کے گروہ پر الزام ہے کہ وہ اسرائیل کو زمینی معلومات فراہم کرتا رہا اور متعدد اسرائیلی حملے انہی اطلاعات کی بنیاد پر کیے گئے۔ اس نے مزاحمت کی حکومتی رٹ کے خلاف کئی کارروائیاں کیں جن میں سیکورٹی چوکیوں پر حملے اور حساس معلومات کا افشا شامل تھا۔
حالیہ کارروائیوں کے دوران اطلاعات سامنے آئیں کہ مزاحمت نے بالآخر ابوشباب کے خفیہ ٹھکانے کا سراغ لگالیا۔ جیسے ہی فیلڈ یونٹس اس کے قریب پہنچے اسرائیلی فضائیہ نے فوری بمباری شروع کردی، گویا ایک ”محافظانہ مداخلت“ کی جارہی ہو۔ اس دوران کم ازکم ایک اسرائیلی فوجی کے مارے جانے کی اطلاع ملی۔ فلسطینی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں کا اصل مقصد ابوشباب کو تحفظ فراہم کرنا تھا تاکہ وہ مزاحمت کے ہاتھوں گرفتار نہ ہو۔ اب تک ابو شباب کی گرفتاری یا ہلاکت سے متعلق کوئی مصدقہ اطلاع نہیں۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیوز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جانباز بریگیڈ نے اسے زندہ گرفتار کرلیا ہے مگر معتبر ذرائع نے ان مناظر کو یا تو پرانا یا غیرمصدقہ قرار دیا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق یہ واقعہ غزہ کے اندر ایک نفسیاتی موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔ مزاحمت کے حامی حلقوں کے نزدیک ’غدارِاکبر‘ کی گرفتاری یا ہلاکت دشمن کو اس کے اندرونی نیٹ ورک سے محروم کرنے کے مترادف ہوگی۔ دوسری طرف اسرائیل کے لیے یہ ایک نفسیاتی دھچکا ہوگا کیونکہ وہ اس اعتراف سے گریز نہیں کرسکتا کہ اس کے تیار کردہ اندرونی اثاثے اب غزہ کی زمین پر محفوظ نہیں رہے۔
جنگ بندی یا ایک نیا دھوکہ؟
اتوار کی شب اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ وہ قیادت کی ہدایت پر دوبارہ جنگ بندی پر عمل کرے گی مگر مبصرین کے مطابق اب معاہدہ عملاً تعطل کا شکار ہے۔ رفح، خان یونس اور دیرالبلح کے علاقوں میں مسلسل بمباری نے نہ صرف شہری زندگی کو مفلوج کر دیا ہے بلکہ انسانی امداد کے تمام راستے بھی بند کردیے گئے۔ اگرچہ امریکی دباو کے تحت کچھ گزرگاہیں عارضی طور پر کھولی گئیں، لیکن زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اسرائیل اس ’وقفے‘ کو صرف عسکری فائدے کے لیے استعمال کررہا ہے۔ غزہ کے شہری اب بھی جنوبی اور مشرقی حصوں میں قائم ’فائر زونز‘ کی وجہ سے گھروں کو واپس نہیں جا سکتے۔ یہ علاقے 600 سے 1500 میٹر تک مکمل طور پر بند ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق اسرائیلی ڈرونز دن رات ان علاقوں پر پرواز کر رہے ہیں اور معمولی حرکت پر بھی میزائل داغے جا رہے ہیں۔رفح کے نواح میں رات بھر جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئیں جہاں اسرائیلی طیارے فلیئرز گراتے رہے تاکہ زمینی مزاحمت کی نقل و حرکت واضح رہے۔ ملبے سے نکلتے بچوں کی چیخیں، عورتوں کی آہ و بکا اور مردوں کی خاموشی یہ سب ایک ایسے سماج کی گواہی دیتے ہیں جو دنیا کے سامنے مسلسل مصلوب ہو رہا ہے۔
غداری، مزاحمت اور سیاسی پیغام
تجزیہ کاروں کے مطابق ’غدارِاکبر‘ کا قصہ محض ایک شخص کی داستان نہیں بلکہ غزہ کے اندر جاری نظریاتی اور اخلاقی جنگ کی علامت ہے۔ یہ واقعہ اس سوال کو پھر سے زندہ کرتا ہے کہ کب کوئی شخص نظریے سے منحرف ہو کر دشمن کا آلہ بن جاتا ہے؟ اور کب ایک قوم اپنی بقا کی جنگ میں غداری کو معاف نہیں کرتی؟ اگر ابوشباب واقعی گرفتار ہو چکا ہے تو یہ مزاحمت کے لیے ایک بڑی نفسیاتی فتح ہوگی، ایک ایسا لمحہ جس میں دشمن کے پالے ہوئے چہرے کا نقاب اتار دیا گیا اور اگر وہ ابھی تک روپوش ہے تو اس کی تلاش خود ایک علامتی مہم ہے اپنے اندرونی زخموں کی تطہیر کی۔ غزہ کی موجودہ صورتحال یہ باور کراتی ہے کہ اسرائیل کی جارحیت صرف عسکری نہیں بلکہ نفسیاتی بھی ہے۔ وہ ہر بم کے ساتھ فلسطینی معاشرے کی داخلی وحدت کو نشانہ بناتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی ملبے سے مزاحمت کی نئی شکلیں جنم لیتی ہیں۔ ایک فلسطینی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ ’غزہ تب ہارے گا جب وہ اپنے اندر کے غداروں کو پہچاننا چھوڑ دے‘۔ غزہ کے ملبے سے ابھرنے والی یہی پہچان شاید سب سے بڑی مزاحمت ہے۔