سلامتی کونسل میں امریکا کا ’غزہ منصوبہ‘ منظور

رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے نیویارک میں ہونے والے اجلاس کے دوران غزہ کی جنگ روکنے اور مستقبل کے انتظامات کے لیے امریکا کا نیا منصوبہ بھاری اکثریت سے منظور کر لیا۔
یہ فیصلہ ایک طویل سفارتی مہم، کئی بار ترامیم، اتحادی ممالک کی مشاورت اور عالمی دباو کے بعد سامنے آیا۔ سلامتی کونسل کے 15 میں سے 13 ارکان نے قرارداد کی حمایت کی جبکہ دو مستقل ارکان (روس اور چین) نے ووٹ دینے سے پرہیز کیا۔ یوں قرارداد نمبر 2803 باضابطہ طور پر منظور ہوگئی۔ یہ منصوبہ دراصل 20 نکاتی وہی ’ٹرمپ پلان‘ ہے جسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 29 ستمبر 2025ء کو پیش کیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت غزہ میں ایک نئی بین الاقوامی فورس تعینات کی جائے گی، تعمیرِنو کے لیے ’مجلس السلام‘ نامی سول اتھارٹی قائم ہوگی اور فلسطینی اتھارٹی کی اصلاحات مکمل ہونے تک عالمی نگرانی برقرار رہے گی۔ اس پورے نظام کی مدت 2027ء کے آخر تک مقرر کی گئی ہے۔ سلامتی کونسل نے سفارش کی کہ جنگ بندی پر مکمل عمل کیا جائے اور غزہ کی تعمیرِ نو فوری طور پر شروع کی جائے لیکن جہاں ایک طرف امریکا اور اس کے اتحادی اس فیصلے کو اہم سفارتی پیش رفت قرار دے رہے ہیں وہیں فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس اور کئی علاقائی تجزیہ کار اسے سنگین خدشات کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔
امریکی منصوبے کی بنیادیں اور فورس کا نقشہ
امریکا کئی ہفتوں سے سلامتی کونسل میں ایک ایسا مسودہ منظور کرانے کی کوشش کرتا رہا جس کا مرکزی خیال غزہ کو ایک ’انتقالی انتظام‘ کے تحت لانا ہے۔ اس مقصد کے لیے قوة الاستقرار الدولیة (ISF) یعنی ’بین الاقوامی فورس برائے استحکام‘ قائم کی جائے گی۔ یہ فورس غزہ میں امن و امان قائم کرے گی، تعمیرِ نو کی نگرانی کرے گی اور فلسطینی پولیس کو تربیت فراہم کرے گی۔امریکی حکام کے مطابق یہ فورس امن فوج (Peacekeeping Force) نہیں بلکہ ایک ’استحکام پیدا کرنے والی فور‘ ہوگی۔ اس کے اختیارات عام امن فوج سے زیادہ وسیع ہوں گے جن میں ضرورت پڑنے پر فوجی کارروائی کی اجازت بھی شامل ہے۔ فورس کے بارے میں اہم نکات کچھ یوں ہیں:یہ مصر اور اسرائیل کے ساتھ براہِ راست رابطے میں کام کرے گی۔ اس کا بنیادی مقصد غزہ کو غیرمسلح کرنا قرار دیا گیا ہے۔ اس کے کارکنان کی تعداد 12 سے 15 ہزار تک ہوگی۔ کمان مکمل طور پر امریکا کے پاس ہوگی۔ اگر کسی مقام پر صورتحال بگڑتی ہے تو فورس کارروائی کرسکے گی۔ یہ فورس آنے کے بعد اسرائیلی فوج بتدریج غزہ سے نکلے گی لیکن انخلا وقت نہیں بلکہ کارکردگی سے مشروط ہوگا۔ یعنی جب تک ’مطلوبہ سیکورٹی معیار‘ پورا نہیں ہوگا اسرائیل پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اس کا اصل مقصد غزہ میں دوبارہ کسی مسلح مزاحمت کے ابھرنے کو روکنا ہے۔ ایک اسرائیلی سیکورٹی اہلکار کے مطابق: ’ہم تب تک نہیں نکلیں گے جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ ہمارے خلاف کوئی بندوق دوبارہ نہیں اٹھے گی۔‘ اسرائیل محدود تعداد میں اپنی فوج غزہ کے اردگرد رکھے گا بالکل اسی طرز پر جیسے وہ 1985ء سے 2000ء تک جنوبی لبنان میں کرتا رہا۔
نیا انتظامی ڈھانچہ اور امریکی کنٹرول
منصوبے میں مجلس السلام نامی نئی سول اتھارٹی بنائی گئی ہے جو غزہ میں تمام شہری انتظامات، تعمیرِ نو اور بین الاقوامی تعاون کی نگرانی کرے گی۔ تمام امداد اسی کونسل کے ذریعے تقسیم ہوگی اور تمام عملی ادارے اس کے ماتحت ہوں گے۔ یہ کونسل براہِ راست امریکی وزارتِ خارجہ اور امدادی فنڈز سے جڑی ہوگی۔ اس کی مدتِ کار 2027ء کے آخر تک ہوگی۔ اسے ہر چھ ماہ بعد سلامتی کونسل کو رپورٹ جمع کرانا ہوگی۔ عرب ممالک کا کردار یہاں مشاورتی اور معاون نوعیت کا ہے۔ امریکا کے مطابق مصر، اُردن، امارات، مراکش اور ممکنہ طور پر سعودی عرب تعاون فراہم کریں گے، لیکن ترکی کی سیکورٹی کردار میں شمولیت پر اسرائیل نے کھل کر اعتراض کیا ہے، اسی لیے ترکی کو صرف انسانی امداد اور تعمیرِنو تک محدود رکھا گیا ہے۔ عالمی بینک اور دیگر مالی اداروں سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ غزہ کی تعمیرِنو کے لیے خصوصی فنڈ قائم کریں اور مالی مدد فراہم کریں۔
غزہ کا غیرمسلح کیا جانا اہم شرط
امریکی منصوبے کی سب سے اہم شق غزہ کو مکمل طور پر غیرمسلح کرنا ہے۔ اس میں مزاحمت کا ہر طرح کا اسلحہ ختم کرنا، اسلحہ بنانے کی صلاحیت کو روکنا اور سرحدوں کی نگرانی شامل ہے۔ بین الاقوامی فورس اسی کام کی نگرانی کرے گی۔ اس شق پر ہی فلسطینی حلقوں میں سب سے زیادہ اعتراض آرہا ہے۔ حماس کے مطابق یہ ایسی شرط ہے جو فورس کو صرف ایک فریق (اسرائیل) کے حق میں بھاری بناتی ہے۔ حماس نے سلامتی کونسل کی جانب سے امریکی منصوبے کی منظوری پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ قرارداد فلسطینی عوام کے سیاسی اور انسانی حقوق کے مطابق نہیں کیونکہ یہ غزہ پر ’بین الاقوامی تسلط‘ نافذ کرتی ہے۔ یہ وہ مقاصد پورے کرنے کی کوشش ہے جو اسرائیل جنگ کے ذریعے حاصل نہ کرسکا۔ یہ غزہ کو فلسطینی جغرافیے سے الگ کرنے کا خطرناک عمل ہے۔ بین الاقوامی فورس کو مزاحمت کا اسلحہ چھیننے کا اختیار دینا اسے غیر جانب دار نہیں چھوڑتا۔ حماس کا کہنا ہے کہ فلسطینی عوام اور مزاحمتی قوتیں اس طرح کے منصوبے کو کبھی قبول نہیں کریں گی۔ کئی فلسطینی تجزیہ کار بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ فلسطینی ریاست کے راستے میں نئی رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے، کیونکہ اس کی پوری ساخت میں امریکی کنٹرول سب سے واضح عنصر ہے۔
اسرائیلی خدشات اور اعتراضات
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل بھی امریکی منصوبے پر مکمل مطمئن نہیں۔ اسرائیلی سیاسی ذرائع کے مطابق منصوبے میں فلسطینی ریاست کے قیام کا اشارہ انہیں پریشان کر رہا ہے۔ اسرائیل فورس میں شامل ممالک کے انتخاب پر اعتراض نہیں کرسکے گا، یہ بھی اس کے لیے مسئلہ ہے۔ اسرائیلی سیکورٹی اداروں کو اس منصوبے پر اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اس کے باوجود اسرائیل خاموش حمایت کر رہا ہے، کیونکہ اسے غزہ کی مکمل غیرمسلح کاری اور علاقائی سیکورٹی میں امریکا کی شمولیت فائدہ مند دکھائی دیتی ہے۔
روس اور چین کا متبادل نقطہ نظر
روس نے اسی دوران سلامتی کونسل میں ایک الگ مسودہ پیش کیا ہے جو امریکی منصوبے سے بالکل مختلف ہے۔ روسی مسودے میں غزہ کو غیرمسلح کرنے کا ذکر نہیں۔ بین الاقوامی فورس کے لیے کسی خاص ملک کا کنٹرول نہیں۔ اسرائیلی انخلا کے لیے واضح وقت کا مطالبہ۔ غزہ کی سرحدوں میں کسی تبدیلی کی مخالفت، فلسطینی ریاست کو مرکزی حیثیت دینا بھی شامل ہے۔ چین بھی امریکی منصوبے کی مکمل مخالفت کر رہا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ امریکی پلان میں فلسطینی ریاست کا اصل تصور کمزور ہے۔ روس نے ووٹنگ رکوانے کی بھی کوشش کی، لیکن امریکا نے عرب ممالک کی مدد سے اکثریت حاصل کرلی۔ ٭مختلف ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی امریکی کوشش: امریکا نے منصوبے کے لیے غیرمعمولی سفارتی سرگرمی کی۔ قطر، مصر، اُردن، ترکی، امارات، سعودی عرب، پاکستان، انڈونیشیا اور دیگر ممالک سے رابطے کیے گئے۔ کئی ممالک نے مشروط حمایت کی تاکہ روس اور چین کے اعتراضات کا وزن کم ہوسکے۔ تاہم الجزائر اور چند دیگر ممالک اب بھی منصوبے کے بعض نکات پر تحفظات رکھتے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق چین چاہتا ہے کہ امریکی منصوبے کا زیادہ حصہ مسودے سے نکال دیا جائے جبکہ فرانس اور روس فلسطینی ریاست کے ذکر کو لازمی بنانا چاہتے ہیں۔
غزہ کی تعمیرِ نو اور مستقبل کی سمت؟
امریکی منصوبے میں غزہ کی تعمیرِ نو کو سب سے اہم عنصر قرار دیا گیا ہے۔ مجلس السلام کے قیام، عالمی بینک کی شمولیت اور عالمی امداد کے ممکنہ بہاو سے یہ امید پیدا کی جا رہی ہے کہ 2027ء تک غزہ میں نئی شہری انتظامیہ اور بہتر بنیادی ڈھانچہ قائم ہو جائے گا۔ لیکن کئی ماہرین کا خیال ہے کہ جب تک غزہ کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ واضح نہیں ہوگا، تعمیرِ نو مستقل شکل اختیار نہیں کرسکے گی۔ اسی لیے سلامتی کونسل نے بیان میں کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی اصلاحات اور تعمیرِ نو میں پیش رفت ایک نئے فلسطینی ریاستی ڈھانچے کے لیے ماحول تیار کرسکتی ہے۔
غیر یقینی کیفیت برقرار
یہ منصوبہ بظاہر ایک جامع انتظامی اور سیکورٹی ڈھانچا فراہم کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی کئی سنگین سوالات بھی چھوڑ جاتا ہے: کیا غزہ کی غیرمسلح کاری عملی طور پر ممکن ہے؟ کیا بین الاقوامی فورس فلسطینی عوام کا اعتماد حاصل کر پائے گی؟ کیا امریکا واقعی غیرجانبدار انتظام فراہم کرے گا؟ کیا اسرائیلی فوج کارکردگی کی بنیاد پر انخلا کرے گی یا تاخیر جاری رہے گی؟ کیا یہ منصوبہ فلسطینی ریاست کے قیام کو قریب کرے گا یا دور؟ سلامتی کونسل کی قرارداد تو منظور ہو گئی، لیکن غزہ کا حقیقی مستقبل اب بھی متعدد سیاسی، عسکری اور علاقائی عوامل سے جڑا ہوا ہے۔ امریکی منصوبہ بلاشبہ نیا موڑ ہے، مگر فلسطینی عوام اور مزاحمتی گروہوں کے شدید اعتراضات کے باعث اس منصوبے پر عمل درآمد ایک مشکل اور طویل راستہ ثابت ہوسکتا ہے بلکہ بادی النظر میں یہ ممکن بھی دکھائی نہیں دیتا۔