حسن ظن
بنت ملک اشرف۔ گڑھا موڑ
’’حسن ظن کی بیماری اللہ کرے سب کو لگ جائے۔‘‘ مائرہ نے کلاس میں داخل ہوتے ہی کہا۔
جہاں سب لڑکیوں کے کام کرتے ہاتھ رکے، وہیں میںمنٹ کے ہزارویں حصے میں اس کے سر پر پہنچ گئی اور اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا:
’’ مائرہ خیریت تو ہے؟ کچھ تو خدا کا خوف کرو… کیسے منہ بھر کے بد دعا دے رہی ہو… مجھے مائرہ خان تم سے یہ امید نہ تھی… تمہارے بارے میں بہت اچھا سا خاکہ بنا ہوا تھا میرے ذہن میں… لیکن مائرہ آج سب ملیامیٹ ہوگیا… کسی کو دعا نہیں دے سکتے تو بد دعا بھی نہیں دینی چاہیے۔‘‘
’’کیا مطلب میں نے کسی کو اور کب بددعا دی ہے؟ ‘‘مائرہ نے حیران ہو کر کہا۔
’’ابھی تو تم نے کہا ہے کہ کانے کن (کان) کی بیماری سب کو لگ جائے۔‘‘ مجھے اس کے بھلکڑ پن پر غصہ آیا۔
مائرہ نے پہلے تو کچھ دیر اپنے دانتوں کی نمائش کروائی پھر بولی:’’ میں نے کانے کن نہیں ’حسن ظن‘ کہا ہے۔‘‘
ساری کلاس ہنسنے لگی تو میں نے کان کھجاتے ہوئے مائرہ کا ہاتھ پکڑا اور باہر آگئی تاکہ اس سے پوچھ سکوں کہ اس جملے کے پیچھے اس کی کون سی کہانی پوشیدہ ہے۔
’’ اب جلدی سے بتائو کہ کیا بات ہے کیونکہ تم مجھے پہلے کی بنسبت آج سنجیدہ
لگ رہی ہو۔‘‘
مائرہ نے پہلے ٹھنڈی سانس بھری اور پھر بولی:
ہمارے گھر ایک غموں کی ماری خالہ کام کرتی تھیں… ان کے شوہر دیہاڑی پر
مزدور تھے… گھر کی گزر بسر اچھی ہو رہی تھی کہ اچانک ان کی بیٹی کا گردوں کا مسئلہ ہوگیا۔ امی کی ان سے ملاقات ہمسایوں کے گھر ہوئی۔ ان کی دکھ بھری داستان سن کر امی نے ان کی مالی امداد بھی کی اور انہیں گھر کام پھر بھی رکھ لیا۔ خالہ کام صاف ستھرا کرتیں اور وقت کی بہت پابند تھیں۔ ہم سب خالہ سے بہت مانوس ہوگئے تھے۔ کچھ دن پہلے امی کے پرس سے پیسے گم ہوگئے… ہر جگہ تلاش کیے پیسوں کو نہ ملنا تھا نہ وہ ملے… پہلے تو امی نے خود ڈھونڈے۔ پھر مجھے بلایا اور بتایا تو میں نے بھی ہر جگہ دیکھ لیے، بھابی اور بھائی آئے انہوں نے بھی پرس اور الماری دیکھ ڈالی اب سب پریشان ہوگئے کہ پیسے کہاں جاسکتے ہیں۔ امی نے بتایا کہ الماری کو تالا بھی نہیں لگایا ہوا تھا، تو پیسے کون اٹھا سکتا ہے۔ بھائی جان بولےکہ میرے خیال میں گھر کا کوئی فرد تو یہ کام کر نہیں سکتا۔چھوٹے بھائی نے جھٹ خالہ کا نام لے دیا۔
خا… خالہ… امی ہکا بکا رہ گئیں۔
’’مجھے بھی یہی لگ رہا ہے۔‘‘ بھابی نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’ میں خالہ سے پوچھتا ہوں ۔‘‘بڑے بھائی نے کہا تو امی جان بولیں:
’’نن… نہیں… یہ بات غلط ہے… تم لوگوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کسی پر الزام تراشی کرنے کا… کیوں کسی غریب کی خون پسینے کی کمائی روک کر بد دعا لینا چاہتے ہو… ویسے بھی آپ لوگوں کے پاس کوئی ثبوت بھی نہیں کہ چوری خالہ نے ہی کی ہے۔‘‘
’’لیکن امی ان سے بات کرلینے میں کیا حرج ہے۔‘‘ بڑے بھائی پھر بولے۔
’’دیکھو بیٹا! جہاں بھی گئے مگر تم میں سے کوئی بھی خالہ سے بات نہیں کرے گا۔ کیا تم لوگ ان کی دو سالہ ایمان داری کو بھول گئے جب انہوں نے چوری کی ہی نہیں تو ہم کیوں ان سے تفتیش کریں وہ کیا سوچیں گی کہ مجھ پر الزام لگانے کے لیے کام پر رکھا تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایسا کرسکتی ہیں۔ مجھے یہی لگ رہا کہ شاید میں کہیں رکھ کر بھول گئی ہوں۔ بس جو کچھ بھی ہے تم لوگ اللہ سے دعا کرو۔ خواہ مخواہ خالہ پر شک نہ کرو۔‘‘
اگلے دن خالہ آئیں تو بہت چپ سی تھیں، کام کرکے امی کے پاس آکر بیٹھ گئیں، کہنے لگیں مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔ دراصل کل میں نے آپ لوگوں کی باتیں سن لی تھیں۔ سب بچے مجھ پر شک کر رہے تھے لیکن آپ… میری صفائی میں مسلسل بول رہی تھیں۔ آپ کی باتیںمیرے دل کو لگیں… آپ بہت اعلیٰ ظرف ہیں، امی کے تو پسینے چھوٹ گئے۔
امی نے کہا:’’ بہن! میں بچوں کی طرف سے معذرت کرتی ہوں آپ ان کی باتوں کا غصہ نہ کرنا۔ ابھی ناسمجھ ہیں ناں اس لیے ایسا کہہ رہے تھے اور ویسے بھی…‘‘
’’بس بہنا میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ وہ پیسے میں نے ہی چرائے تھے۔ ‘‘خالہ نے امی کی بات کو درمیان میں ہی ٹوکتے ہوئے کہا۔
امی ہکا بکا ان کا منہ ہی دیکھتی رہ گئیں۔
پھر خالہ کہنے لگیں:’’ یہ میری زندگی کی پہلی چوری تھی۔ مجھے اپنی بیٹی کے آپریشن کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی اور شاید میں اس فعل کی عادی ہوجاتی اگر آپ لوگوں کی باتیں نہ سن لیتی۔ آپ کے حسن ظن نے مجھے اندر ہی اندر جھنجھوڑ ڈالا۔ کل کی ساری رات میں نے مصلے پر بیٹھ کر گزار دی اپنے اللہ سے آپ کے لیے بہت دعا کی جس نے مجھے بھٹکنے سے بچالیا۔
اچھا بہن میں چلتی ہوں ہوسکے تو مجھے معاف کردینا… میں کل سے کام پر نہیں آئوں گی۔ مجھ میں آپ کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ یہ آپ کے پیسے ہیں… ان شاء اللہ اللہ آپ کو بہت دے گا۔ میں بہت شرمندہ ہوں ایک دفعہ پھر کہتی ہوں کہ ہوسکے تو مجھے معاف کردینا ۔‘‘اتنا کہہ کر خالی چلی گئیں اور امی انہیں جاتا ہوا دیکھتی رہ گئیں۔
’’آج صبح امی نے مجھے بتایا تو مجھے بہت افسوس ہوا۔ صرف امی کے حسن ظن نے ایک تو چوری ہوئے پیسے لوٹادیے اور دوسرا کسی غریب کو ہمیشہ کے لیے بھٹکنے سے بچالیا۔ اب تم خود ہی بتائو کہ حسن ظن کی بیماری ہر کسی کو لگنی چاہیے یا نہیں۔ ‘‘
’’واقعی لگنی چاہیے… ‘‘ میں خود سے ایک عزم کرتے ہوئے اٹھی اور مائرہ کے ساتھ کلاس کی طرف چل دی۔
قاریات بہنو! تو کیا آپ سب بھی ’حسن ظن‘ رکھنے کا ارادہ کرتی ہیں؟
خاوند کے لیے وظیفہ
وفا سلیمان۔ حیدر آباد
اگر کسی کا خاوند کسی سے حرام تعلقات رکھتا ہو یا حرام کی کمائی گھر میں لائے یاکوئی اور غیر شرعی امور میں مبتلا ہو ، توبجائے جھگڑا کرنے کے اسے پیار محبت سے سمجھائیں۔ روزانہ دو رکعت صلوۃ الحاجت پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے خوب دعائیں کریں اور اس کے ساتھ گیارہ دن تک ایک سو اکتالیس مرتبہ مندرجہ ذیل آیت کسی کھانے کی چیز پر دم کرکے انہیںکھلائیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ خاوند راہِ راست پر آجائیں گے۔
قُل لاَّ یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ فَاتَّقُوْا اللّٰہَ یَا أُولِی الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ۔(سورۂ مائدہ: آیت 100)