رپورٹ: علی ہلال
سوڈان میں اپریل 2023ء سے سرکاری آرمی اور باغی ملیشیا آر ایس ایف کے درمیان جاری خانہ جنگی سے متعلق بہت کچھ لکھا جارہا ہے ، لیکن مختصر کہانی یہ ہے کہ اس تمام لڑائی کا مرکز صوبہ دارفور ہے۔ جو ریپیڈ فورس یعنی باغی ملیشیا کا ہوم ٹاون بھی ہے۔ دارفور کی لڑائی کوئی نئی نہیں ہے بلکہ نوے کی دہائی میں بھی دارفور میں کھیلے جانے والے قتل عام نے اسلامی دنیا کو ڈسٹرب کر رکھا تھا۔ اس مرتبہ پھر دارالحکومت خرطوم سے نکل کر لڑائی کا دائرہ دارفور تک پھیلا گیاہے۔ دارفور کا مطلب فور قبیلے کی سرزمین ہے۔
یہ علاقہ دراصل سلطنتِ دارفور اسلامیہ کا مرکز رہا ہے جہاں قبیلہ ’فور‘صدیوں تک حکمرانی کرتا رہا۔ یہ خطہ سوڈان کے کل رقبے کا تقریباً ایک تہائی ہے جس کی وسعت پانچ لاکھ گیارہ ہزار مربع کلومیٹر یعنی تقریباً فرانس کے برابر ہے۔دارفور کو قدرت نے بے پناہ دولت و وسائل سے نوازا ہے، اسی لیے تاریخ میں یہاں ہمیشہ اقتدار اور قبضے کی جنگیں جاری رہیں۔مختلف تحقیقاتی رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ کے عہد میں والیِ دارفور کو مکہ مکرمہ اور کعبہ کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور اس وقت کے مشہور حکمراں علی بن دینار نے 1898ء میں دارفور کو اسلامی خدمت کا مرکز بنایاتھا۔
دارفور کے بارے کچھ حقائق ایسے بھی ہیں جنہیں عام لوگ نہیں جانتے۔دارفور میں واقع جبل مُرہ کرہ ارض کے عجائبات میں شمار ہوتا ہے۔ اس کی لمبائی 165 کلومیٹر اور چوڑائی 65 تا 80 کلومیٹر ہے جبکہ بلندی 10 ہزار فٹ ہے۔ یہ پہاڑ ایک ایسا قدرتی نظام رکھتا ہے جہاں چاروں موسم بیک وقت پائے جاتے ہیں۔ پہاڑ کے دامن میں چشمے، جھیلیں، زراعت اور سبزہ زار ہیں۔ ایک پورا قدرتی خطہ جس کا رقبہ لبنان کے برابر ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر اسے ترقی دی جائے تو یہ دنیا کا سب سے بڑا سیاحتی منصوبہ بن سکتا ہے۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ جبل مرہ ممکنہ طور پر وہی جبلِ طور ہے جس کا ذکر کتبِ مقدسہ میں آتا ہے مگر یہ نظریہ تاریخی طور پر غیرثابت شدہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ کان دارفور کے جنوبی حصے میں واقع ہے جہاں پانچ ارب ٹن کے قریب تانبا موجود ہے۔ اس کے علاوہ سونا اور دیگر قیمتی دھاتیں بھی بکثرت پائی جاتی ہیں۔
دارفور کے جبل عامر کو اس صوبے کی مشکلات کا گڑھ یا سبب کہا جاتا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق دارفور میں یورینیم کے ذخائر تقریباً چھ ملین ٹن تک ہیں۔ ایک سابق اہلکار نے سنہ 2000ءمیں بتایا کہ اقوام متحدہ کے تقریباً ایک لاکھ اہلکار دارفور میں موجود تھے جن کی اولین ذمہ داری ان معدنی علاقوں کی حفاظت تھی۔ بعدازاں 2010ء میں جبل عامر کی دریافت ہوئی جہاں اندازا 3000 ٹن سونا موجود ہے اور روزانہ تقریباً 150 کلوگرام سونا نکالا جاتا تھا۔ 2014ءمیں اس پہاڑ پر فورسز آف ریپڈ سپورٹ کا قبضہ ہوگیا۔ رپورٹ کے مطابق دارفور قدرتی تیل کے حوالے سے بھی دنیا کے امیر ترین خطوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں دو عظیم تیل کے ذخائر ایک دوسرے کو حرف وی کی طرح کاٹتے ہیں ۔ایک کا سلسلہ روس، ایران اور خلیج سے ہوتا ہوا بحرِاحمر اور سوڈان تک پہنچتا ہے جبکہ دوسرا نائجیریا سے شروع ہوکر دارفور میں ختم ہوتا ہے۔ یہ انکشاف تقریباً 27 سال قبل الجزیرہ چینل پر نشر ہوا تھا، لیکن کچھ ہی عرصے بعد اسے مبینہ طور پر حذف کردیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق دارفور کے زیرِ زمین ’الحوض النوبی‘ کو دنیا کا سب سے بڑا قدرتی آبی ذخیرہ مانا جاتا ہے۔ تحقیقات کے مطابق اگر برسوں تک بارشیں بند بھی ہوجائیں تو یہ خزانوں کا نظام140 ملین جانوروں اور انسانوں کو 500 برس تک پانی فراہم کرسکتا ہے۔ یہی خزانہ سوڈان کے کئی دیگر حصوں تک پھیلا ہوا ہے۔
دارفور کی کہانی جبل عامر کے بغیر ادھورہی ہے۔ 2010ء میں جب سیٹلائٹ کی مدد سے جبل عامر کا پتہ چلا تو وہاں سونے کے ذخائر نے ماہرین کو حیران کردیا۔ بعد میں قبائل اور حکومت نے مجلس جبل عامر تشکیل دی، جس میں 100 سرکردہ شخصیات شامل تھیں۔ یہ پہاڑ آج بھی سوڈان کی سونے کی دولت کا مرکز مانا جاتا ہے۔ دارفور میں الماس، قیمتی پتھر، نایاب دھاتیں، زِنک، سیسہ، ٹائٹینیم اور حتی کہ شہابی پتھروں تک کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ یہ خطہ معدنی لحاظ سے ایک قدرتی عجوبہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق دارفور کی مویشیوں کی دولت اتنی وسیع ہے کہ کہا جاتا ہے کہ جانوروں کی تعداد انسانی آبادی سے دس گنا زیادہ ہے۔ دارفور کی تقسیم کا منصوبہ اور مستقبل کیا ہے؟ 1994ء میں سوڈان کی ایک خفیہ نقشہ بندی میں ملک کو پانچ حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ 2005ء میں جنوبی سوڈان کے علیحدہ ہونے کے بعد اگلا ہدف دارفور کو تیسری ریاست کے طور پر الگ کرنا بتایا جاتا ہے۔ دارفور میں ہونے والی خانہ جنگی، نسلی تنازعات اور انسانی المیے اسی عالمی منصوبے کا حصہ قرار دیے جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دارفور وہ سرزمین جس کے نیچے سونا، تیل، یورینیم اور پانی کے سمندر چھپے ہیں، لیکن اوپر انسانیت بھوک، جنگ اور سیاست کی قیمت چکا رہی ہے۔ یہ کہانی صرف ماضی کی نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے مفادات اور افریقہ کی چھپی دولت کی وہ داستان ہے جو ابھی مکمل طور پر بیان نہیں ہوئی۔

