Malaysia

ملائی جیسا ملائشیا(1)

اہلیہ مدثر۔ لاہور

سیاپا نامہ کامو؟ ناما سایا احمد۔ آپا خبر؟ آپ برے برے منہ بنا رہے ہوں گے یہ کون سی زبان ہے؟ یقیناً آپ کے سر پر سے گزر گئی ہوگی۔ تو جناب! یہ ملائشیا کی قومی زبان ہے اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ عنوان ’ملائی‘ اور بات ملائشیا کی تو آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ ملائی کھانے والی نہیں بلکہ ملائشیا کی قومی زبان کو ’ملائی‘ کہتے ہیں۔ہے ناں مزے کی بات!! جو اوپر ملائی لکھی ہے اس کا مطلب ہے

آپ کا کیا نام ہے؟ میرا نام احمد ہے۔ آپ کا کیا حال ہے؟

آپ سمجھ تو گئے ہوںگے یہ ملائشیا کے سفر کی بات ہورہی ہے۔ ہماری لاہور کی جماعت (تین ماہ) بیرون کے سفر پر ملائشیا گئی۔ رات کی فلائٹ تھی، پہلے سری لنکا پھر وہاں سے کوالالمپور۔ ہم نے سورج کی طرف سفر کرنا تھا۔ اس لیے زیادہ وقت رات ہی رہی۔ میں کھڑکی کی طرف بیٹھی تھی۔ اندھیرے میں نیچے جنگل ہی جنگل نظر آتا رہا۔ دل میں سوچا یہ کون سا راستہ ہے۔ ابھی تک سمندر ہی نہیں آرہا۔ پھر جیسے جیسے روشنی ہوئی تو معلوم ہوا جسے میں جنگل سمجھ رہی تھی وہ تو بادل تھے۔ بادل تہ بہ تہ ایسے گول سے تھے جیسے جنگل ہو۔ سورج مشرق کی طرف سے نمودار ہوا جیسے ایک بہت بڑا آگ کا گولا ہو۔ (سبحان اللہ) یہ منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ چونکہ یہ چھوٹا طیارہ تھا اس لیے ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ بڑے پرندے پر بیٹھے ہیں۔ پھر جیسے جیسے نیچے آتے گئے سب منظر واضح ہوتے گئے۔ سمندر میں کشتیاں……پھر درختوں کے جھنڈ پر سڑکیں……ان پر چلتی گاڑیاں…… چھوٹے چھوٹے گھر ……پہاڑ!!! غرض پہلے سب چھوٹا نظر آرہا تھا پھر سب کچھ اپنے اصل سائز پر آگیا۔ میںنے محسوس کیا پہلے اللہ زیادہ یاد آرہا تھا کیونکہ پہلے ہم آسمان پر اللہ سے نزدیک تھے اور دنیا سے دور تھے۔ مجھے وہ وعدہ یاد آگیا جب اللہ نے تمام روحوں سے پوچھا تھا تمہارا رب کون ہے؟ تو سب نے کہا تھا ’’آپ ہمارے رب ہیں۔‘‘ مگر دنیا میں آکر زمین کی ہر چیز اتنی بڑی ہوتی گئی کہ انسان کو اپنا آپ چھوٹا محسوس ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ آسمان سے اس کا فاصلہ اتنا زیادہ ہوگیا کہ اپنے رب کو ہی بھول گیا۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے (آمین)۔ خیر کولمبو ائیر پورٹ پر اترے تو کوالالمپور جانے والا جہاز تیار تھا ادھر اترے ا ور ادھر دوسرے جہاز میں بیٹھ کر دوسرا سفر شروع۔

جنوری کا آم:
پاکستان میں سردیاں تھیں اور مالٹوں کا موسم تھا۔ مگر اللہ کی شان ملائشیا ائیر پورٹ پر ہی ہمیں آم نظر آگئے۔ کیونکہ ہم ظہر کے وقت اترے تھے تو نماز ائیر پورٹ پر ہی ادا کرنی تھی وضو خانے گئے تو کچھ خواتین نے ہاتھوں میں آم پکڑے ہوئے تھے۔ ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگیں ہماری آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں میں نے سوچا وہاں مالٹے چھوڑے یہاں آم مل گئے (صرف دیکھنے کو مگر خیر پھر اللہ نے کھلائے بھی) اثر جون پوری صاحب پاکستان میں آموں کے ختم ہونے پر اتنے اداس ہوتے ہیں۔ ان کو معلوم ہوجائے کہ جنوری میں ملائشیا میں آم مل جائے گا تو وہ اداس نہ ہوتے بلکہ ملائشیا جاکر آم کھا آتے۔ ویسے آپس کی بات ہے پاکستان کے آم کی بات ہی کچھ اور ہے۔ اس کے علاوہ سیب، کیلا، مالٹا، کینو (وغیرہ) انگور پپیتا، تربوز اور انناس بھی کھائے۔

نماز کا احترام:
ملائشیا کی جو بات سب سے اچھی لگی وہ نماز کا احترام ہے۔ یہاں آپ کو نماز کے لیے الگ سے جگہ مل جائے گی۔ ائیر پورٹ پر، سڑکوں کے کنارے، پارکوں میں اس کے علاوہ مسجدوں میں بھی عورتوں کے لیے الگ سے جگہ ہے۔نماز کے وقت سب نماز ادا کرتے ہیں۔ نماز کی جگہ الماریوں میں اسکارف عبایا، جائے نماز، قرآن ہر چیز مل جاتی ہے۔ جو عورت آتی اگر اس نے پینٹ بھی پہن رکھی ہے تو اس کے اوپر سے عبایا اور اسکارف پہن کر نماز ادا کرتی اور پھر ان کو تہ لگا کر الماری میں رکھ جاتی۔ وضو کی جگہ پر صابن، ٹوتھ پیسٹ، ٹوتھ برش اور مختلف قسم کے لوشن کریمیں باقاعدہ الماریوں میں رکھے ہوئے تھے۔ اوپر انگلش اور ملائی میں لکھا ہوتا ’صرف یہاں پر استعمال کریں۔‘‘ ہم نے آپس میں کہا کہ پاکستان میں ایسا ہوتا تو کوئی چیز یہاں پر موجود نہ رہتی۔ ان لوگوں کی ایمان داری دیکھ کر ہم بہت خوش ہوئے۔

لکڑی کے گھر:
پلانتی اور سالاما پیرا میں زیادہ تر گھر لکڑی کے تھے۔ نیچے کی منزل تو اینٹ سیمنٹ سے بنی ہوتی مگر اس کی چھت (فرش) لکڑی کی ہوتی پھر اوپر دوسری منزل ساری لکڑی کی ہوتی۔ زیادہ تر گھروں میں تو ہمارے لیے نیچے کی منزل میں ایک کمرہ مخصوس ہوتا۔ مگر کچھ گھروں میں اوپر کی منزل میں جانا ہوا کیونکہ یہاں زیادہ تر گھر چھوٹے ہیں۔گھر دیکھنے میں تو بہت خوب صورت تھے مگر جب ہم چلتے تو دَم دَم کی عجیب سی آواز آتی اور ہم سب ہنستے اور کہتے گھر ٹوٹ ہی نہ جائے۔ پھر ہم آہستہ آہستہ ہی چلتے مگر گھر کی خواتین تو بڑے آرام سے ادھر ادھر آتی جاتیں۔ یہاں کا موسم سارا سال ایک جیسا ہی رہتا ہے گرمی اور بارش مگر رات کو اچھی خاصی سردی ہوجاتی تھی۔

خاموشی:
یہاں کے لوگ بہت نرم دل اور کم گو ہیں۔ بہت آہستہ آواز میں بات کرتے ہیں۔ گھروں میں خاموشی ہوتی ہے۔ ہمارے گھروں کی طرح کوئی شور شرابا نہیں ہوتا۔ چھوٹے چھوٹے بچے لیکن کوئی رونا دھونا نہیں ہوتا۔ کسی گھر میں آٹھ ہیں تو کہیں دس بچے ایک گھر میں تو کل چودہ بچے تھے (ایک ہی فیملی کے)

ہر گھر میں ایک جھولا ہوتا اور بچہ بڑے آرام سے اس میں سوتا رہتا جب اٹھتا تب بھی وہ روتا نہیں تھا۔ بڑے بچے اسکول سے آتے اپنے کپڑے تبدیل کرتے نہاتے دھوتے خود ہی اپنی پلیٹ میں چاول ڈال کر سالن کے طور پر مچھلی ڈال کر بیٹھے کھاتے۔ ان کی اماں کو کوئی شور نہیں مچانا پڑتا تھا۔ میرے خیال میں اس کی وجہ یہی تھی کہ گھر کے بڑے شور نہیں کرتے تھے جس کی وجہ سے بچے بھی خاموشی پسند تھے کیونکہ ان کو جو ماحول بچپن میں ملا تھا اس کا اثر بڑے ہونے پر ان کی عادت بن گیا۔ اسکول میں بچوں کو لنچ کی بھی فکر نہیں ٹیچر ہی بچوں کو لنچ کرواتی ہے۔ امیوں کو اس بات کی بالکل فکر نہیں ہوتی۔ کتنی اچھی بات ہے۔ پاکستان میں تو صبح اٹھ کر ناشتے اور بچوںکے لنچ کی فکر ہوتی ہے۔ پھر ان کے ابا حضور کو ناشتہ پھر ان کا دوپہر کا کھانا ۔سچ میں پاکستانی عورت کی تو صبح ہی صبح دوڑ لگی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو سوتے سے اٹھانا بھی ماں کو ہی ہوتا ہے۔ مگر یہاں بچے فجر میںہی اٹھ جاتے غسل کرنے نماز پڑھتے اور اسکول کی تیاری کرتے۔ جہاں تک پڑھائی کی بات ہے تو وہ ساری اسکول والوں کی ہی ذمے داری ہے۔ کیوں پھر چلیں ملائشیا؟(جاری ہے)