میاں صاحب کے پاکستانی سیاست میں 40 سال (محمود شام)

سوشل میڈیا سے خبر ملی ”مرد آہن ۔محمد نواز شریف اقتدار، اپوزیشن۔ جلاوطنی اور جیل کہانی۔ مصنف محمد نواز رضا“
محمد نواز رضا پرنٹ کے سینئر صحافیوں میں سے ہیں۔ اخبار نویسوں کے حقوق کے لیے بھی کئی عشروں سے جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے مشاہدات پر مبنی یہ تصنیف یقینا وقت کا تقاضا تھی اور قلم فاونڈیشن اسے بروقت منظر عام پر لا رہی ہے۔ میاں محمد نواز شریف پاکستان دولخت ہونے کے بعد والے ان دو تین سیاست دانوں میں سے ہیں جو کئی عشروں سے سیاسی افق پر چھائے ہوئے ہیں۔ 9 اپریل 1985ء کو وہ پنجاب کے وزیرخزانہ کی حیثیت سے وفاق پاکستان کی عملی سیاست میں داخل ہوئے۔ انہیں یہ اعزاز بھی ملا کہ وہ پنجاب کے پہلے لیڈر ہیں جو پاکستان کی مرکزی سیاست پر اتنے عرصے سے غالب ہیں۔ انہوں نے سیاست میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے آصف زرداری، عمران خان سے مقابلہ کیا اور اس 40 سال میں پاکستان کے نو چیف آف آرمی سٹاف کسی نہ کسی طرح ان کے مقابل یا موافق رہے۔ جنرل اسلم بیگ، جنرل آصف نواز، جنرل عبدالوحید کاکڑ، جنرل جہانگیر کرامت، جنرل پرویز مشرف، جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل راحیل شریف، جنرل قمر باجوہ اور ان دنوں جنرل عاصم منیر۔
اسی طرح پاکستان کے چیف جسٹسوں سے بھی کسی نہ کسی طرح موافقت اور مخاصمت تاریخ کا حصہ ہے۔ چیف جسٹس محمد حلیم، جسٹس افضل ظلہ، جسٹس نسیم حسن شاہ، جسٹس سید سجاد علی شاہ، جسٹس اجمل میاں، جسٹس سعید الزماں صدیقی، جسٹس ارشاد حسن خان، جسٹس بشیر جہانگیری، جسٹس شیخ ریاض احمد، جسٹس ناظم حسین صدیقی، جسٹس افتخار محمد چودھری، جسٹس جاوید اقبال، جسٹس رانا بھگوان داس، جسٹس تصدق حسین جیلانی، جسٹس ناصر الملک، جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید خان کھوسہ، جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس یحییٰ خان آفریدی ۔
ہم مروت یا خوشامد میں بہت سے احباب کو لوِنگ لیجنڈ کہہ دیتے ہیں مگر ہم پاکستان کی ہنگاموں سانحوں سازشوں فریبوں بھری تاریخ کے تناظر میں دیکھیں ان نو آرمی چیفوں اور قریباً 20 چیف جسٹسوں کا نام پڑھتے ہی تاریخ کتنے ڈراموں، کتنے زلزلوں، کتنے حادثوں کی گواہی دینے لگتی ہے۔9 اپریل 1985ء سے شروع ہونے والی یہ سیاسی زندگی کتنے طوفانوں، سیلابوں، بحرانوں، سائیکلونوں، محلاتی سازشوں سے گزری ہے۔ کبھی بینچ غالب ہے کبھی بیرک، کتنا خون بہا ہے۔ عام پاکستانی مسلسل اپنے حقوق سے محروم ہوتے رہے ہیں۔ ان 40سال میں عالمی افق پر کتنی تبدیلیاں آئی ہیں۔ کیسے کیسے مہتاب گہنا گئے۔ کیسے کیسے آفتاب ڈھل گئے۔ کمیونزم کی طبعی موت۔ انڈیا میں کانگرس کا کریا کرم، بی جے پی کی اٹھان۔ افغانستان میں عالمی افواج کی موجودگی۔ ایران پر امریکی عالمی پابندیاں، مشرق وسطیٰ میں عرب بہار، سعودی عرب میں شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں بنیادی تغیرات، امریکا میں سفید فارموں کا عروج، برطانیہ میں وزرائے اعظم کی میراتھن ایک جنوبی ایشیائی کا وزیراعظم بننا، امریکا میں بھارتی نژادوں کا صف اوّل میں آنا ۔ پاکستان میں 1985ء میں ایک ڈالر 15 روپے کا تھا اب 300 کے قریب۔ سب سے زیادہ بدلاو چین میں آیا ہے جس نے سیاست عسکریت چھوڑ کر دکانداری ،مینو فیکچرنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی پر زور دیا ہے۔ اب وہ بلاشبہ دنیا کی پہلی معیشت ہے۔
میاں محمد نواز شریف نے انسانی تاریخ کی یہ چار اہم دہائیاں تین دفعہ ایک وزیراعظم کی حیثیت سے ایک بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی مسند سے اور زیادہ تر ایک جلا وطن اپوزیشن لیڈر کے طور پر دیکھی ہیں۔ جلاوطنی خود ساختہ تھی یا جبری یہ تحقیق طلب ہے۔ دوسرے لیڈروں کی طرح انہوں نے اپنی جلا وطنی میں کیوں کوئی آرٹیکل نہیں لکھے، کوئی کتاب نہیں لکھی حالانکہ پاکستان کی سیاست پر ان کا ریموٹ کنٹرول رہا ہے، پھر بھی پاکستان کی سیاسی عسکری تبدیلیوں معاشی اونچ نیچ پر اپنے موقف کے اظہار سے گریز کیوں کیا۔ حالانکہ ان کے پیشرووں میں ذوالفقار علی بھٹو، ہم عصروں میں بے نظیر بھٹو مسلسل اپنے حامیوں، کارکنوں سے رابطے میں رہیں۔ جناب الطاف حسین کی مثال بھی دی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کتابیں بھی لکھیں، عالمی اور مقامی اخبارات میں مضامین بھی۔ میں نے یہ جاننے کی بھی کوشش کی ہے کہ ان 40برسوں میں یا ان سے ذرا پہلے کون کتنی دیر عملی سیاست میں جسمانی طور پر رہا ہے ۔شہید ذوالفقار علی بھٹو 1957ءسے 1979ءتک 22 سال اگرچہ اس کے بعد وہ اب تک سیاسی افق پرہیں ۔ شہید بے نظیر بھٹو جولائی 1977ءسے دسمبر 2007ءتک 30 سال۔ پھر مولانا فضل الرحمن 1982ء سے 2025ء تک 43 سال۔ عمران خان 1997ء سے 2025، 28 سال۔ آصف علی زرداری 1987 ء (شادی سے) سے تاحال 38 سال۔
ایک آدھ کو چھوڑ کرسب سے زیادہ سال میاں صاحب کے ہی بنتے ہیں۔ 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد سیاست اور حکمرانی ملکی پالیسیوں کے بجائے وزیراعظم ہاوس، آرمی ہاوس اور سپریم کورٹ کے درمیان ہی کھیلی گئی ہے۔ ایک زمانے میں ٹرائیکا کا زور تھا ۔ہماری سیاسی تاریخ سویلین اور ملٹری حکمرانوں کے درمیان کشمکش تک محدود رہی ہے، اس لیے مورخ کو بہت مشکل سے سیاسی یا فوجی حکمرانوں کی اقتصادی، سیاسی سماجی، تعلیمی، صنعتی ،زرعی پالیسیوں کا علم ہوتا ہے۔
فی زمانہ گزشتہ 40 سال کے سب سے زیادہ چشم دید واقعات میاں محمد نواز شریف کے پاس ہی ہیں۔ میری رائے جانبدارانہ ہوگی کیونکہ مجھے چار دہائیوں سے شریف خاندان کو زیادہ قریب سے دیکھنے اور تجزیے کا موقع نہیں ملا۔ اس لیے میری گزارش ہوگی کہ کسی یونیورسٹی کے غیر جانبدار محقق ان 40 سال کا جائزہ لیں، میاں صاحب سے بھی کچھ نشستیں کریں، ان سے کھل کر سارے سوالات کئے جائیں، خلائی مخلوق پر اب ان کی رائے؟ 8 فروری کے ووٹ کی عزت؟ میاں صاحب معیشت میں کیا کیا تبدیلیاں لائے؟ ان کی امریکا پالیسی، انڈیا پالیسی، مشرق وسطیٰ پالیسی، چین پالیسی بھی سامنے آنی چاہیے۔ انڈیا سے تجارتی اور سفارتی تعلقات کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟ تعلیم، صحت، زراعت کے مستقبل کے بارے میں ان کے کیا نظریات ہیں۔ یہ یقینا زیادتی ہوگی کہ 40سال تک پاکستان کی سیاست میں صفِ اوّل میں مسلسل سرگرم رہنے،جنرلوں اور چیف جسٹسوں کا مقابلہ کرنے والی شخصیت کی طویل عملی سیاست پر ان کی مصلحت آمیز خاموشی اور سمجھوتے ہی غالب رہیں۔ خیال رہے کہ 9 اپریل 2025ء زیادہ دور نہیں، جب ان کی عملی سیاست کے پورے 40 سال ہونے والے ہیں۔