Promise

لا محبوبی الا للہ!

لا محبوبی الا للہ!
اقصیٰ عبیدالرحمن درخواستی

’’تم کچھ بدلی ہوئی لگ رہی ہو مجھے!!؟؟‘‘ تسبیح کے دانے گراتے میں نے کہا۔

’’وہ کیسے…؟‘ جائے نماز کا کونہ موڑتے وہ بولی۔

’’سمجھ دار… اور تھوڑی سوبر…‘‘
’’وقت اور حالات بہت کچھ بدل دیتے ہیں ماہی!‘‘ سرد آہ بھرتے اس نے کہا۔

’’آئے ہائے… ایسے بھی کیا حالات آگئے کہ ہماری عبیر بدل گئی۔‘‘ میں شوخ ہوئی۔

’’جب ہم اپنے خدا سے بہت دور ہوجاتے ہیں ناں!… تو وہ ہم پر آزمائشیں بھیجتا ہے… ہم نہیں سمجھتے وہ دوسری آزمائشیں بھیجتا ہے اور اس وقت ہم سے ہر اس شخص کو دور کردیتا ہے جن سے ہم اپنا غم شیئر کرسکتے ہیں…‘‘ وہ آسمان کی طرف دیکھتی اداسی سے مسکرائی۔

پھر جب ہمارے پاس کوئی غم خوار نہیں بچتا تو ہم مجبوراً اپنے غم بانٹنے کے لیے اللہ کے در پر آتے ہیں اور پھر پتا ہے کیا ہوتا ہے؟… ہم آئے تو مجبوری میں ہوتے ہیں کہ ہمارے پاس غموںکو شیئر کرنے والا او رکوئی نہیں ہوتا، لیکن جب ہم اس کے پاس آتے ہیں تو اس کی طرف سے اتنی محبت اور توجہ ملتی ہے کہ ہم حیران رہ جاتے ہیں۔ بے یقین ہوجاتے ہیں… تھوڑی دیر کے لیے وہ رکی اور میری توجہ محسوس کرتے دوبارہ گویا ہوئی۔ اور پتا ہے وہ رب ایسا کیوں کرتا ہے؟ کیونکہ وہ ہم جیسے نادانوں سے محبت کرتا ہے، اس کو پتا ہے یہ جہنم کی گرمی نہیں برداشت کرسکیں گے تو اس لیے وہ پھر آزمائشیں ڈالتا ہے۔

صبح کی ہلکی ہلکی نمودار ہونے والی روشنی بہت بھلی لگ رہی تھی، اس کے جذبات کی عکاسی کرتا اس کا چہرہ بھی اسی روشنی کا ہی حصہ لگ رہا تھا۔

’’مجھے محبت ہوگئی تھی ماہ رخ…… گندی محبت ……ڈیڑھ سال کا ہر لمحہ میں نے اس کے نام کردیا تھا اور تب مجھے خدا بھی صرف اس وقت یاد آتا جب ’اس‘ کے لیے کچھ مانگنا ہوتا……افسوس!‘‘ اس کی آنکھ سے آنسو نکلا اور پلکوں کی باڑ توڑتے نیچے آگرا۔

کئی وعدوں اور دعووں کے بعد بھی جب وہ ’بے وفائی‘ کر بیٹھا تو اس غم کو بانٹنے کے لیے مجھے خدا کے سوا اور کوئی نہ ملا…لیکن پھر اس خدا نے مجھے ایسے تھاما کہ میںوہ ہی نہیں، ہر غم سے آزادی مل گئی۔اس خدا نے میری زندگی کے دکھ چن لیے، میرے احساسِ تنہائی کو ختم کردیا اور اپنی محبت کا ایسا جذبہ عطا کردیا جس نے مجھے اندر تک مسحور کردیا…

کیا کوئی اتنا بھی اچھا ہوتا ہے ماہی؟ گردن موڑ کر میری طرف دیکھتے اس نے پوچھا۔

’’میں تو اس کے در پر صرف اس لیے گئی تھی کہ میرے پاس اس وقت اور کوئی درنہ تھا… لیکن اس نے…‘‘

وہ ہچکیوں کے ساتھ رونے لگی اور میں چپ چاپ اسے دیکھے گئی۔
’’کتنی خوش نصیب ہے ناں! اپنے رب کی محبت پالی اس نے۔‘‘

’’گندی محبت لڑکیوں کو بہت کمزور کردیتی ہے ماہی! وہ اپنے جذبات کسی کو بتا نہیں سکتیں تو خود سے لڑتے لڑتے اندر سے ٹوٹ جاتی ہیں، میں بھی بہت ٹوٹ گئی تھی (اگر اللہ جی مجھے نا سنبھالتے تو نہ جانے کیا ہوتا؟ ایک ٹھنڈی اور سرد آہ بھرتے اس نے کہا۔

بکھر گئی تھی پھر میں اللہ تعالیٰ کے پاس آئی،دل کی ہر بات اسی سے کرنے لگی۔ وہ میری ہر بات بہت غور سے سنتے پھر مجھے تسلی دیتے اور بار بار یہ خیال میرے دل میں ڈالتے کہ وہ ’چھوڑ گیا‘ ہے مگر اللہ جس کو ایک بار اپنا بنالے اس کو پھر کبھی نہیں چھوڑتا۔

بس پھر ماہ رخ! مجھے پتا ہی نہ چلا اور مجھے بھی محبت ہونے لگی، اپنے خدا سے، اپنے پالن ہار سے……!!

گزرے ماہ و سال سوچتی ہوں تو دل چاہتا ہے زمین میں گڑ جائوں۔ بڑی شرمندگی ہوتی ہے۔ ابو اور بھائی والے کتنے غیرت والے ہوتے ہیں ناں! اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

اَنَا أَغْیَرُ مِنْہُ
’’میں سب سے زیادہ غیرت مند ہوں۔‘‘

ماہی! اس نے خود ہمیں بنایا ہے، دنیا کی ہر نعمت دی ہے۔ وہ چاہتا ہے انسان سب سے زیادہ اسی سے محبت کرے پھر اگر انسان اس کو چھوڑ کر کسی اور کو دل میں بسا بیٹھے (وہ دل جسے اس نے پورے جسم میں صرف اپنے لیے بنایا ہے) تو اس کو کتنی غیرت آتی ہوگی ناں کہ جس دل کو میں نے صرف اپنے لیے بنایا ہے اس میں اس نے کسی اور کو بٹھادیا۔

اب سوچتی ہوں تو شرمندگی ہوتی ہے کہ کتنی دلیری سے میں اللہ سے اللہ کا غیر مانگتی رہی۔ وہ کیسے برداشت کرتا ہوگا؟وہ بھی سوچتا ہوگا کتنے بے وقوف ہیںناں یہ انسان، مجھے چھوڑ کر اپنے جیسے مجبور اور بے وفا انسانوں کو مانگتے ہیں اور وہ بھی مجھ سے مانگتے ہیں۔ انگلیوں کی پوروں سے آنسو صاف کرتے اس نے کہا۔

’’ماہی! اللہ کی محبت نے مجھے مضبوط بنادیا ہے۔ سالار چاچو کی شادی پر وہ آرہا تھا اور میں نے رو رو کر اپنے اللہ سے استقامت مانگی تھی کہ میں دوبارہ اس دلدل میں نہیں جاناچاہتی تھی۔ اللہ نے مجھے بہت کمزور ہوتے ہوئے بھی استقامت دی تھی۔ پارلر سے واپس آتے ہوئے اتفاقاً گاڑی میںپورے پانچ منٹ میں اور وہ اکیلے تھے ماہی!… مگر اس کے لیے ایک لمحے کے لیے بھی میرے دل میں کوئی خیال نہیں آیا، کتنی بڑی بات ہے ناں! مطلب اب میرے دل سے اس کی محبت نکل گئی ہے… نہیں بلکہ میرے اللہ نے نکال دی ہے، مجھے اس اذیت سے نکالنے کے لیے کتنے اچھے ہیں ناں میرے اللہ!آسمان کی طرف محبت سے تکتے اس نے کہا۔

’’ویسے عبیر تمہیں کس سے محبت ہوئی تھی؟‘‘ کب سے دماغ میں کلبلاتا سوال آخر میرے لبوں پر آہی گیا۔

’’رہنے دو! ماہ رخ، مت پوچھو، تکلیف ہوتی ہے، شرمندگی ہوتی ہے، اس کا نام لینا بھی مجھے اب اچھا نہیں لگتا۔‘‘ اس نے کراہت سے کہا۔

’’ہوسکتا ہے وہ مجبور ہوگیا ہو؟‘‘ میںنے نہ جانے کیوں اس کا فاع کرنا چاہا۔

’’ہوسکتا ہے! مگر اب میں نے جس سے محبت کی ہے وہ مجبور نہیں ہے، نہ بے وفا ہے، وہ جب چاہے مجھے اپنے پاس بلاسکتا ہے، اور مجھے یقین ہے وہ مجھے اپنے پاس اپنی جنت میں ضرور جگہ دے گا۔ یہاں پر دنیا میں وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہتا ہے اور مجھے یقین ہے وہاں آخرت میں وہ مجھے ہر لمحے اپنے ساتھ رکھے گا۔ میں اس کا دیدار کروں گی ان شاء اللہ ہر وقت ہر لمحے اور ہر ملاقات اور دیدار کے بعد میرے عشق و محبت میں اضافہ ہوتا جائے گا اور وہ بھی میری محبت کی قدر کرے گا لاج رکھے گا۔

وَسَقٰھُمْ رَبُّھُمْ شَرَابًا طَہُوْرًا
خود مجھے جامِ طہور (پاک جام) پلائے گا۔

یہ دیوانگی مجھے خوشی دے گی سکون دے گی کیونکہ مجھے پتا ہوگا کہ محبت اس طرف سے بھی ہے، بلکہ وہ تو مجھ سے میری محبت سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے، وہ ہر طرح سے مجھے خوش رکھے گا، میرے منہ سے نکلنے سے پہلے ہی میری ہر خواہش پوری کرے گا، ایسا محبوب کہیں دیکھا ہے…؟ نہیں کسی نے نہیں دیکھا، مگر اللہ سے محبت کرنے والے ایسا محبوب دیکھیں گے اور ضرور دیکھیں گے، اس کے چہرے سے پھونٹنے والی الوہی خوشی نے مجھے مسحور کردیا۔

محبت الٰہی کا عکس اس کے چہرے کو جگمگا رہا تھا، میں نے سچے دل سے ایسی ہی محبت اللہ سے مانگی اور نیچے جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ کتنے مان اور یقین سے وہ اللہ کے بارے میں بات کر رہی تھی۔ سورج آسمان پر نکل آیا تھا، اس لمحے اس کا چہرہ سورج سے بھی زیادہ روشن لگ رہا تھا۔ اچانک میں نے نظریں ہٹالیں

’’چلو ماہی میں تمہیں اپنا پسندیدہ شعر سناتی ہوں۔‘‘ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا آسمان کی طرف دیکھتے وہ کہہ رہی تھی۔

کبھی لفظ بھول جائوں کبھی بات بھول جائوں
اے خدا! تجھے اتنا چاہوں کہ اپنا آپ بھول جائوں

آمین! میں نے کہا۔
اور یہ اشعار بھی سنو !انتہائی جذب سے وہ کہنے لگی ۔

تیری چاہت کی ہر چیز کو چاہا دل سے
اپنی چاہت کی ہر چیز جلادی ہم نے

تجھ کو شکوہ ہے کہ رستے میں ہے دیوارِ ’اَنا‘
آکے اب دیکھ! یہ دیوار بھی ڈھادی ہم نے

’’سبحان اللہ!‘‘ بے ساختہ میرے منہ سے نکلا۔ ’’عبیر! میرے لیے بھی دعا کیا کرو اللہ میرے دل کو بھی اپنی محبت سے بھر دے۔‘‘ میں نے خلوصِ دل سے کہا۔

’’ان شاء اللہ ضرور!آپ خود اللہ سے اللہ کو مانگا کرو، اللہ ضرور اپنی محبت دیں گے کیونکہ اللہ بہت اچھے ہیں۔ یہ دعا کثرت سے پڑھا کرو، جتنا ہوسکے، اس سے اللہ کی محبت کے علاوہ ہر غیر ضروری محبت دل سے نکل جاتی ہے۔

لَامَحْبُوْبِیْ اِلَّا اللّٰہ
لَامَرْغُوْبِیْ اِلَّا اللّٰہ
لَامَطْلُوْبِیْ اِلَّا اللّٰہ
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ

’’تم مجھے لکھ دینا میں یاد کرلوں گی۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’چلو ابھی لکھ دیتی ہوں، آئو اب نیچے چلتے ہیں امی انتظار کر رہی ہوں گی۔‘‘ سرد آہ بھر کر جائے نماز لپیٹتے اس نے کہا اور سیڑھیاں اترنے لگی میں بھی اس کے پیچھے چل دی۔ یہ عزم کرکے کہ اب ضرور اس محبوبِ حقیقی کو اپنے دل میں بسانا ہے جس نے دل بنایا بھی صرف اپنے لیے ہے۔

نندیں ہوں تو ایسی
اقراء یاسر۔ ٹھل نجیب

بقول ہماری چھوٹی نند کے……

نندیں ہوں تو اچھی ہوں ورنہ اپنے گھر بار والی ہوں!

مذاق میں کہی گئی اس کی یہ بات اللہ نے قبول کی اور اسے اچھی نند ملی۔

بعض نندیں سیکڑوں میل دوربیٹھ کر بھی میکے میں آگ بھڑکارہی ہوتی ہیں اور آج کل یہ کام موبائل پر بآسانی سر انجام دیا جاسکتا ہے۔ ایک منٹ کی کال سالوں سے آباد گھروں کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔

جب ازدواجی زندگی کا آغاز ہوتا ہے اور ایک بیٹی اپنا گھر چھوڑ کر سسرال کے آنگن میں جابستی ہے تو اسے سب سے زیادہ اپنی نندوں کے اچھے رویے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اکثر نندیں ہم عمر ہوتی ہیں یا تھوڑا بہت فرق ہوتا ہے۔ بعض اوقات ساس سسر بیمار ہوتے ہیں یا شوہر کسی سلسلے میں گھر سے باہر ہوتا ہے تو یہ نندیں ہی ہوتی ہیں جو گھر میں پیارومحبت کا بیج بوکر اپنے بھائی کا گھر خوشگوار رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔

الحمدللہ……!جب سسرال میں ہم نے قدم رکھا تو ہر لمحہ اپنی نندوں کا ساتھ محسوس کیا اور اللہ تعالیٰ کا ہر آن شکر بھی ادا کیا۔ واقعی رشتوں میں اگر احساس ہو تو ہی محبتیں پروان چڑھتی ہیں۔ صرف کھوکھلے دعووں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

چھوٹی نند مدرسے میں حفظ کی کلاس لیتی، مصروف ہوتی اور بڑی نند گھر میں ہوتیںتو ہر طرح سے میرا خیال رکھتیں۔ شادی کو دو سال ہونے کو آئے ہیں اور یہ سلسلہ ویسے ہی جاری ہے۔ یہاں تک کہ کبھی میں پریشان ہوں تو میرے چہرے کے تاثرات سے وہ سب محسوس کرلیتی ہیں۔ اللہ پاک انہیں ڈھیروں خوشیاں دیں۔ شادی وغیرہ کے موقع پر میرے لیے کپڑوں کا انتخاب اور تیاری تک میرا ساتھ دیتی ہیں۔ جب اللہ پاک نے بیٹی سے نوازا تو ہسپتال میں قیام کے دنوں میں میری نندوں نے میرا بھرپور ساتھ دیا۔ انہوں نے اپنی بھتیجی کو اس قدر پیار اور محبت دی ہے کہ لوگ دیکھ کر رشک کرتے ہیں۔ منیحہ کے کپڑے بنوانے سمیت ہر چیز کا دھیان رکھا جاتا ہے۔ کوئی چیز منگوانی ہو تو مجھ سے زیادہ انہیں فکر ہوتی ہے۔ اگر ان کا ساتھ نہ ہوتا تو میرے لیے شاید مشکل ہوجاتی۔ میری نندیں بہنوں جیسی ہیں۔ کبھی فرق محسوس نہیں ہوا۔ اللہ پاک میری ان بہنوں کو ہمیشہ عافیت سے نوازیں اور انہیں ہر قسم کے غموں سے محفوظ فرمائیں۔