غزہ کی نئی انتظامیہ کیلئے مصری علاقے کا انتخاب، کیا یہ ڈیل آف دی سنچری کا سافٹ ماڈل ہے؟

رپورٹ: علی ہلال
غزہ میں جنگ بندی کے لئے جمعرات کو مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ میں قطر،ترکی اور مصر کی ثالثی میں امریکی سرپرستی میں منعقدہ مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد جمعہ کو فجر کے وقت اسرائیلی کابینہ نے بھی جنگ بندی کی باقاعدہ منظوری کی توثیق کی۔
جمعہ کو دن بارہ بجے جنگ بندی معاہدہ نافذ العمل ہوگیا ۔ اس کے ساتھ ہی انتظار میں بیٹھے ہوئے فلسطینی پناہ گزینوں نے گھروں کی جانب واپسی شروع کردی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس امن معاہدے کے بارے اب تک جتنی معلومات سامنے آئی ہیں، وہیں بہت ساری ایسی تفصیلات بھی ہیں جو پردہ خفا میں ہیں۔ ان میں بنیادی طور پر دو معاملات کو بہت اہم اور جوہری قرار دیا جاتا ہے ۔
الشرق الاوسط کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن پلان سے متعلق کئی بنیادی تفصیلات ابھی بھی واضح نہیں ہوئیں، جن میں جنگ کے بعد غزہ کی انتظامیہ اور حماس کا سیاسی و عسکری مستقبل شامل ہیں۔ یہ بھی تاحال غیرواضح ہے کہ جنگ کے اختتام کے بعد غزہ پر کون حکومت کرے گا، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ نیتن یاہو، ٹرمپ اور مغربی و عرب ممالک نے حماس کے کسی بھی کردار کو مسترد کر دیا ہے۔ ٹرمپ کی منصوبہ بندی میں اصلاحات کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے ممکنہ کردار کا ذکر کیا گیا ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اگلے مرحلے میں جنگ کے بعد غزہ کی نگرانی کے لیے ایک بین الاقوامی امن کونسل قائم کی جائے گی، جس کی سربراہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے، جبکہ سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر اس میں شریک ہوں گے۔
یاد رہے کہ حماس نے تاحال اسرائیل کے اس مطالبے پر بات کرنے سے انکار کیا ہے جس میں اس کے غیرمسلح ہونے کی شرط رکھی گئی ہے۔ دوسری جانب عرب ممالک، جو اس منصوبے کی حمایت کر رہے ہیں اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یہ معاہدہ بالآخر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر منتج ہونا چاہیے، جبکہ نیتن یاہو اس امکان کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں۔ تاہم غزہ کی مقاومتی تنظیم حماس نے عندیہ دیا ہے کہ وہ غزہ کی حکومت صرف ایک فلسطینی ٹیکنوکریٹ حکومت کے حوالے کرنے پر آمادہ ہے، جو عرب اور اسلامی تعاون سے تشکیل پائے، وہ کسی غیر ملکی مداخلت کو قبول نہیں کرے گی۔
لندن سے شائع ہونے والے عرب جریدے الشرق الاوسط کے مطابق، مصری باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ مصر اور عالمی فریقین کے درمیان جنگ کے بعد غزہ کی انتظامی اتھارٹی کے صدر دفتر کے طور پر سرحدی مصری شہر العریش کے انتخاب پر ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ معاملہ تاحال مذاکرات پر منحصر ہے کیونکہ موجودہ وقت میں غزہ کی صورتحال کسی بھی سیاسی یا انتظامی سرگرمی کے لیے موزوں نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق مصر کی پوزیشن واضح ہے کہ وہ ہر اس اقدام کی حمایت کرے گا جو فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر خود مختار اور بااختیار بنائے، بشرطے کہ ان پر کوئی مسلط شدہ فیصلہ یا بیرونی تجاوز نہ ہو۔ گزشتہ دنوں اسرائیلی اخبار ہارٹز اور برطانوی گارڈین نے انکشاف کیا تھا کہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے جنگِ غزہ کے بعد کی صورتحال کے لیے ایک مجوزہ منصوبہ تیار کیا ہے۔اس منصوبے میں ایک عبوری بین الاقوامی اتھارٹی کے قیام کی تجویز دی گئی ہے، جسے فلسطینیوں کو محدود انتظامی کردار کے ساتھ غزہ کی روزمرہ امور چلانے کی اجازت ہوگی اور اس کا مرکز رفع سے قریب مصری علاقے العریش میں قائم کیا جائے گا۔
العریش ایک اسٹریٹجک مصری شہر ہے جو غزہ کی سرحد کے قریب واقع ہے اور اس کے نزدیک ہی رفح کراسنگ ہے۔ شمالی سینا میں دہشت گردی کے خاتمے کے بعد اس کے ہوائی اڈے کو بحال کیا گیاہے اور 7 اکتوبر کی جنگ کے بعد یہ شہر عالمی سطح سے آنے والی انسانی امداد اور ریلیف سامان کے لیے مرکزی گزرگاہ بن گیا۔ مصری ذرائع کے مطابق غزہ فی الحال کسی بھی سیاسی یا انسانی سرگرمی کے لیے تیار نہیں۔ انتظامی مرکز کے مقام کا معاملہ ابھی زیرِ بحث ہے اور اسرائیل و حماس دونوں کی جانب سے اس پر اختلافات سامنے آ سکتے ہیں۔ العریش کو بطور مرکز اختیار کرنا محض مذاکراتی مرحلے میں ہے اور اس وقت کسی کے لیے اس کی تصدیق ممکن نہیں۔ فی الحال ترجیح یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی جیسے اہم معاملات کو دی جا رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگر مذاکرات میں العریش کا نام سامنے آتا ہے تو مصر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنگ بندی منصوبہ بندی کے لیے درکار سہولیات فراہم کرے گا، بشرط یہ کہ فلسطینی خودمختاری کا احترام کیا جائے۔ ہمیں کسی بھی بین الاقوامی مشاورتی کردار سے کوئی اعتراض نہیں، جب تک وہ فلسطینی خودمختاری کے فروغ اور تحفظ کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرے۔ مصری ذرائع کے مطابق چاہے ہیڈکوارٹر العریش میں ہو یا مصر کی کسی نامزد شخصیت کے تحت، اگر مقصد فلسطینیوں کو غزہ کے انتظام اور تعمیر نو میں بااختیار بنانا ہے تو مصر اس کا خیر مقدم کرے گا، کیونکہ یہ مصری قومی سلامتی، فلسطینی عوام کے حقوق اور فلسطین کی خودمختاری کے لیے فائدہ مند ہے۔واضح رہے کہ قاہرہ نے اب تک اس منصوبے پر کوئی سرکاری ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
منصوبہ، جسے غزہ انٹرنیشنل ٹرانزیشنل اتھارٹی (GITA) کا نام دیا گیا ہے، کے تحت ایک اعلی کونسل تشکیل دی جائے گی جس میں بین الاقوامی سفارت کار اور اقتصادی شخصیات شامل ہوں گی، جبکہ فلسطینی نمائندگی کو صرف انتظامی و خدماتی کردار تک محدود رکھا جائے گا، جسے سیاسی خودمختاری حاصل نہیں ہوگی۔ ماہرین کے مطابق غزہ کی انتظامی اتھارٹی کے صدر دفتر کے طور پر مصری شہر العریش کا انتخاب محض انتظامی فیصلہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے واضح سیاسی و تزویراتی (اسٹریٹجک) پہلو پوشیدہ ہیں۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فلسطین کے ایک شہر کی نگرانی کے لیے مصر کے ایک شہر کو مرکز بنانا دراصل مصر کے علاقائی کردار میں ایک بڑی تبدیلی کے مترادف ہے، جس کے بدلے میں نہ کوئی سیاسی اور نہ ہی سکیورٹی فائدہ واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر غزہ کی انتظامیہ کو فلسطینی ریاست سے باہر سے کنٹرول کیا گیا تو اس سے غزہ اور مغربی کنارے کے درمیان جغرافیائی علیحدگی کے اسرائیلی منصوبے کو تقویت مل سکتی ہے، جس کے نتیجے میں غزہ ایک نیم خودمختار بین الاقوامی زیرانتظام اکائی میں تبدیل ہوجائے گا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس مجوزہ منصوبے کے تحت مصر کا کردار روایتی سرپرستِ فلسطین کے بجائے ایک بین الاقوامی منصوبے کے شریک فریق میں بدل سکتا ہے، جس کا اصل مقصد فلسطینی مزاحمت کو محدود کرنا اور اسرائیل کے ساتھ بتدریج وسیع تر تعلقات کی راہ ہموار کرنا ہوگا۔
اسی تناظر میں ماہرین نے نشاندہی کی کہ ماضی میں فلسطین سے متعلق تمام اہم معاہدے (جیسے اوسلو معاہدہ وغیرہ) فلسطینی سرزمین پر ہی طے پاتے رہے ہیں، مگر اب پہلی بار ایسا عمل ایک عرب ملک کے اندر کیا جا رہا ہے، جو فلسطینی مسئلے کی مرکزیت کو کمزور اور اس کے قانونی و سیاسی حوالوں کو منتشر کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ تجزیاتی حلقوں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کے لیے عارضی انتظامی ڈھانچے کا قیام مصر اور فلسطین دونوں کی قومی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کر سکتا ہے ۔ ان کے مطابق یہ انتظام تعمیرِ نو کے دائرے سے نکل کر سلامتی اور سیاسی امور تک پھیل سکتا ہے جیسا کہ ماضی میں مغربی کنارے میں ہوا، جس کے نتیجے میں مصری خودمختاری مستقبل میں محدود ہوسکتی ہے۔ اسی طرح مصر میں بین الاقوامی اتھارٹی کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ فریق اقوامِ متحدہ کے کردار میں اضافے یا لبنان کی طرز پر بین الاقوامی افواج کے قیام کا مطالبہ کر سکتے ہیں، جس سے فلسطینی فیصلہ سازی اور اندرونی ہم آہنگی متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ مزید برآں ماہرین نے عوامی سطح پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات (تطبیع) کے حوالے سے بھی تشویش ظاہر کی ہے۔
ان کے مطابق العریش مستقبل میں ایک ایسا رابطہ مرکز بن سکتا ہے جہاں سماجی اور ابلاغی (میڈیا) سطح پر اسرائیل کے ساتھ تعاون کو جنگ کے بعد کے انتظام کے نام پر فروغ دیا جا سکتا ہے، جو بالآخر فلسطینی عوام کے تاریخی حقوق اور ان کی جدوجہد کو پسِ پشت ڈالنے کی راہ ہموار کرے گا۔ بعض تجزیہ کاروں نے اس پلان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پلان 2019ء میں ٹرمپ دور میں بننے والا ڈیل آف دی سنچری کا متبادل یا اس کا سافٹ ماڈل ہے۔ اس میں بھی فلسطینی ریاست کے دارالحکومت کو مشرقی بیت المقدس کے بجائے متبادل جگہ دینے اور فلسطینیوں کے لئے سینا میں صنعتی زون اور اباد کاری کا منصوبہ شامل تھا۔