ایشیائی ترقیاتی بنک، ورلڈ بنک یا آئی ایم ایف ترقی پذیر اور پسماند ممالک میں اپنی بقا اور مفاد کی خاطر ایسے منصوبے ہمیشہ جاری رکھتے ہیں جس سے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اِن علاقوں کے عوام کا معیار زندگی بہتر ہو رہا ہے جبکہ حقیقت میں ان منصوبوں کا اصل فائدہ صرف انہیں خود ہی ہوتا ہے۔
حال ہی میں آئی ایم ایف پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے لئے اقدامات کرنے کے لئے ڈیڑھ ارب ڈالر مالیت کا ایک نیا پروگرام شروع کرنا چاہ رہا ہے اور اسی کے پیش نظر ہفتہ قبل پاکستان کے چیف جسٹس صاحب سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ معلوم ہوا ہے کہ یہ ملاقات طے شدہ تھی، ایسا ہر گز نہیں ہوا کہ وفد اچانک ان کے دفتر پہنچ گیا اور انہیں مجبوراً یا مروتاً ملاقات کرنا پڑی۔ وفد نے ان سے مختلف مالیاتی معاہدوں کی پاسداری اور پراپرٹی حقوق کے بارے میں جاننا چاہاتو انہیں جواب دیا گیا کہ اِس پر اصلاحات کی جارہی ہیں۔ آئی ایم ایف کے وفد نے چیف جسٹس صاحب سے یہ بھی کہا کہ وہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا تحفظ چاہتے ہیں جس پر انہوں نے آئی ایم ایف کے وفد کو جواب دیا کہ ہم نے آئین کے تحت عدلیہ کی ازادی کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ آپ کو ساری تفصیلات بتائیں۔
آئی ایم ایف کے ریزیڈنٹ چیف ماہیر بنجی کا کہنا ہے کہ پاکستانی معیشت کو جن سنگین چیلنجزکا سامنا ہے ان میں سرفہرست قرضوں کا بوجھ ہے، جس کی بنیادی وجہ ٹیکس اکٹھا کرنے کی صلاحیت میں کمی اورآمدن پیدا کرنے کے ذرائع میں ناکامی ہے۔ دوسری طرف وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ملک بے جا مراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جبکہ چند روز پہلے ہی قومی اسمبلی اور سینٹ کے اراکین نے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا قانون منظور کیا ہے جس پر سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا کہ جس رکن اسمبلی کو بڑھی ہوئی تنخواہ نہیں چاہیے وہ میرے دفتر میں بتا دے، اسے کم تنخواہ ہی دی جائے گی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق جولائی 2024ء تا جنوری 2025ء پاکستان مجموعی طور پر 4ارب 58کروڑ ڈالرز قرض لے چکا ہے جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 6ارب 30کروڑ ڈالرز قرض لیا گیا تھا جس میں سے اے ڈی بی سے 1ارب 4کروڑ 86لاکھ ڈالرز قرض ملا۔ 80کی دہائی سے قبل یہی پاکستان جو آج مقروض اور مقہور ہوچکا ہے۔ آج کی امیر اور خوشحال معیشتوں والے ممالک جو اس وقت تک غریب معیشتیں تھیں کو قرض نہیں، امداد دیا کرتا تھا جیسے چین، جرمنی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات وغیرہ وغیرہ۔ اب بہت کچھ بدل گیا، امداد دینے والے ملک کو اپنا کاروبار مملکت چلانے کے لئے ایشائی ترقیاتی بنک اور ورلڈ بنک سے قرض لینے پر مجبور ہونا پڑا۔
مملکت خداد پاکستان کا بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کے حصول کے وقت کلمہ طیبہ کا نام لیا گیا اور اللہ تعالیٰ سے یہ وعدہ کیا گیا کہ اِس خطے میں اللہ کا نظام نافذکیا جائے گا مگر بعد از حصول مملکت وہ وعدہ ارباب اختیار کو بھول گیا جبکہ ہم انہیں اللہ سے کیا گیا وہ وعدہ یاد دلانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ سود کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خلاف جنگ قرار دیا ہے اور اس سے بچنے کی تلقین کی ہے مگر ہمارے ارباب اختیار سود کے بغیر زندگی کو ناممکن خیال کرتے ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے 28 اپریل 2022ء بمطابق 26 رمضان المبارک 1443ھ کو سود کے خلاف واضح حکم دے دیا تھا مگر ارباب اختیار نے شریعت کے مطابق آئے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کی بجائے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیاجس کے سربراہ نے آئی ایم ایف کے وفد کو تفصیلات فراہم کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ دکھ کی بات ہے کہ کسی دوسری عدالت کا فیصلہ جب اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا جاتا ہے تو حکمِ امتناعی لینے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے اور باقاعدہ عدالتی کارروائی کے بعد حکم امتناعی جاری ہوتا ہے لیکن آئین و قانون کی موشگافیوں نے فیڈرل شریعت کورٹ کو ایسا یتیم وبے کس بنا دیا ہے کہ اس کے فیصلوں کے خلاف حکم امتناعی لینے کے لیے محض سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنا ہی کافی ہے۔ نہ کسی حکم نامہ کی حاجت اور نہ عدالتی کارروائی کی ضرورت۔
آج سکول جانے والا ہر بچہ آئی ایم ایف کے نام اورکام سے واقف ہے جبکہ پاکستان کی 25 کروڑ کی آبادی میں سے شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس نے 80 کی دہائی سے پہلے کبھی آئی ایم ایف کا نام سنا ہو یا اس سے کوئی واقفیت ہو۔ اس وقت سرکاری ٹی وی اور ریڈیو چینلز سے بجٹ کے حوالے سے جب یہ خبر نشر ہوئی کہ ’وفاقی وزیر خزانہ نے ایوان میں ریکارڈ خسارے کا بجٹ پیش کیا‘ تو حکومت نواز تو ایک طرف عام لوگ بھی واہ واہ کرنے لگے، کیونکہ نیوز کاسٹر کے خبر پڑھنے کے اندازسے لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ بھی حکومت کا کوئی کارنامہ ہے۔ طرفہ تماشا ہے کہ ایک طرف حکومت یہ دعویٰ کررہی ہے کہ آئی ایم ایف کے اس پروگرام کو ہم آخری پروگرام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسری طرف ذیلی پروگرام مرتب کرکے آئی ایم ایف سے موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانات کے تدارک کے نام پر نیا قرض بھی لیا جا رہا ہے۔ قرض خواہ معاشی بحالی کے نام پر لیا جائے یا موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے یا سڑکوں اور نالیوں کی تعمیر و مرمت کے لیے، اس قرض کا بوجھ لامحالہ عام آدمی پر ہی پڑتا ہے جبکہ حکومتی اشرافیہ، بیوروکریسی اور بااثر صنعت کار اس سے بالکل بے نیاز نظر آتے ہیں۔ مالیاتی اداروں سے لیا جانے والا اب تک کا قرض کہاں، کیسے اور کس مد میں استعمال ہوا، اس بارے میں عوام بالکل بے خبر ہیں اور اگر کسی کو کچھ خبر ہے بھی تو وہ کسی بھی ذمہ دار کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ اِس صورتحال میں یقینا بھاری قرضوں کا یہ بوجھ ہمارے لئے بارِ غلامی میں مزید اضافے کا باعث بن جائے گا۔