غزہ میں بین الاقوامی استحکام فورسز کی تعیناتی اور حکومت سازی کے 6 ممکنہ ماڈلز

رپورٹ: علی ہلال
غزہ کی پٹی میں جنگ بندی اور قیام امن کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پلان زیر بحث ہے جس کے ضمن میں غزہ کی پٹی میں بین الاقوامی استحکام فورسز کی تعیناتی پر بات چیت جاری ہے۔ امریکا نے گزشتہ روز اُن ممالک کی لسٹ بھی جاری کردہ ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق غزہ میں ’بین الاقوامی استحکام فورس‘ کے قیام پر واشنگٹن نے ممالک کی فہرست جاری کر دی ہے۔ امریکی وزیرِخارجہ مارکو روبیو نے ہفتے کے روز اُن ممالک کی ایک فہرست جاری کی جو ممکنہ طور پر غزہ میں بین الاقوامی استحکام فورس کی تعیناتی میں حصہ لے سکتے ہیں، جن میں دو عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روبیو نے بتایا کہ ’متعدد ممالک‘ اس فورس کا حصہ بننے میں دلچسپی رکھتی ہیں تاہم انہیں ابھی مشن کی تفصیلات اور قواعدِکار سے متعلق مزید وضاحت درکار ہے۔ اسرائیل سے قطر جاتے ہوئے بات کرتے ہوئے روبیو نے کہا کہ امریکا اقوامِ متحدہ میں ایک قرارداد پیش کرسکتا ہے جو اس فورس کو بین الاقوامی حمایت فراہم کرے، تاکہ زیادہ سے زیادہ ممالک اس میں شامل ہوسکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’امریکا، قطر، مصر اور ترکی کے ساتھ بات چیت کررہا ہے‘ جبکہ انڈونیشیا اور آذربائیجان کی جانب سے بھی شمولیت میں دلچسپی ظاہر کی گئی ہے۔ امریکی وزیرخارجہ نے وضاحت کی کہ ’بہت سے ممالک جو اس مشن کا حصہ بننا چاہتے ہیں، وہ اقوامِ متحدہ کے مینڈیٹ کے بغیر ایسا نہیں کر سکتے‘۔
اسرائیل، امریکا اور جنگ بندی معاہدے کے دیگر ثالث ممالک غزہ میں ممکنہ خطرات کی روک تھام کے لیے معلومات کا تبادلہ کررہے ہیں اور اسی تعاون کی بدولت گزشتہ ہفتے کے اختتام پر ایک ممکنہ حملے کی پیشگی نشاندہی کی جاسکی۔ الجزیرہ کے مطابق اسرائیل غزہ پٹی کی موجودہ صورتحال اس وقت ایک نئے موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ اس منصوبے کے تحت غزہ میں ایک بین الاقوامی سکیورٹی فورس کے قیام کا تصور پیش کیا گیا ہے جو جنگ کے بعد وہاں استحکام قائم رکھنے کے لیے تعینات کی جائے گی۔ بین الاقوامی سطح پر جاری مذاکرات کے نتیجے میں مختلف منظرنامے (سینیریوز) سامنے آئے ہیں جن میں اس فورس کی نوعیت، کردار اور دائرہ کار کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ امریکی اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ، خبر رساں ادارے رائٹرز اور سینٹر فار اسٹریٹجک انٹرنیشنل اسٹڈیز کی رپورٹس کے مطابق چھ ممکنہ ماڈلز پر غور کیا جارہا ہے جو غزہ کے مستقبل کا نقشہ متعین کرسکتے ہیں۔
٭….پہلا منظرنامہ یہ ہے کہ غزہ میں بین الاقوامی سول پولیس فورس کی قیادت میں ایک تعاوناتی مرکز قائم کیا جائے، جس میں اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور ایک عبوری فلسطینی حکومت شامل ہوں جبکہ اسرائیل اور مصر سرحدی اُمور میں اشتراک کریں۔
٭….دوسرا منظرنامہ یہ ہوگا کہ فلسطینی اتھارٹی کو دوبارہ بااختیار بنایا جائے یا ایک عارضی فلسطینی حکومت تشکیل دینا، جو بتدریج غزہ کی شہری و سکیورٹی انتظامیہ سنبھالے۔ اس کے ساتھ بین الاقوامی حمایت کے ذریعے پولیس اور سول ڈیفنس اداروں کی ازسرِنو تشکیل کی جائے۔
٭….تیسرا منظرنامہ ہائبرڈ ماڈل کا ہے۔ اس منصوبے میں مقامی فلسطینی پولیس اندرونی طور پر کام کرے گی جبکہ بین الاقوامی ماہرین اُن کی معاونت کریں گے۔ ساتھ ہی عالمی مبصرین سرحدی چوکیوں کی نگرانی کریں گے اور ایک بین الاقوامی مانیٹرنگ نظام کے تحت سکیورٹی و انتظامی کارکردگی پر نظر رکھی جائے گی۔
٭….چوتھا منظرنامہ یہ ہے کہ غزہ میں اسرائیلی اثر و رسوخ کا تسلسل برقرار رہے، خواہ براہِ راست فوجی کنٹرول کی صورت میں ہو یا مقامی سول انتظامیہ کے ذریعے بالواسطہ نگرانی کے ذریعے۔
٭….پانچواں منظرنامہ اس حوالے سے یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی امن فوج (Mission Peacekeeping ) کو سلامتی کونسل کے مینڈیٹ کے تحت تعینات کیا جائے، جو غزہ میں امن و استحکام قائم رکھنے، شہریوں کے تحفظ، اسرائیلی افواج کے انخلا کی نگرانی اور مقامی پولیس کی تربیت کی ذمہ داری سنبھالے۔
٭…. رپورٹ کے مطابق چھٹا اور آخری منظرنامہ یہ ہے کہ یہ منصوبہ ایک عبوری بین الاقوامی حکومت کے قیام پر مبنی ہے جسے ’غیتا‘ (GITA) کہا جارہا ہے۔ اس کے تحت ایک سکیورٹی وِنگ تشکیل دیا جائے گا جسے ’انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس‘ کہا جائے گا۔ برطانوی اخبار دی گارڈیئن کے مطابق امریکا نے کئی یورپی اور عرب ممالک کے ساتھ مل کر اس تجویز کی حمایت کی ہے کہ ’غیتا فورس‘ کو سلامتی کونسل کی قرارداد کے ذریعے غزہ کے اندر وسیع اختیارات دیے جائیں تاکہ وہ انتقالی نظم و نسق اور سکیورٹی کنٹرول موثر طریقے سے سنبھال سکے۔