عائشہ تنویر
ہمارے ایک پرانے دوست نے جب روزگار کی خاطر بیرون ملک جانے کا قصد کیا تو یہ خبر سن کر بے اختیار ایک فاتحانہ مسکراہٹ ہمارے لبوں پر نمودار ہو گئی ۔
سفر وسیلہ ظفر کے بموجب یہ اتنا تعجب خیز یا مجرمانہ فعل نہ تھا لیکن اس سے ان کے توکل اللہ، قسمت کا رزق اور وطن سے محبت کے بارے میں کیے گئے تمام دعووں کی قلعی کھل گئی ۔ہم چونکہ ان کے دلی خیر خواہ تھے سو ہمیشہ انہیں دہلانے کو ملک میں امن و امان کی خرابیاں ، روزگار کے مواقع کی کمی اور بچوں کے مستقبل کے بارے میں خدشات بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ۔ وہ بھی ہمیں دل اور نیت کی گہرائیوں سے جانتے تھے، سو سب کچھ ہنس کر ٹال جاتے تھے ۔ اب ان کے جانے کی خبر تو ہماری فتح تھی ۔ شرمندہ کرنے کا اتنا نادر موقع ہمیں دوبارہ کب ملتا ۔سو فوراً ملاقات کو جا پہنچے ۔
’’سنا ہے آپ بھی بیرون ملک جا رہے ہیں، سب باہر چلے جائیں گے تو مٹی کا قرض کون اتارے گا ۔ ‘‘ ہم نے بمباری کی ابتدا کی ۔
’’اللہ مالک ہے ۔‘‘
انہوں نے مختصر جواب دیا ۔
’’یقینا روزبروز بڑھتی مہنگائی نے آپ کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا۔ ‘‘
ہم نے ہمدردی کے پیرائے میں کھوج لگانی چاہی ۔ ارادہ تھا کہ جیسے ہی وہ حامی بھریں ہم انہیں’’فضول خرچ شیطان کا بھائی ہے ،بجٹ کے اندر رہنا کتنا ضروری ہے‘‘ پر ایک لمبا سا لیکچر دے ڈالیں گے ۔
ہماری بے غرضی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ ہمیں اپنی اصلاح سے زیادہ ہمیشہ اصلاح معاشرہ کی فکر ہوتی ۔ اسی اصلاح کی خاطر سب کی خامیاں اچھالا کرتے ۔ خوبیاں البتہ نظر لگنے کے ڈر سے چھپا لیتے ۔ہماری سوچی گئی تند وتیز تقریر بیکار گئی اور ہم اپنا سا منہ لے کر رہ گئے، جب انہوں نے سبھاؤ سے جواب دیا ۔
’’اللہ کا احسان ہے، اچھی گزر بسر ہو رہی تھی بس کچھ ذاتی وجوہات ہیں ۔‘‘
انہوں نے ٹھنڈی آہ بھرتے اپنے ازلی شکر گزار لہجے میں کہا تو ہمیں ہر گز برداشت نہ ہوا ۔ نہ ملک کو برا بھلاکہا،نہ سسٹم پر تنقید، نہ حکومت کو گالیاں ۔ یہ باہر جانے والوں کے لچھن تو نہیں ۔
’’آپ مجھے اپنے فیصلے کی وجہ بتائیں ۔‘‘
ہم نے اصرار کیا ، آخر پہاڑ بنانے کو رائی تو چاہیے تھی ۔
’’آپ تو جانتے ہیں کہ ایک ہمارا بھائی اور ایک ہماری زوجہ کے بھائی بغرض روزگار ملک سے باہر مقیم ہیں ۔ بس ہماری والدہ اور زوجہ نے اپنی باتوں سے انہیں یوں ہمارے مقابلے پر لا کھڑا کیا کہ یہ فیصلہ کرتے ہی بنی ۔‘‘
انہیں بھی کسی غم گسار کی تلاش تھی سو بالآخر وجہ بیان کی ۔
’’یقینا وہ آپ کو ان کے دیے گئے قیمتی تحائف دکھا کر آپ کی کم مائیگی کا احساس دلاتی ہوں گی ۔ انہیںسمجھانا چاہیے کہ پیسہ سب کچھ نہیں، آپ ان کے ساتھ ان کی مدد کے لیے موجود ہیں ، یہ کم ہے! خیر اب آپ کی طرف سے بھی روپوں کے ڈھیر آئیں گے تو سب شکوے دھل جائیں گے ۔ اس ملک میں رہتے گھر والوں کی خواہشات پوری کرنا ممکن نہیں۔ ‘‘
ہم نے بات سمجھ کر سر ہلاتے افسوس سے تبصرہ کیا ۔ ماں اور بیوی جیسے قریبی رشتے بھی جب انسان کی محبت کو اس کی جیب کے وزن سے تولنے لگے تو کتنا دل دکھتا ہے ۔اسی لیے ہم نے بات میں ملک کی برائی کا بگھار لگا کر ان کا دکھ کم کرنے کی کوشش کی ۔ یہ ویسے بھی ہمارا پسندیدہ موضوع تھا ۔ وطن عزیز کی برائیاں تو ہمیں یوں ازبر تھیں کہ نیند میں بھی کر لیتے۔ حتٰی کہ گھر میں جب ہماری دال نہ گلتی ( دونوں معنوں میں) تو بھی ہم منہ بنا کر کہتے۔
’’یہ حال ہے اس ملک کا ۔ دال تک اچھی نہیں ملتی یہاں ۔ کیسے ترقی کرے گا آخر؟‘‘
’’ پچھلے کچھ عرصے سے بیرون ملک مقیم لوگوں کے مسائل کو میڈیا نے بہت اجاگر کیا ۔ اس سے یہ ہوا کہ ہم جیسے ملک میںرزق حلال کی تگ ودو کرنے والوں کے مسائل نیچے دب گئے۔ اب ہم سارا دن کام کر کے تھکے ہارے گھر جاتے ہیں تب بھی ہماری والدہ و زوجہ یہی فرماتی ہیں ۔ پاکستان میں تو مزے ہیں، کام کرو نہ کرو، مفت کی تنخواہ ۔ باہر تو وقت کی پابندی ہوتی ہے ۔ کام کی زیادتی اور ایسے ویسے مسائل ۔ آپ خود سوچو سارا دن محنت کر کے ہمیں یہ صلہ ملے تو اپنا سر پھاڑنے کا دل چاہتا ہے ۔ ‘‘
انہوں نے اپنا دکھڑا تفصیل سے بیان کیا ۔
’’اصل میں خواتین نے بھی مردوں سے ہی سیکھا ہے۔ جیسے وہ سنتی ہیں کہ سارا دن کرتی کیا ہو؟ ایسے کہہ بھی دیتی ہیں۔ ‘‘ ہم نے خواتین کی سائیڈ لی۔ جواب میں انہوں نے ایک تاسف بھری سانس لی۔
’’ یہ سبق تو ساری زندگی کے لیے سیکھ لیا۔ اب کسی کی محنت کی ناقدری نہیں کرنی ہے ۔ ہر بندے کی الگ مصروفیات ہوتی ہیں جو دوسرا نہیں سمجھتا مگر ہمارے گھر والے بھی تو جان جائیں نا ں۔‘‘وہ شکوہ کناں لہجے میں مزید گویا ہوئے ۔
’’باہر کسی کی طبیعت خراب ہو تو ماںبہن پریشان کہ ہائے پردیس میں بیمار پڑا ہے ۔ یہاں ہم تھکاوٹ یا بیماری کے سبب کوئی سودا لانے سے منع کردیں تو فوراً غیر ذمہ داری کا لیبل لگ جاتا ہے ۔ عید الاضحی پر ہمیں حکم آ جاتا ہے کہ باہر والوں کی قربانی بھی یہاں ہو گی اور احتیاط کے تقاضوں کے پیش نظر ایدھی یا عالمگیر میں پیسے دینے کی بجائے خود جانور لے کر قربانی کرنی ہے ۔ ہم جانور، اس کی دیکھ بھال، گوشت کی کٹائی اور بانٹنے میں خوار ہوتے دن گزار دیتے ہیں ۔ بلاشبہ یہ بہت ثواب کے کام ہیں لیکن جواب میں جب یہ سننے کو ملے کہ وہ تو بار بار فون کرتا رہا اور تم نے عید کے دن بھی منہ پھلا رکھا تھا ۔ گھر والوں کو وقت نہیں دیتے تو آپ خود بتاؤ ہم بیچارے دیس میں رہنے والے کیا کریں ۔ باہر زندگی مشکل ہے تو دیس میں بھی اللہ کے نام پر پیسے نہیں ملتے ۔‘‘
انہوں نے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے تو ہم نے خلاف فطرت نرمی سے مرہم رکھنا چاہا ۔
’’ثواب تو آپ کو اللہ پاک دیں گے، لوگوں سے صلے کی امید لگانا فضول ہے ۔‘‘
’’چلیں قربانی تو دینی معاملہ ہے لیکن ان کے لیے خریداری کرنا، کپڑے اور خورد نوش کی دیگر اشیاء لے کر بمشکل آنے جانے والوں کے ہاتھ بھجوانا، پھر بھی کچھ نہ کچھ رہ جانے والی چیز کا ذکر سننا کتنا تکلیف دہ ہے ۔ ہم یہاں صرف اپنے لیے نہیں جیتے بلکہ رشتے داریاں ، دوست احباب سب سے ملنا ، لینا دینا ہوتا ہے ۔ اس میں وقت اور توانائی لگتی ہے۔ وہ کسی کھاتے میں نہیں اور وہ چھٹیاں گزارنے بھی مہمان بن کر آئیں اور ان کی خاطر تواضع میں کمی رہ جانے پر گھر والوں کا بگڑا مزاج بھی ہم برداشت کریں ۔ یہ اب نہیں ہو گا۔ ہم بھی سال بعد مہینے کی چھٹیوں پر آئیں گے اور مزے کریں گے ۔‘‘ انہوں نے قطعی لہجے میں کہا ۔
’’ملک کی خدمت …؟‘‘ہم نے انہیں یاد دلانا چاہا۔
’’ہم زر مبادلہ بھیجیں گے ناں…‘‘
انہوں نے ہمیں پرانی بات یاد دلا کر شرمندہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔
ان کے گلے شکووں کی فہرست لمبی تھی،جوابات ہمارے پاس بھی بہت تھے لیکن اگر وہ جانے کا ارادہ بدل دیتے تو ہمارے لیے قیمتی تحائف کون بھجواتا؟ سو ہم نے خاموشی میں ہی عافیت جانی ۔