Madaras

امید بہار رکھ

اہلیہ کمال احمد خان۔ کلفٹن، کراچی

’’باجی مجھے تو غسل کے فرائض نہیں پتا تھے اور میں نے جو اب تک نماز پڑھی اس کیا ہوگا؟‘‘ پندرہ سال کی خوب صورت سی بچی گھبرائی ہوئی آواز میں تعلیم کے آخر میں بالکل قریب آکر سرگوشی میں بولی۔ میں نے اسی طرح ہلکی آواز میں کہا: ’’توبہ کرلو اور نمازیں دہرا لو۔‘‘

’’پھر اللہ تعالیٰ معاف کردیں گے؟‘‘
’’ہاں ان شاء اللہ!‘‘ یہ سنتے ہوئے میں نے اس کے چہرے پر سکون محسوس کرتے ہوئے سوچا اس وقت اللہ پاک کو اس پر کتنا پیار آرہا ہوگا جو اس عمر میں اپنے اللہ کی ناراضگی کی اس قدر فکر کر رہی ہے۔

یہ ہماری ہفتہ واری ناظرہ و حفظ کی بچیوںکی اصلاحی کلاس کے بعد ایک منظر تھا اور لکھنے کا مقصد ایک بات کی طرف توجہ دلانا ہے۔

عموماً مدارس کے بڑے کورسز کی طرف ان لوگوں کا رخ ہوتا ہے جن کو اللہ کی توفیق سے کسی نہ کسی درجہ میں ہدایت مل چکی ہوتی ہے۔ اور اب وہ اللہ کے دین کا علم سیکھنا اور عمر لگانا چاہتے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد اس عمر کی خواتین کی ہوتی ہے جو اپنی عمر کی کافی بہاریں دیکھ چکی ہوتی ہیں گو کہ اس کی افادیت سے بھی انکار نہیں اور اس پر بھی جتنا شکر کیا جائے کم ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل کا مدرسوں کے ان کورسز کی طرف کم یہی رخ ہوتا ہے اور بہت ہی کم تعداد ان کی وہاں نظر آتی ہے جس میں ایک وجہ شاید ان کے پاس وقت کی کمی بھی ہے۔

مگر ایک شعبہ ایسا ہے جہاں الحمدللہ ماڈرن سے ماڈرن ماں بھی اپنے بچے کو پہچاننا اپنا فرض سمجھتی ہے اور وہ ہے ناظرہ کا… ہر ماں باوجود مکمل دین کی سوج بوجھ نہ رکھنے اور مسائل کی اہمیت نہ سمجھنے کے اپنی اولاد کو قرآن پاک پڑھانے کا شوق رکھتی ہے جس کی وجہ سے حفظ و ناظرہ کہ شعبہ میں بچوں کی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے۔

کیا ہی اچھا ہو کہ یہ بچے جو مدرسہ کو کم از کم دو گھنٹے دے رہے ہیں اس میں ان کی عقائد و اخلاق کی اصلاح کی طرف بھی کوشش کی جائے۔ الحمدللہ ہمارے مدرسہ میں اس سلسلے کی ہفتہ واری کلاس ہوتی ہے۔ اس کا خیال کس طرح آیا۔ اس سلسلے میں دو واقعات سنیے۔

ایک دفعہ معلمہ کی غیر حاضری میں ہم نے 40 کے قریب موجود بچیوں سے کچھ سوالات شروع کیے اور ان ہی کی زبان میں پوچھا کہ بتائیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بیسٹ فرینڈ کون سے صحابی تھے یقین کرنے کو دل نہیں چاہتا مگر اس وقت بڑی اور درمیانی عمر کی 14 سے 10 سال کی بچیوں میں سے صرف 4 یا پانچ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جانتی تھی اور ان کا تعلق بھی کسی اسلامک اسکول سے تھا۔ اکثریت تو صحابیت کا مطلب ہی نہیں سمجھتی تھی۔

اور اس سے بھی زیادہ آنسو بہانے کا مقام یہ تھا کہ چھوٹی بچیوں کی کلاس میں جہاں 5 سے 7 سال کی عمر کی بچیاں تھیں وہاں اکثریت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ناواقف یہ وہ وقت تھا کہ ہمیں اپنے آنسو ضبط کرنا مشکل ہی ہوگئے(حیران نہ ہوں یہ ڈیفنس و کلفٹن کے اس ماحول کی تصویر ہے جہاں دین سکھانے کی تمام تر ذمہ داری اسکولوں کے اسلامیات کے گھنٹے کو دے دی گئی ہے) اس وقت ہمیں خیال آیا کہ یہ بچے جو مدارس میں کچھ سال گزارتے ہیں تو کیا مشکل ہے کہ اس دورانیہ میں ان کو دین کی ایسی تعلیم دی جائے جو پوری زندگی ان کے کام آئے۔

اس کے بعد ہمارا ذہن بہت پیچھے کی طرف چلا گیا جب ہم بھی دورِ غفلت میں تھے اور ہماری کچھ دوستیں ان مسالک سے تھیں جہاں سال کے کچھ دن زور و شور سے ہنگامہ کیا جاتا ہے۔ اس وقت بھی ہم حیران ہوتے تھے کہ باوجود اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان ہونے اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہونے کے یہ مخصوص رنگ کے کپڑے پہن کر ایک بالکل baseless ایکٹیویٹی کے لیے کیسے چلے جاتے ہیں اور آج اتنے سال گزرنے کے بعد اب خیال آتا ہے کہ اس کی وجہ دراصل یہ بھی ہے ان کا بچہ چاہے کتنی بھی پڑھی لکھی فیملی کا ہو شروع کے کچھ سال وہ اپنے مخصوص مدارس میں گزارتا اور ان کے خود ساختہ عقائد اس طرح اس کے دماغ میں پلانٹ کردئیے جاتے کہ بڑے ہوکر بھی کوئی اس کو مٹا نہیں پاتا۔ الا ماشاء اللہ لہٰذا اللہ کی تو فیق سے اپنے بڑوں کے مشورہ اور دعاؤں کے ساتھ ہمارے ساتھ بھی کام شروع ہوا اور ہم نے بچوں کو ان کی عمر کے حساب سے گروپ میں تقسیم کیا اور کوشش شروع کی اس دوران کبھی اپنی نئی نسل کی حالت پر دل خون کے آنسو روتا اور کبھی ’’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ کی کیفیت حاصل ہوتی۔ مگر یقین جانیے جس طرح ایک ننھا پودا تھوڑی توجہ سے بڑی تیزی سے اپنے ارتقائی مراحل طے کرتا ہے اسی طرح اس نسل پر اس کی تھوڑی سے بھی اخلاص سے کی گئی کوشش بہت جلد بارآور ثابت ہونے لگتی ہے۔ دراصل یہ دین ہے ہی اتنا خوب صورت کہ ناممکن ہے کہ صحیح رخ پر کی گئی محنت سے لوگ متاثر نہ ہوں اور یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ اگر شروع عمر میں ہی ان بچوںکے عقائد کی نہ صرف درستگی ہوگئی بلکہ ان کو صحیح و غلط کی پہچان کرادی گئی تو باوجود مختلف النوع حالات میں رہنے کے انسان مکمل طورپر بھٹکنے سے محفوظ رہتا ہے۔ اندر حق و باطل کی ایک جنگ چھڑی رہتی ہے جو ایک دن حق کی فتح تک لے ہی جاتی ہے۔ ان شاء اللہ!

لہٰذا اب کرنے کا کام یہ ہے کہ کسی بھی درجے میں دین کا علم رکھنے والے اور ہدایت یافتہ لوگ نئی نسل کی تربیت کے لیے اپنے اپنے دائرے عمل میں کمرکس لیں۔ دل میں ان کا درد رکھتے ہوئے عملی طورپر کوشش شروع کردیں درحقیقت امت کا یہ طبقہ اس قدر مظلوم ہے کہ اس کا احساس ہر دردِ دل رکھنے والے مسلمان کو ہونا چاہیے۔ وہ عمر جب انسان اپنے برے بھلے سے ناواقف ہوتا ہے اور ہر چمکتی ہوئی چیز اس کو سونا لگتی ہے اور ایسے میں جب اہلِ کفر کی تمام تر توجہ کا رخ ہی ان کی بربادی کی طرف ہے تو اس وقت بحیثیت ایک ملت ہونے کے ہمار افرض ہے کہ ہم انفرادی فکر کے ساتھ اجتماعی فکر بھی رکھیں۔ اس سلسلے میں اگر خود کچھ نہ بھی کرسکیں تو کم از کم صحیح رہنمائی کرنے والوں تک ہی پہنچادیں اور یقین رکھیں کہ کسی کی آخرت سنوارنے جیسا عمل آپ کی اپنی آخرت کی منزلوں کو منور کرنے کا سبب بن جائے گا۔ ان شاء اللہ العزیز!

رونے کے انداز
ماہا بھٹی

عراق کی خواتین چہرے کو دونوں ہاتھوں سے چھپا کر روتی ہیں۔

جاپانی خواتین چیخ چنگھاڑ کر روتی ہیں۔

عرب خواتین چہرہ ڈھانپ کر روتی ہیں۔

امریکی خواتین سر کو گھٹنے پر مار کر روتی ہیں۔

اٹلی کی خواتین اپنے سر کو دوسرے کے کندھے پر رکھ کر روتی ہیں۔

جرمن خواتین چہرے پر غم کی کیفیت طاری کرلیتی ہیں۔

بھارتی خواتین بال بکھیر کر روتی ہیں۔

اور پاکستانی خواتین……

روتے ہوئے اوپر مذکور تمام انداز اپنا لیتی ہیں لیکن بعض کا خاص انداز یہ ہے خود نہیں روتیں دوسروں کو رلاتی ہیں۔؎

تو قاریات! آپ بتائیں آپ ان میں سے کس طرح روتی ہیں!!؟؟