قومی علماء و مشایخ کانفرنس کا مؤثر پیغام

قومی علماء و مشایخ کانفرنس میں علمائے کرام نے پاک فوج سے اظہار یکجہتی اور عسکری قیادت کو خراج تحسین کیا ہے۔کنونشن سینٹر اسلام آباد میں قومی علماء و مشائخ کانفرنس میں مختلف مکاتبِ فکر کے علماء نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ملکی صورتحال، عسکری اقدامات اور مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے اہم نکات پیش کیے۔ پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے علماء نے اپنے عزم کا اظہار کیا اور ملک کی سلامتی کے لیے متحد ہو کر کام کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ جامعة الرشید کے سربراہ مفتی عبدالرحیم نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاک فوج سے مکمل اظہارِ یکجہتی کیا اور عسکری قیادت کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستانی افواج کو محافظِ حرمین شریفین ہونے کا شرف عطا کیا ہے، ہماری فوج نہ صرف اسلامی فوج ہے بلکہ حرمین کی محافظ بھی ہے، اور یہ اعزاز اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ ہے، اللہ تعالیٰ نے ہماری فوج کو غزوہ ہند کی توفیق عطا فرمائی ہے، اس لیے پوری قوم کو فوج کا ہر صورت ساتھ دینا چاہیے۔

قومی علماء و مشایخ کانفرنس میں تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے ملک کے مقتدر علمائے کرام، مشایخ عظام اورمذہبی رہنماؤں کی جانب سے پاکستان کے دفاع،سلامتی اور داخلی سا لمیت کے تحفظ کی خاطر ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ اظہار یکجہتی تمام محب وطن قومی حلقوں کے لیے حوصلہ افزا امر اور دشمن قوتوں کے لیے ایک مؤثر پیغام ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی محافظ ہیں اور مئی کے معرکے میں ہماری مسلح افواج نے ازلی دشمن بھارت کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملاکر اور اسے منہ توڑ جواب دے کر یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستانی قوم ملک کی سرحدات کے تحفظ کے لیے اپنی بہادر افواج پر کامل بھروسا کرسکتی ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان کے دینی طبقات ، اسلامی مدارس، مذہبی تنظیمیں اور علمائے کرام ملک کی نظریاتی سرحدوں کے پاسبان ہیں۔ اہل نظر ہمیشہ سے یہ کہتے آئے ہیں کہ جب تک ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کا ماٹو رکھنے والی عظیم پاک فوج موجود ہے اور جب تک اس فوج کو ملک کے دینی طبقات کی حمایت اور دعائیں میسر ہیں، پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کو کوئی نقصان پہنچاسکتا ہے نہ اس کی نظریاتی سرحدوں پر نقب لگانے کی کوئی سازش کامیاب ہوسکتی ہے۔ اسلامی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آنے والاپاکستان عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت اور سب سے مضبوط عسکری قوت کا حامل ملک ہونے کی بنا پر ہمیشہ سے اسلام دشمن قوتوں کی آنکھوں میں کھٹکتا آیا ہے اور بالخصوص ہمارے پڑوس میں بیٹھے موذی دشمن بھارت کی نظر میں پاکستان کی اسلامی شناخت اور پاکستانی مسلح افواج کا جذبۂ جہاد ہی ”اصل مسئلہ” ہے ، پھر پاکستان کے عوام بالخصوص دینی حلقوں کی جانب سے ہر موڑ پر اپنی مسلح افواج کے ساتھ اظہار یکجہتی دشمن قوتوں کے لیے ایک حقیقی دردِسر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان دشمن قوتوں کی جانب سے پاکستان کی فوج اور عوام کے درمیان اعتماد کے رشتے کو کمزور کرنے اور پاکستان کی مسلح افواج اور یہاں کی دینی قوتوں کو ایک دوسرے سے لڑوانے کے لیے ہمہ جہتیںکوششیں اور سازشیں جاری ہیں۔ دشمن قوتیں کہیں حقوق کے نام پر لوگوں کو ریاست پاکستان اور پاک فوج کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر اکساتی ہیں تو کہیں مذہب یا شریعت کے نام پر سادہ لوح نوجوانوں کو گمراہ کرکے اپنی ہی ریاست اور افواج سے برسر پیکار ہونے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ بلوچستان میں قومیت اور صوبائیت کے نام پر اور خیبر پختونخوا کے بعض اضلاع میں جہاد اور شریعت کے نام پر فساد پھیلانے والے عسکریت پسند گروہ درحقیقت دشمن قوتوں کے اسی اسلام دشمن و پاکستان دشمن ایجنڈے پر دانستہ یا غیر دانستہ طور پر عمل پیرا ہیں۔ یہ دونوں شورشیں افغانستان کے ساتھ متصل سرحدی علاقوں میں برپا ہیں اور بدقسمتی سے افغانستان میں دونوں فتنہ پرداز گروہوں کو محفوظ ٹھکانے میسر ہیں۔ افغانستان میں اتحادی افواج کی چھتری تلے بھارتی خفیہ ایجنسی ر ا کا پورا ایک نیٹ ورک کام کررہا تھا جس کا خاص ہدف پاکستان میں فوج اور عوام کے درمیان خلیج پیداکرنے کے لیے وفاق گریز عسکریت پسند گروہوں کو مسلح کرنا تھا۔ حامد کرزئی اوراشر ف غنی کی کٹھ پتلی حکومتیںاس نیٹ ورک کو تحفظ دینے پر مامور تھیں۔ 2021ء میں اتحادی افواج کی شکست اور افغانستان سے انخلا کے ساتھ ہی بھارت کو بھی وہاں اپنے انٹیلی جنس آپریشن محدود کرنے پڑے تھے جس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بہت حد تک کمی دیکھنے میں آرہی تھی مگر مزید بدقسمتی یہ ہوئی افغانستان کی نئی طالبان حکومت بھی کچھ ہی عرصے بعد کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کی راہ پر چل نکلی بلکہ اس نے پاکستان میں تخریب کاری میں ملوث عسکریت پسند گروہوں کو باقاعدہ طور پر پناہ گاہیں دیں اور انہیں اپنی سرگرمیوں جاری رکھنے کی کھلی چھوٹ دے دی جس کے بعد پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی بھی بن آئی اور اس نے بھی طالبان حکومت کے ساتھ پینگیں بڑھانا شروع کردیں۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے پوری کوشش کی اور کئی بار سرکاری اور غیر سرکاری وفود بھیج کر طالبان انتظامیہ کو پیغام دیا کہ پاکستان کے ساتھ برادارنہ تعلقات کا تقاضا یہ ہے کہ افغانستان میں پاکستان دشمن قوتوں کو پنپنے نہ دیا جائے۔ افسوس کہ طالبان حکومت نے ہر دفعہ سنی ان سنی کردی اور الٹا پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھ میں کھیلنا شروع کردیا۔ چنانچہ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت آج مطمئن ہے کہ پاکستان کو مشرقی سرحد کے ساتھ ساتھ اب مغربی سرحد پر بھی دراندازیوں اور دہشت گردی کا سامنا ہے۔

ظاہر ہے کہ یہ صورت حال پاکستان کے لیے تکلیف دہ ہونے کے ساتھ ساتھ ناقابل قبول بھی ہے۔ اس صورت حال نے پاکستان کی سلامتی کے لیے سنجیدہ خطرات پیدا کردیے ہیں۔ ان خطرات اور چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے تمام محب وطن طبقات کا ایک پیج پر ہونا اور پاکستان کی دفاعی اداروں کی پشت پر کھڑا ہونا وقت کا ایک ناگزیر تقاضا ہے۔ اسی تقاضے کی تکمیل کے طور پر پاکستان کے جید علماء و مشایخ نے اسلام آباد کنونشن سینٹر میں جمع ہوکر اپنی افواج اور افواج کے سپہ سالار کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ سرپرست اعلیٰ جامعة الرشید مفتی عبد الرحیم نے اس موقع پر بجا طور پرپوری قوم کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی ہے کہ ملک جن حالات سے گزر رہا ہے، اس میں سب سے بڑی ضرورت سیاسی اور عسکری قیادت کے مضبوط تعلق اور باہمی اتفاق کی ہے، قیادت کا یکجا ہونا آئین، دین اور شریعت کے مطابق ہے جس پر پوری قوم کو شکر ادا کرنا چاہیے۔ اتحاد و یکجہتی کا یہ مؤثر پیغام علماء و مشایخ کانفرنس کی کامیابی کی علامت ہے۔