Photo :FreePik
پیاری آپی !
بنت ملک اشرف۔ گڑھا موڑ
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
رنج کتنا بھی کریں ان کا زمانے والے
جانے والے تو نہیں لوٹ کر آنے والے
آپی جان کیسی ہیں آپ؟ یقیناً آپ تو جنت کی سیر کررہی ہوں گی۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ آپ اتنی جلدی چلی جائیں گی۔ ابھی آپ کی عمر ہی کتنی تھی۔ ابھی تو آپ نے اپنے کسی بچے کی خوشی بھی نہیں دیکھی۔ آپ کی معصوم اور اکلوتی بیٹی حفصہ جس کی عمر ابھی 12، 13سال ہے، وہ کیسے اتنا بڑا صدمہ سہ سکے گی؟ آپ کا لاڈلا بیٹا زبیر الحسن کس سے آپ کے لاڈ اٹھوائے گا؟ وہ 9 سال کا بچہ کیسے اپنے دل کو سمجھائے گا۔ آپ کا ننھا بیٹا حسیب الحسن جو آج چالیس دن کا ہوگیا ہے، اسے تو ماں کا لمس صرف 17 دن ہی مل سکا۔ آج آپ کا بیٹا چالیس دن کا ہوا تو سب گھر والوں نے آپ کو خوب یاد کیا۔ وہ پھول جیسا معصومیت سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا جیسے اپنی ماں کو ڈھونڈ رہا ہو۔ آپ کا جگر گوشہ آپ کا انتظار کرتا رہا مگر اس کی تلاش کامیاب نہ ہوسکی، اس کا انتظار انتظار ہی رہا۔ آپ کو اس دار فانی سے کوچ کیے کتنے ہی دن گزر چکے ہیں۔ ہمیں بالکل بھی یقین نہیں آرہا!
آپ ہم سے بچھڑیں تو معلوم ہوا……
آپ سے گھر ہی نہیں، ہماری زندگی آباد تھی!
آپی کچھ دن سے حسیب الحسن کی طبیعت خراب رہنے لگی ہے۔ شاید آپ کا انتظار کرتے کرتے وہ تھک سا گیا۔ جب جب ہم نے اس پھول کی طرف دیکھا تو بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ آپی اس کی وہ آنکھیں جنہوں نے آپ کو صرف 17دن ہی دیکھا ہے اب وہ بہت زیادہ زرد رہنے لگی تھیں۔ جب سے آپ کا انتقال ہوا ہے وہ ٹھیک ہی نہیں ہورہا۔ آپ کا پھول آپ کے بغیر پلنے تولگا تھا کیونکہ پالنے والی ذات تو صرف اللہ تعالیٰ کی ہے لیکن اس بن ماں کے بچے کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے دل پھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
آپ کے بیٹے کو پیلا یرقان ہوگیا۔ جگر نے خون بنانا بند کردیا۔ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ جگر کے ساتھ ایک ایسی رگ ہوتی ہے جو سوئی سے بھی زیادہ باریک ہوتی ہے، وہ بند ہوگئی ہے۔ اس کے لیے آپریشن کرنا پڑے گا۔ ننھے حسیب کو دیکھ کر ہمارے ہونٹوں سے بس ایک ہی دعا نکلتی رہی۔
اس کے ہونٹوں کا تبسم رہے قائم یارب
زیست میں اس کی تو خوشیوں کا بسیرا کردے!
نرم و نازک سے حسیب کو کبھی ہاتھ، کبھی بازو تو کبھی ٹانگ پر انجکشن لگایا جاتا۔ اس معصوم نے بہت اذیت برداشت کی۔ اس کے آپریشن پر آپریشن ہوتے رہے۔ تکلیف سے ہار کر وہ کومے میں چلا گیا۔ 4 ماہ کا بچہ کومے میں زندگی اور موت کی جنگ لڑرہا تھا۔
آپی! آخر آپ کا پھول ایک روز اپنی بیماری کے ہاتھوں اپنی زندگی ہار گیا۔ شاید آپ کے بعد اس کو بھی جینے کی خواہش نہ تھی جو اس نے آپ کے پاس جانے کی جلدی کی۔ بالآخر آپ کا حسیب آپ کو مل گیا۔ آپ کا بیٹا آپ کو مل گیا کیونکہ آپ نے بہت منتوں مرادوں سے اسے مانگا تھا۔
اب آپ دونوں ماں بیٹا ہاتھ تھامے جنت میں سیر کررہے ہوں گے!
میری دعا ہے اللہ آپ دونوں کو وہاں اعلیٰ مقام عطا فرمائے! آمین ۔
اٹھ گئیں برکتیں
بنت عبدالقیوم۔ چک 65، فیروزہ
لوگ کہتے ہیں کہ گھروں سے برکتیں اٹھ گئی ہیں۔ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ آخر کیوں؟ پہلے گھروں میں صبح شام تلاوت قرآن پاک ہوتی تھی، فرض نمازوں کے علاوہ نفلی نمازوں کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا۔ ہر کام کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا تھا۔ آج مہینوں گزر جاتے ہیں قرآن پاک نہیں کھلتا، نفلی نمازیں تو خیر چھوڑیں، فرض نمازیں بھی جب دل کیا پڑھیں، جب دل کیا چھوڑ دیں اور اکثر مرد تو جمعہ کے جمعہ مسجد جاتے ہیں اور کئی وہ بھی نہیں جاتے۔ اب تلاوت کی بجائے جدھر سے سنائی دے گئی گانوں اور موسیقی کی آواز۔ کام کرتے ہوئے بھی گانے گنگنائے جاتے ہیں اور ڈرائیور حضرات گانوں کے بغیر ڈرائیوری کر ہی نہیں سکتے۔ گانوں اور موسیقی کو لوگوں نے روح کی غذا بنالیا ہے۔ گانا گانے اور سننے سے دل میں نفاق پیدا ہوتا ہے۔ گانا گانا اور گانا سننا شریعت میں ناجائز اور حرام ہے۔ گانا گناہ کبیرہ ہے اور گناہ کبیرہ بار بار کرنے سے ایمان کو خطرہ ہوجاتا ہے کہ کہیں ضائع نہ ہوجائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بانسری اور ساز کی آواز سنتے ہی کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے تھے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ’’جب بندہ گناہ کرتا ہے تو دل پر سیاہ نقطہ لگادیا جاتا ہے۔‘‘ اور جب انسان بار بار گناہ کرے گا تو ظاہر ہے کہ دل سیاہ ہوجائے گا اور وہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ ایمان سے ہاتھ دھونے سے بہتر ہے کہ ہر موسیقی، گانے، باجے اور فضول باتیں کہنے سننے سے پرہیز کریں۔ گھروں میں گانے اور موسیقی ختم کرکے تو دیکھیں قرآن اور نماز کی وجہ سے ان شاء اللہ برکتیں ہی برکتیں ہوں گی۔