رپورٹ: علی ہلال
غزہ کی پٹی میں مزاحمتی تنظیم حماس کی زیرِ زمین سرنگوں کا نیٹ ورک اِس وقت مجوزہ فائربندی کے مذاکرات میں مرکزی موضوع بن چکا ہے۔ اس معاملے میں سب سے بڑی رکاوٹ ان سرنگوں سے متعلق ہے جن میں حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز کے متعدد جنگجو موجود ہیں جبکہ اسرائیل ان سرنگوں کو مکمل طور پر تباہ کرنے پر اصرار کررہا ہے۔ ان جنگجووں کی تعداد کتنی ہے اب تک مکمل حتمی طور پر نامعلوم ہے تاہم کم از کم 200 سے زائد ہیں۔
دو ہفتے قبل اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاتس کے بیان نے مبصرین کو حیران کردیا، جب اُس نے امریکی نائب صدر جی ڈی وینس سے گفتگو میں کہا کہ حماس کی تقریباً 60 فیصد سرنگیں اب تک تباہ نہیں ہوئیں اور ان کا مکمل خاتمہ فائر بندی کے عمل کی سب سے اہم شرط ہے۔ کاتس کے مطابق ان سرنگوں سے کئی اسرائیلی مغویوں کی لاشیں ملی ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ تباہی صرف جزوی تھی مکمل نہیں۔ جمعہ کے روز کاتس نے ایک بار پھر پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اسرائیلی فوج کو تمام سرنگیں تباہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر سرنگیں نہیں ہوں گی تو حماس بھی نہیں رہے گی۔ جون 2025ء میں اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ خان یونس کے یورپی اسپتال کے قریب ایک سرنگ دریافت ہوئی ہے جس میں خیال کیا جاتا ہے کہ حماس کے رہنما محمدالسنوار شہید ہوئے۔
دو سال تک جاری رہنے والی اس شدید جنگ نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ خصوصاً یہ کہ اسرائیلی فوج اتنے عرصے تک کیا کرتی رہی جبکہ حماس اس دوران اتنی بڑی سرنگی ترسیلہ (نیٹ ورک) قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی؟ اکثر ماہرین کا ماننا ہے کہ حماس کی سرنگوں کا تصور 2006ء میں سامنے آیا جب تنظیم نے ایک عسکری کارروائی کے دوران ایک اسرائیلی فوجی جلعاد شالیت کو اغوا کیا تھا۔ تاہم درحقیقت یہ خیال اس سے پہلے انتفاضہ الاقصیٰ دوم (2000ء) کے فوراً بعد وجود میں آیا ہے۔ پہلی بڑی سرنگی کارروائی 2001 میں ہوئی جب رفح میں ’ترمید‘ فوجی چوکی کے نیچے تقریباً 150 میٹرلمبی سرنگ میں دھماکہ خیز مواد نصب کرکے حملہ کیا گیا، جس میں کئی اسرائیلی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے۔ یہ کارروائی حماس اور اسرائیل کے درمیان ایک نئی جنگی حکمتِ عملی کا آغاز ثابت ہوئی۔ بعدازاں 2007ء میں غزہ پر حماس کے مکمل قبضے کے بعد اس نیٹ ورک کو مزید وسعت دی گئی۔ اسرائیل کے لیے یہ ایک مستقل سیکیورٹی چیلنج بن گیا جبکہ حماس نے اسے اپنی ”سب سے بڑی عسکری کامیابی“ قرار دیا۔ 7 اکتوبر 2023ء کا حملہ اسرائیل کے لیے غیرمتوقع تھا۔ اسرائیلی حکام سمجھتے تھے کہ وہ سرحدی علاقے میں جدید سیکورٹی باڑ تعمیر کرکے سرنگی خطرے سے محفوظ ہوچکے ہیں۔ یہ باڑ 50 ملین ڈالر کی لاگت سے تیار ہوئی تھی اور 2021ء میں مکمل ہوئی۔ تاہم حماس نے سرنگوں کا استعمال نہیں کیا بلکہ زمین کے اوپر سے حملہ کیا، باڑ کو دھماکوں سے اُڑا دیا اور اپنے جنگجووں کو پیرشوٹ کے ذریعے سرحد پار اُتارا۔
الشرق الاوسط کے مطابق حماس کے فنی ماہرین نے غیرمعمولی سرنگی نیٹ ورک تیار کیا ہے۔ حماس کے باخبر ذرائع کے مطابق غزہ میں سرنگوں کے نظام کی ابتدا اور ترقی کا سہرا محمدالسنوار کے سر باندھا جاتا ہے جو کتائب القسام (حماس کے عسکری ونگ) کے نمایاں رہنما تھے۔ وہ ابتدا ہی سے اس منصوبے کی نگرانی کرتے رہے، یہاں تک کہ یہ ایک وسیع اور مربوط نظام میں تبدیل ہوگیا، جو اَب صرف رفح یا خان یونس تک محدود نہیں بلکہ پورے غزہ میں پھیل چکا ہے۔ 28 اکتوبر 2025ء کو شمالی خان یونس کے علاقے میں فلسطینی شہریوں کو ایک سرنگ کے دہانے پر دیکھا گیا۔ یہ اس وسیع نیٹ ورک کی ایک جھلک تھی جو برسوں میں زمین کے نیچے تیار کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق ابتدا میں یہ سرنگیں چھوٹی اور محدود نوعیت کی تھیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ بڑی، شاخ دار اور مختلف اقسام میں تقسیم ہوگئیں ، جن میں حملہ آور (Offensive)، دفاعی (Defensive) اور لاجسٹک یا کمانڈ و کنٹرول سرنگیں شامل ہیں۔ حماس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان سرنگوں کی تعمیر و ترقی میں پیشہ ور انجینئرز نہیں بلکہ ہنرمند کاریگر اور فنی ماہرین پیش پیش تھے، جنہوں نے حیران کن مہارت کے ساتھ مختلف ساخت، گہرائی اور مضبوطی کی سرنگیں تعمیر کیں۔ بعض سرنگوں کے نچلے حصوں میں تو راکٹوں اور دھماکوں کی تیاری کے کارخانے بھی قائم کیے گئے۔ یہ ماہرین جنہیں تنظیم کے اندر ”انجینئر“ کہا جاتا ہے، مٹی کی نوعیت، کمزور اور مضبوط مقامات کا تجزیہ کرتے، سرنگ کے راستے متعین کرتے اور ابتدائی کھدائی کے بعد کام کی نگرانی کرتے تھے۔ سرنگوں کی تعمیر میں استعمال ہونے والی خصوصی کنکریٹ (بھیترن) بھی تنظیمی طور پر تیار کی جاتی تھی تاکہ یہ ڈھانچے دباو اور حملوں کے باوجود محفوظ رہیں۔
ذرائع کے مطابق ہر کھدائی ٹیم میں آٹھ سے دس قسام کے جنگجو شامل ہوتے تھے جن کا کام کھدائی، مٹی نکالنا اور سرنگ کی اندرونی دیواروں کو مضبوط بنانا ہوتا تھا۔ روزانہ تین ٹیمیں باری باری اپنے مخصوص حصے پر کام کرتی تھیں۔ معلومات کے مطابق حماس نے اپنے نیٹ ورک کو فوجی ڈھانچے کے مطابق منظم کیا ہوا تھا۔ ہر علاقے (غزہ، خان یونس، شمال، رفح وغیرہ) کے لیے ایک ’لوائ‘ (بریگیڈ) قائم تھی اور ہر بریگیڈ کے تحت کئی کتائب (بٹالین) کام کرتی تھیں۔ ان بریگیڈز کے لیے مرکزی سرنگیں مخصوص تھیں جبکہ ہر بٹالین کی اپنی ذیلی سرنگیں بھی موجود تھیں۔ مرکزی سرنگیں عموماً قیادت، کمانڈ اور دفاع کے لیے استعمال ہوتی تھیں جبکہ ذیلی سرنگیں جنگی آپریشن یا مخصوص علاقوں کی کارروائیوں کے لیے جوڑی جاتی تھیں۔
کتائب القسام کی عسکری تنظیم پانچ بڑے بریگیڈز پر مشتمل ہے؛ شمال، غزہ، وسطی علاقہ، خان یونس اور رفح۔ ہر بریگیڈ میں متعدد کتائب، سرایا (کمپنیوں) اور فصائل (دستے) شامل ہیں جن میں ہزاروں جنگجو سرگرم ہیں۔ ان جنگجووں میں سے متعدد نے عسکری تربیت لبنان، ایران اور ماضی میں شام میں حاصل کی تھی۔ ہر بریگیڈ میں انٹیلی جنس، اسلحہ، آپریشنز، داخلی سلامتی اور تربیتی شعبے بھی منظم انداز میں کام کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ہر بٹالین میں سے 50 سے 70 جنگجو دفاعی سرنگوں کی کھدائی کے لیے مامور کیے جاتے تھے۔ ہر سریة (کمپنی) کی اپنی دفاعی حکمتِ عملی اور مخصوص منصوبہ بندی ہوتی تھی جس کی نگرانی آپریشنز انچارج کرتے تھے۔ جنگ سے قبل کتائب القسام کی 24 بٹالینیں فعال تھیں۔ 6 شمال میں، 6 غزہ شہر میں، 4 وسطی علاقے میں، 4 خان یونس میں اور 4 رفح میں۔ ہر بٹالین میں اوسطاً 600 سے 1200 جنگجو شامل تھے جو 4 سے 6 سرایا پر مشتمل ہوتی تھیں۔
حماس کے مطابق حملہ آور سرنگوں کی کھدائی میں ہر بریگیڈ سے تقریباً 40 افراد شریک ہوتے تھے جبکہ ان کی نگرانی فنی ماہرین کرتے تھے۔ یہ سرنگیں اسرائیلی اہداف پر حملوں کے لیے استعمال ہوتی تھیں جیسا کہ 2014ء میں کیا گیا جب کئی جنگجو ان سرنگوں کے ذریعے سرحد پار کرکے اسرائیلی بستیوں میں داخل ہوئے۔ ذرائع نے بتایا کہ ان سرنگوں کی تعمیر اعلیٰ درجے کی انجینئرنگ مہارت سے کی گئی تھی جن میں جنریٹرز، پانی و بجلی کے کنکشن، لوہے کی فٹنگ اور مضبوط کنکریٹ شامل تھی۔ تاہم یہ کام خطرات سے خالی نہیں تھا۔ کھدائی کے دوران کئی جنگجو زمین دھنسنے یا حادثات کے باعث شہید یا زخمی ہوئے۔ کچھ کو ہمیشہ کے لیے معذوری کا سامنا کرنا پڑا۔ اسرائیلی انٹیلی جنس نے سرنگوں کی لوکیشن جاننے یا کھدائی کو sabote کرنے کے لیے مقامی مخبروں کو بھرتی کرنے کی کوشش کی مگر وہ مطلوبہ معلومات حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔

