کچھ تو دان کرو
صبیحہ عماد۔ کراچی
’’اماں… فریج پھر خراب ہوگیا ہے۔‘‘
ببلی نے حسبِ عادت چیخ کر اپنی ماں کو مطلع کیا۔
’’اری ہاں ناں مجھے صبح ہی اندازہ ہوگیا تھا تو کیوں چیخ کر میرے کان کے پردے پھاڑ رہی ہے۔‘‘ اماں نے کِلس کر جواب دیا۔
’’بتائو ذرا ابھی کچھ مہینے پہلے ہی صحیح کروایا تھا۔ منحوس مارا پھر خراب ہوگیا۔ اب کہاں سے لائوں اتنے پیسے جو فریج تبدیل کروالیں۔ ‘‘اماں بڑبڑاتیں رہیں۔
ایسا نہیں تھا کہ اماں کوئی دس بارہ بچوں کی اماں تھیں اور وہ لوگ انتہائی غریب تھے۔ اماں، ببلی اور ببلی کے ابا پورا گھرانہ ان تین نفوس پر مشتمل تھا۔ ابا کی چھوٹی سہی پر کریانے کی اپنی دکان تھی۔ گزر بسر اچھی خاصی ہو ہی جاتی تھی، مگر اماں کو ناشکری کرنے کی پرانی عادت تھی تو پیسہ جوڑنے کی پیدائشی خصلت! وہ اپنی ساس کے زمانے کے اس فریج کو کم از کم بیس سال مزید چلانا چاہتی تھیں، مگر فریج کی خستہ حالت کے پیشِ نظر ایسا ہونا ممکن نظر آنہیں رہا تھا۔ فریج کے بغیر ان کا گزارا تھا بھی نہیں کہ ایک ہی دفعہ اس منحوس کو بیچ کر قصہ تمام کر دیتیں۔گزارا یوں نہیں تھا کہ آس پڑوس سے تعلق ایسا نہیں تھا کہ کوئی ان کے گھر کی کوئی چیز اپنے فریج میں رکھ لیتا۔ دوسرے انہیں کئی کئی دن پرانے کھانے ننھی ننھی کٹوریوں میں رکھنے کی عادت تھی۔ سبزی پلائو میں پرانی باسی ہر قسم کی سبزی ڈال دی جاتی، دلیہ میںہر قسم کی دالیں اور گوشت کے سالن تو وہ ایسے سنبھال کے رکھتیں کہ بس کبھی کبھار ہی پکائی گئی بریانی کے لیے وہ فریز پرانے سالن نکال کر بریانی کا مصالحہ بناتیں۔ یوں بریانی بنتی اور ابا اور ببلی وہی شکر کرکے کھالیتے۔
اب تو فقیروں نے بھی ان کے گھر سے کھانا مانگنا چھوڑ دیا تھا۔ پتا تھا صفا چٹ انکار ہوگا۔ کبھی کبھار گھر گھر چیزیں بیچنے والی غریب بوڑھی عورتیں اگر کچھ مانگ بھی لیتیں تو اماں دیر تک بڑبڑاتی رہتیں کہ لو بھلا ہمارا ہی گھر نظر آتا ہے کہاں سے لائیں اتنی مہنگائی میں ان کو دینے کے لیے کھانا!!
خیر! فریج کے خراب ہوتے ہی سب سے بڑا مسئلہ جو سامنے آیا وہ یہ تھا کہ آج جو تازہ تازہ آلو گوشت پکا ہے اسے کہاں رکھیں گے؟ گرمی اتنی شدید تھی کہ اگر باہر رکھا رہ گیا تو لازماً خراب ہوجائے گا۔ابا نے صبح ہی شیدے قصائی کی گائے کٹتے ہی آدھا کلو گوشت گھر بھجوا دیا تھا اس تاکید کے ساتھ کہ پورا پکالینا۔سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی حسبِ معمول سالن بچ رہا جس کو محفوظ کرنے کا مسئلہ در پیش تھا۔
’’ببلی تو ایسا کر خالہ حفیظہ کے ہاں سالن رکھ آ…‘‘ اماں کو جلدی میں ان کا خیال آیا۔
’’پَر اماں ان کے یہاں تو تالہ پڑا ہے۔ میں نے شام میں دیکھا تھا۔ کل انہوں نے مدرسے والی باجی کو بھی بتایا تھا کہ میں اپنی بیٹی کے گھر جائوں گی۔‘‘
اب اس سالن کا کیا کروں؟ اماں سوچنے لگیں۔ محلے میں ویسے ہی ان کا بہت کم میل جول تھا۔ اس لیے کہ وہ صرف چیزیں لینا جانتی تھیں دینا نہیں۔ محلے والے بھی آخر کب تک برداشت کرتے تو اب تو بس سب سے دعا سلام تھی۔
ابا کھا پی کے دکان کا حساب کرنے بیٹھ گئے۔ 10 سالہ ببلی ادھر ادھر چکراتی رہی۔ تھوڑی دیر کو دروازے کے باہر گئی پھر آکر اماں سے کہنے لگی کہ اماں چاچا غفور (ٹین ڈبے والا) اس وقت ریڑھی لے کر آرہا ہے۔ لائو یہ کھانا اس کو دے دوں کیا پتا وہ بھوکا ہو۔
اماں نے اس کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا اور بولیں:
’’کم بخت لوٹھا کی لوٹھا ہوگئی ہے مگر ذرا جو عقل آئی ہو۔ آج کا تازہ پکا ہوا کھانے دے دوں، کل پھر ہم کیا کھائیں گے؟‘‘
’’تو اماں کچھ اور پکالینا۔ ابا روز دکان سے سبزی ترکاری بھیجتے تو ہیں۔‘‘
’’ناں تو اس کا مطلب ہے کہ گوشت کا پکا ہوا سالن اس بڈھے کو دے دوں۔‘‘ اماں کو تائو آگیا۔
’’اماں… پیاری اماں آج چاچا اس وقت بھی ریڑھی لیے پھر رہا ہے ورنہ وہ اس وقت کہاں آتا ہے؟‘‘ ببلی چاچا غفور سے بہت ہمدردی رکھتی تھی۔ رات میں جب وہ اور ابا لمبی لمبی باتیں کرتے تھے تو ابا نے اسے چاچے کے بارے میں بتایا تھا کہ بے چارہ اکیلا ایک چھوٹی سی کٹیا میں رہتا ہے۔
’’اماں مدرسے والی باجی نے بتایا تھا کہ بھوکے کو کھانا کھلانا بڑا ثواب ہے۔‘‘
’’اری! تو تجھے کیا پتا ہے کہ وہ بھوکا ہے۔‘‘ اماں آخر کار زچ ہوگئیں۔
آلو گوشت تو وہ کبھی کبھار ہی انتہائی اہتمام سے پکاتی تھیں۔ وہ تو دال سبزی تک فریج کے کونوں میں چھپا کر رکھتیں اور دوسرے کھانوں کے ساتھ ملا کر استعمال کرلیا کرتی تھیں۔ یہ تو پھر گوشت کا سالن تھا وہ بھی تازہ تازہ۔ اماں کا تو سمجھو دل ہی سکڑ گیا تھا چاچے کو دینے کے نام پر۔
’’پر اماں اگر چاچا بھوکا نہ ہوتا تو اس وقت ریڑھی لے کر کیوں نکلتا اور اماں وہ تو کسی سے اپنے منہ سے مانگتا بھی نہیں ہے۔‘‘ ببلی نے اماں کو رام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور آخر میں دھمکی دیتے ہوئے بولی کہ اماں میں تو چاچے کو باہر بٹھا آئی تھی، اب جاکر اسے کہتی ہوں کہ چلا جائے ہمارے یہاں کچھ کھانے کو نہیں ہے ہم خود فاقے کرتے ہیں۔ وہ یہ سب کہتے ہوئے آنکھوں میں آنسو بھر لائی۔ پتا نہیں کیا ہوا کہ اماں کا دل پسیج گیا، کہنے لگیں:
’’اچھا! جا اس کو بول میں لا رہی ہوں کھانا۔‘‘ببلی چاچا کو بتا کر واپس آئی تو اماں نے کٹوری میں سالن نکال دیا تھا۔ گن کر دو بوٹیاں اور ایک آلو اور کچھ شوربہ۔
’’اللہ اماں! اتنا سا سالن؟‘‘
’’ہاں تو میں نے کچھ بچالیا ہے۔ کیا پتا صبح تک صحیح رہے تو ناشتے میں کھالیں گے۔‘‘ اماں کا دل نہ تھا کہ پورا سالن دے دیتیں۔
’’اور روٹی؟‘‘ ببلی نے سوالیہ نظروں سے اماں کو دیکھا تو وہ چمک کر بولیں: ’’اے اب اس کو بولے روٹیاں سامنے تندور سے لے لے۔‘‘
’’اماں پیاری اماں کیا ہوجائے گا اگر ہم دو روٹیاں بھی دے دیں۔‘‘ ببلی نے آخر کار اماں کو منا ہی لیا۔
اس نے سالن اور روٹی سلیقے سے ٹرے میں رکھی اور دروازے کی اوٹ سے کھانا دے آئی۔
کھانا کھانے کے بعد چاچا غفور نے جھولی پھیلائی اور گڑگڑاتے ہوئے کہنے لگا:
’’اے اللہ! آج اس گھر کی مالکن نے میری من پسند چیز میرے آگے رکھی تو میرے مولا اس گھر کی مالکن کے آگے ساری زندگی اس کی من پسند چیز رکھنا۔ اے اللہ! اس گھر کا دستر خوان وسیع کرنا اور اس گھر کے باسیوں پر دنیا جہاں کی نعمتوں کا دروازہ کھول دینا۔ اے اللہ! جیسے اس مالکن نے آج میرا دل خوش کیا آپ سدا اس کا دل خوش کرنا۔‘‘
اندر اماں خوشی سے سرشار یہ دعا کیے جارہی تھی کہ اللہ پاک اب ہمیشہ دینے والا ہی بنائے۔آج چاچے کے دل سے نکلی دعائوں نے اماں کے اندر تک کی اور، اور، اور کی ہوس کو دھو ڈالا تھا۔
حجاب
حجاب میرے عقیدے کا واضح اظہار ہے۔ یہ دوسروں کے لیے اللہ تعالیٰ کے وجود کی یاد دہانی ہے اور میرے لیے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینے کی یاددہانی… میرا حجاب مجھے مستعد اور آمادہ کرتا ہے کہ ’’ہوشیار ہوجائو… تمہارا طرز عمل ایک مسلم کی طرح ہونا چاہیے۔‘‘
جس طرح پولیس کا ایک سپاہی اپنی وردی میں اپنے پیشے کا لحاظ رکھتا ہے، اسی
طرح میرا حجاب بھی میری مسلم شناخت کو تقویت دیتا ہے۔
(جاپانی نو مسلمہ ’’خولہ لکاتا‘‘ کی تحریر سے اقتباس)