ٹرین حملہ، پاک فوج کی کامیابی اور واضح پیغام

صد شکر کہ جعفر ایکسپریس کے بے گناہ مسافر دہشت گردوں کے چنگل سے بحفاظت چھڑوا لیے گئے اور وطنِ عزیز پاکستان تخریب کاری اور دہشت گردی کی ایک خوف ناک واردات سے بال بال بچ گیا۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف کے مطابق ملک کے محافظ اداروں نے آپریشن کامیابی کے ساتھ مکمل کرلیا اور تمام دہشت گرد مار دیے گئے۔

فوج کے ترجمان نے میڈیا کو تفصیل سے بتایا کہ فوجی دستوں، ایس، ایس جی کمانڈوز، ایف سی اور پاک فضائیہ نے کس منظم انداز میں مشترکہ آپریشن کیا اور پیشہ ورانہ مہارت اور مکمل فرض شناسی کے ساتھ اس اہم فریضے کو تکمیل تک پہنچایا۔ پاک فوج کے ترجمان کے مطابق سفاک اور عیار دہشت گرد افغانستان کی سرزمین پر موجود پاکستان دشمن عناصر کے ساتھ سٹیلائٹ فون کے ذریعے رابطے میں تھے۔ انھوں نے اس بڑے معرکے میںکامیابی پر قوم کو مبارک باد دی تاہم انھوں نے شکوہ کیا کہ اس موقع پر بعض سیاسی گروہوں نے قومی ذمہ داری انجام دینے کی بجائے الٹا زخموں پر نمک چھڑکنے اور گھر کو آگ لگانے والا رویہ اختیار کیا۔ فوج کے ترجمان نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ دہشت گردوں کو معاف نہیںکیا جائے گا۔ پاک سرزمین پر ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق جعفر ایکسپریس کے مسافروں کو یرغمال بناکر دہشت گردوں نے دراصل پاک فوج کو چیلنج دیا تھا جس کا انھیں قرار واقعی جواب مل گیا۔
بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کا اغوا ایک غیر معمولی واقعہ تھا، ملک میں ٹرینوں پر حملے ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں لیکن چار سو مسافروں کو جن میں سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی، یرغمال بنا لینا ملک میں ایک نئی مثال تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ نے اس خبر کو نمایاں طورپر پیش کیا۔ امریکا، روس، سعودی عرب، ترکیہ، ایران، یورپی یونین سمیت متعدد اطراف سے اس واردات کی مذمت کی گئی۔ بھارتی میڈیا نے بھی اس واقعے کو خوب اچھالا اور ریاست اور پاک فوج پر بالواسطہ طورپر لفظوں کے تیر برسائے تاہم پاک فوج کی زبردست جوابی کارروائی نے ہر قسم کے دشمنوں کے دانت کھٹے کر دیے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے پاک فوج کو خراجِ تحسین پیش کیا اور اس واقعے میں شہید ہونے والے مسافروں اور ایف سی جوانوں کے اہلِ خانہ کے ساتھ گہری ہمدردی کا اظہار کیا۔ فی الواقع چار سو مسافروں کو یرغمال بنا لینا دہشت گردی کی اتنی بڑی واردات تھی جو ملک کے حفاظتی نظام پر سوال اٹھانے کا موقع فراہم کر سکتی تھی۔ حیرت انگیز طورپر بعض میڈیا ذرائع نے اس واقعے کی شدید منفی تشہیر کی۔ یوں محسوس ہورہا تھا جیسا کہ دہشت گردی کے اس حملے میں وہ ہائبرڈ وار کا حصہ بن کر ریاست کے خلاف ایک نفسیاتی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ دہشت گرد اس واردات کے ذریعے اپنی طاقت، غلبے کی صلاحیت، ریاست کی کمزوری اور گوریلا طرز کے حملوں میں اپنی برتری کا اظہار چاہتے تھے۔ کیا ریاست اور افواجِ پاکستان کو اس موقع پر طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے والوں کو علم نہیں تھا کہ مسافروں کا اغوا اور قتل پوری دنیا میں قابلِ نفرین عمل سمجھا جاتا ہے جبکہ قرآن کریم نے صاف الفاظ میں فساد پھیلانے والے ایسے خارجیوں اور شریر لوگوں کے لیے سخت ترین سزا کا اعلان کر رکھا ہے؟ اس کے باوجود بلوچ علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کی کوشش کیوںکی گئی؟ بادی النظر میں یہ شرارت دراصل ریاست اور اس کے عوام کے خلاف جنگ کا اعلان ہے۔ عسکری ماہرین کے مطابق بلوچ علیحدگی پسندوں کی افغانستان سے سہولت کاری اور جدید وسائل کے ذریعے مسلسل روابط سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے خلاف جاری جنگ ایک نیا روپ اختیار کر رہی ہے۔ جنگ کے اس مرحلے میں دہشت گردوں نے آسان اہداف کو سامنے رکھ لیا ہے۔ اس قسم کی غیر روایتی جنگ کا بڑا مقصد خوف، بے یقینی اور دہشت کو پھیلانا ہوتا ہے تاکہ بڑے مقاصد کو آسانی سے حاصل کیا جا سکے۔
بلوچ علیحدگی پسندوں کا بنیادی مقصد خدانخواستہ پاکستان کو توڑنا اور ایک الگ ریاست قائم کرنا ہے جس کے لیے وہ ملک دشمن طاقتوں کی مدد سے جدید ترین اسلحے، میڈیا اور نفسیاتی جنگ کے حربے اور تیکنیک کا ہر ممکن استعمال کر رہے ہیں۔ وہ امن کے خواہاں ہی نہیں ہیں۔ اس موقع پر قیام امن کے لیے روایتی سیاست دان کوئی بنیادی کردار ادا نہیں کر سکتے، کیوں کہ سرکش طاقت مکالمے یا اپنے خلاف عقل و منطق کی بات تسلیم نہیں کرتی۔ تاریخ کا تجربہ یہی ہے کہ طاقت کا استعمال نئے مسائل بھی پیدا کرتا ہے لیکن طاقت کا مقابلہ بھی کوئی دوسری طاقت ہی کیا کرتی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ افغان سرزمین جسے امن کا مظہر ثابت ہونا چاہیے تھا، اس معاملے میں استعمال ہو رہی ہے۔ یہ منظر مسلم امہ کی حالیہ تاریخ میں ایک درد ناک المیے سے کم نہیں ہے۔ یہ اس خطے کی بدقسمتی ہے کہ یہاں قیام امن کے نام پر اٹھنے والی تحریکیں ہوں یا فساد برپا کرنے والی شورش ہو، ان کے افراد بیرونی مفادات کی خاطر استعمال ہو جاتے ہیں۔ افغانستان سے مدد ملنا ہی اس امر کی دلیل ہے کہ یہ واقعہ بھارت اور دیگر بڑی طاقتوں کے بنے ہوئے اس جال کی کڑی ہے جو پاکستان کو شکنجے میں کسنے کے لیے مقامی سہولت کاروں کی مدد سے کوہ ہندو کش کی چوٹیوں تا بلوچستان کے صحراوں تک پھیلایا جا چکا ہے۔ اس جال کو ایک آہنی صلاحیت رکھنے والی قوت ہی تار تار کر سکتی ہے۔ زبانی کلامی باتوں سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ بلوچستان کو پاکستان سے جدا کرنے والے احمقوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا البتہ وہ بڑی طاقتوں کے ہاتھوں کھلونا ضرور بنے رہیں گے جیسا کہ جعفر ایکسپریس حملے میں شریک دہشت گرد محض استعمال ہوئے۔ ہر چندکہ انھوںنے افغانستان میں موجود گوریلا جنگ میں مہارت رکھنے والے عناصر کی پشت پناہی سے ایسا قدم اٹھایا جس کے بل پر وہ بزعمِ خود ریاست کو اپنے مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کر سکتے تھے کیوں کہ چار سو کے قریب مسافروں کی جانوں کو ریاست کبھی خطرے میں نہ ڈالتی، موقع و محل اور ماحول دہشت گردوں کے لیے سازگار تھا، انھیں صحراو¿ں میں پھیلے ہوئے ٹیلوں اور سرنگوں کی تزویراتی مدد بھی حاصل تھی لیکن یہ خوارج ایک منظم فوج کی قوت کے سامنے زیادہ دیر تک نہ ٹک سکے۔
اس آپریشن میں جو وقت صرف ہوا، اس کی وجہ بھی فوج کے ترجمان کے مطابق مسافروں کی سلامتی تھی، دور دراز صحرائی ٹکڑے میں خودکش جیکٹ پہنے دہشت گردوں کے نشانے پر موجود مسافروں کو بچانا آسان کام نہیں تھا لیکن پاک فوج کے نشانہ بازوں نے بفضلہ تعالیٰ بنوں کینٹ والے معرکے کی مانند کمال فن حرب سے کام لیتے ہوئے یہ مرحلہ بھی سر کر لیا۔ جعفر ایکسپریس حملے کو ناکام بنانے کے بعد افواجِ پاکستان کے ترجمان کے الفاظ ایک آہنی عزم کی نشان دہی کر رہے ہیں جو بیان کرتا ہے کہ اس حملے میں ملوث عناصر اور ان کے سہولت کاروں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔ افواج پاکستان نے جس پیشہ ورانہ مہارت، فرض شناسی اور چابک دستی سے دشمن کے اس بڑے وار کو ناکام بنایا، وہ ملک دشمن قوتوں کے لیے واضح پیغام ہے۔