امریکا میں ارب پتی طبقہ ایک بار پھر سیاسی و معاشی بحث کے مرکز میں ہے۔ کچھ کے نزدیک یہی لوگ ملک کی ترقی کا محرک ہیں، تو کچھ کے خیال میں یہی طبقہ عدم مساوات کو بڑھا رہا ہے۔
نیویارک سٹی کے پہلے مسلمان میئر کے طور پر زہران ممدانی کا انتخاب اُن نظریات کی جیت ہے جو امیروں پر زیادہ ٹیکس اور عوامی فلاح پر زیادہ خرچ کے حامی ہیں۔ تقریباً 25 سال بعد ریکارڈ ووٹر ٹرن آؤٹ والے اس الیکشن میں زیادہ تر شہریوں نے اس 34 سالہ نوجوان ڈیموکریٹ پر اعتماد ظاہر کیا، جو افریقا میں پیدا ہونے والے بھارتی نژاد امریکی ہیں۔ ممدانی کا کہنا ہے کہ وہ بڑھتے کرایوں، مہنگائی اور غیر مساوی دولت کی تقسیم جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہیں۔
ان کی تجاویز میں کارپوریٹ ٹیکس بڑھانا اور ایک ملین ڈالر سے زائد آمدنی پر 2 فیصد ٹیکس لگانا شامل ہے۔ خود کو “ڈیموکریٹک سوشلسٹ” کہنے والے ممدانی کی جیت نے اُن حلقوں کو حوصلہ دیا ہے جو سمجھتے ہیں کہ امیر طبقے پر ٹیکس لگانے سے عوامی فلاح کے لیے وسائل پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہےکہ یہ سوچ حقیقت سے دور ہے اور سرمائے کے انخلا کا باعث بن سکتی ہے۔
میئر کے الیکشن میں فتح کے بعد ممدانی نے اپنی تقریر میں مزدور طبقے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جن ہاتھوں نے گوداموں میں بکس اُٹھائے، جن ہتھیلیوں پر سائیکل کے ہینڈل کے نشان ہیں، جن انگلیوں پر باورچی خانے کے زخم ہیں، ان ہاتھوں کو کبھی طاقت نہیں دی گئی۔ مگر آج انہی ہاتھوں نے یہ طاقت حاصل کر لی ہے۔
یہ الیکشن صرف ایک سیاسی مقابلہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی جنگ بھی تھی کہ کیا ارب پتی طبقہ ترقی کے لیے ضروری ہے یا عدم مساوات کی جڑ ہے؟ ممدانی نے کہا تھا میں نہیں سمجھتا کہ ہمیں ارب پتی افراد کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو خود ایک ارب پتی ہیں، نے اپنے پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ اگر کمیونسٹ امیدوار زہران ممدانی نیویارک کے میئر منتخب ہوئے تو میں اس شہر کے لیے وفاقی فنڈز کم سے کم سطح پر رکھوں گا۔
یہ ٹکراؤ صرف سیاست کا نہیں بلکہ معیشت کا بھی ہے۔ ٹرمپ کا الزام ہے کہ ملک کی مشکلات کی وجہ غیر منصفانہ تجارتی پالیسیاں، غیر قانونی تارکین وطن اور میڈیا کے گمراہ کن بیانیے ہیں۔
دوسری جانب ممدانی کا کہنا ہے کہ یہ سب اس ٹیکس نظام کا نتیجہ ہے جو امیروں کے حق میں بنایا گیا ہے۔
انتخابات سے ایک روز پہلے ممدانی نے بروکلین برج پر واک کرتے ہوئے کہا کہ میں ہر دن اس شہر کو اس طرح تیار کروں گا کہ وہ نہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ جیسے خطرات کا مقابلہ کرے بلکہ اس بحران سے بھی نمٹے جو ہر چار میں سے ایک نیویارکر کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل چکا ہے۔
امریکا میں ارب پتیوں کی طاقت
امریکہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ارب پتی رکھنے والا ملک ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 3,503 ارب پتیوں میں سے 1,135 امریکا میں ہیں، جو عالمی دولت کا 43 فیصد رکھتے ہیں۔ صرف گزشتہ سال دنیا کے ارب پتیوں کی مشترکہ دولت 13 کھرب ڈالر تک پہنچ گئی تھی جو بیشتر ممالک کی معیشتوں سے زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگرچہ ارب پتی افراد آبادی کا صرف 0.07 فیصد ہیں، لیکن وہ دنیا کی دولت کے 13 فیصد پر قابض ہیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق یہ طبقہ عام امریکیوں سے بظاہر جڑا ہوا لگتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ایلون مسک، بل ایکمین اور خود ٹرمپ براہ راست عوام سے گفتگو کرتے ہیں مگر حقیقت میں عام لوگ ان سے پہلے سے زیادہ دور ہو چکے ہیں۔ گھروں کے کرائے، صحت کے اخراجات اور بڑھتی مہنگائی نے درمیانی طبقے کو دباؤ میں رکھا ہے۔
دولت کی بڑھتی خلیج
امریکی فیڈرل ریزرو کے مطابق ملک کی مجموعی دولت کا 67 فیصد صرف امیر ترین 10 فیصد گھرانوں کے پاس ہے جب کہ نچلے 50 فیصد کے پاس صرف 2.5 فیصد دولت باقی ہے۔ نیویارک میں ایک عام اپارٹمنٹ کی قیمت ایک ملین ڈالر تک پہنچ گئی ہے اور اوسط کرایہ ایک عام خاندان کی آمدنی کا 55 فیصد کھا جاتا ہے۔
1950 اور 1970 کی دہائیوں میں امریکا میں آمدن میں برابری کی شرح نسبتاً متوازن تھی، مگر 1970 کے بعد سے دولت کا بڑا حصہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہو گیا۔ اب “ایک فیصد” کی آمدن تیزی سے بڑھ رہی ہے جبکہ عام امریکی کی اجرت مہنگائی کے ساتھ نہیں بڑھ پائی۔
غربت کے خلاف جنگ
ممدانی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا کہ وہ غربت، بے گھری اور بڑھتی مہنگائی کے خلاف لڑائی کو اپنی اولین ترجیح بنائیں گے۔ انہوں نےصدر ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب ٹرمپ 30 کروڑ ڈالر وائٹ ہاؤس کے نئے بال روم پر خرچ کر رہے ہیں، تو وہ اسی رقم سے ایک لاکھ نیویارک باشندوں کے لیے فوڈ اسٹیمپ کی سہولت فراہم کرسکتے تھے۔
یہ سیاسی لڑائی دراصل اس پرانی بحث کا نیا روپ ہے جو صدیوں سے جاری ہے۔ دولت مندوں اور غریبوں کے درمیان فاصلہ، طاقت کی تقسیم اور انصاف کے تصور پر اختلاف۔
امریکا آج بھی دو ملکوں کی مانند ہے، ایک وہ جو ارب پتیوں کی طاقت میں یقین رکھتا ہے اور دوسرا وہ جو اس طاقت کو عوام کے حق میں تقسیم کرنے کا خواب دیکھتا ہے۔

