Marriage Hall

آج کل کے میاں بیوی

بنت مولانا محمد سلیمان جٹ ۔ ملتان

نکاح و خوبصورت بندھن ہے جس کے ذریعے میاں بیوی کا پیارو محبت میں گندھا ہوا رشتہ وجود میں آتا ہے۔ ایک فرد خاندان کا ”سائبان” کہلاتا ہے تو دوسرے کو نئی نسلوں کی آمین کی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے۔ میاں بیوی کی باہمی الفت و محبت ہمدردی و غم خواری وفا شعاری و دلداری نہ صرف اس رشتے کو قابل رشک بناتی ہے بلکہ تمدن انسانی کی گاڑی کو بھی رواں دواں رکھتی ہے۔ آج کل کے میاں بیوی تمدن انسانی کی گاڑی کو کیسے چلا رہے ہیں؟ ایک منظر دیکھتے ہیں۔
عصر حاضر کے میاں بیوی تین طبقوں میں منقسم ہیں۔

پہلا طبقہ: الحمدللہ خوش قسمت اور قابل رشک گھرانے اب بھی ایسے موجود ہیں جن کے جسم و روح اسلام کی خوشبو سے معطر ہیں اور مسلم معاشرت سے مالامال۔جہاں آپ اسلامی تہذیب و تمدن، خانگی نظام اور اسلام کے دلکش اعجاز کے نمونے ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ اسلامی صفات اور امتیازات مثلاً شرم و حیا، طہارت و پاکیزگی، اسلامی ذوق سادگی، اسراف سے پرہیز، قناعت پسندی، حقوق زوجیت کا پاس، چھوٹوں پر شفقت، بڑوں کا احترام، غیرہ جو کہ اسلام کے اصل خدو خال ہیں، آپ ان گنے چنے گھرانوں میں دیکھ سکتے ہیں اور یہ ان مسلمان مرد وعورت کی باہمی ہم آہنگی و خود اعتمادی کا نتیجہ ہے ۔ ڈاکٹر عبد الحئی عارفیؒ، مولانا حکیم محمد اختر ؒاور امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری ؒکے صاحبزادے اور صاحبزادی کا گھرانہ انہی میں سے ایک ہے جہاں گھر میں داخل ہوتے ہی سکینت کا احساس جسم و جان کو معطر کردیتا ہے۔

دوسرا طبقہ :وہ طبقہ جنہوں نے سمجھ لیا کہ اسلام صرف چند عبادات کا مجموعہ ہے سو انہوں نے اسے عبادت میں لاگو کیا اور معاشرتی زندگی میں اس کی خوشبو محسوس ہی نہ کی ۔ ان کی زندگی خوش رہے شیطان بھی، راضی رہے رحمان بھی کا نقشہ پیش کرتے گزر گئی۔ سیاست و چالاکی کے نام پر جھوٹ اور دوہرے معیار زندگی! عبادات بھی کرتے رہے، نماز قرآن بھی کرتے رہے اور ایک دوسرے کے حقوق بھی نوچ نوچ کر کھاتے رہے۔ کوئی مسئلہ نہیں پوری زندگی ایک دوسرے کو نیچا دکھاتے گزر گئی۔معیار محبت مادی اشیاء ٹھہریں۔

تیسرا طبقہ:یہ وہ طبقہ ہے جنہوں نے اپنے اوپر ”مسلمانی” کا لیبل بھی چسپاں رکھا مگر اپنی مرضی سے خواہشات و جذبات کی تکمیل کرنا گویا اپنے اوپر فرض کر لیا۔ نہ صرف شعائر اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں بلکہ انہوں نے اللہ اور رسول کی نافرمانی اور مقرر کی ہوئی حدیں توڑ کر نافرمانی کی انتہا کر دی۔ جیسے زندگی کے ہر شعبے میں بے دینی اور خرافات کا مظاہرہ دکھایا ویسے ہی خانگی زندگی میں شادی کے پہلے قدم سے نافرمانی کی ابتدا کی اور آخری دن تک اسی پر ڈٹے رہے۔ احسن الخالقین کے فرمان ”فی احسن تقویم” کو جھٹلا کر سو گھرانے چھان کر ایک لڑکی منتخب کی اور پھر لڑکے والوں کے ناجائز اور بے بنیاد مطالبات شروع ہو گئے۔ لاکھوں ہزاروں ڈالر کا سامان جہیز فلسفہ ازواج کی مخالفت کرتے ہوئے لڑکی رخصت ہونے سے پہلے ہی روانہ کر دیا جاتا ہے، جو لڑکا غیرت کو نیلام کرکے سینہ تان کروصول کرتا ہے۔ باجے شاجے، ڈھول پول، موسیقی اور ساز کی گونج میں نکاح ہوا۔ پھر نکاح کے وقت حق مہر سے پہلوتہی۔ کثیر مقدار کاغذوں میں لکھ دی اور موقع پر ادائیگی رقم انتہائی کم لکھی۔ رخصتی ہوئی، پردہ و حیا کا جنازہ نکلا۔ گھر پہنچے۔ آباء کی رسم و رواج نبھانے، امارت، منصب اور زندگی کو آئندہ خوشگوار رکھنے کے لیے یہ ڈیمانڈ سامنے آئی اور موجودہ حق مہر بھی معاف کرا لیا گیا۔
جیسے تیسے ولیمہ کی تقریب ہوئی، مہمانوں کو رخصت کیا۔ میاں جی نے مسکراتے ہوئے دوبارہ گھر میں قدم رنجہ فرمایا۔ سراپا ایثارو وفا سب کچھ بھلا کر ”اھلا و سہلا مرحبا”کہہ کر جواباً مسکرائی۔ شیطان تڑپ کر بے حال ہوا۔ مارے جلن کے سر پر خاک ڈال لی۔ پانی پر تخت بچھایا، بچونگڑے طلب کئے۔ ایف آئی آر کاٹی۔ آرڈر جاری ہوا اور نوٹس لیا جائے اور بغیر کسی رعایت کے سخت کارروائی عمل میں لائی جائے اور میرے دل میں ٹھنڈ ڈال دی جائے۔

گھر کے آنگن میں کھڑی ساس بھی یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ فوراً سر پرشکووں کی پٹی باندھ لی۔ کچھ تھکن اور کچھ جلن نے اپنا کام دکھایا۔ بستر پر ڈھیر ہو گئی۔ ہزاروں وسوسے اندیشے پلنے بڑھنے لگے۔ ”دیکھنا! کیسے میرے بیٹے پر قابض ہو گئی ہے۔” صبح دم شوہر جب اپنے کمرے سے نکلا تو سسرالی کابینہ زن مرید،ماں کا نافرمان، جہنمی کا اعلانیہ جاری کر چکی تھی۔ بیوی بدستور شوہر اور اس کے خاندان کی تواضع میں لگی ہوئی ہے۔ نظربد جو انسان کو کو قبر اور اونٹ کو ہانڈی تک پہنچادیتی ہے، مسلسل سازشیں، اندیشے، بدگمانی دونوں اطراف چغلی، غیبت، ناجائز مطالبات اور ہر وقت کی کھٹ کھٹ آہستہ آہستہ سرایت کر رہی ہے۔ رفتہ رفتہ نفرت و تلخی کا دھواں سلگنے لگتا ہے اور بالآخر جو فریفتہ تھا بیوی پر، آکر دھاڑنے لگا۔ بیوی کی گود میں ننھا منا بچہ یہ منظر دیکھ رہا ہے۔ اس نے یہ منظر اپنے شفاف ذہن کے کونے میں محفوظ کر لیا۔ ہم ہر جگہ تربیت اولاد کا راگ الاپتے ہیں۔ کاش تربیت والدین کے بھی مراکز اور ادارے ہوتے۔

وقت گزرتا گیا۔ اب مرد پہلے سے زیادہ آمریت کے شکنجے میں کسنے لگا اور حقوق کو پامال کرنے لگا۔ جو چراغ خانہ تھی اس کا دل شمع بننے کو للچانے لگا۔ دم دم اور لمحہ لمحہ کے ساتھی، رفاقت میں اتارچڑھاؤ، بہت سی ناگواریاں، نفس ناگواریوں کے جواب میں ناانصافیوں پر ابھارنے لگا۔ ایک بار پھر چوک سرزد ہوئی۔ ساس، نند کی غلط بیانیوں اور سازشوں نے جلتی پر تیل کا کام دکھایا۔ تھانے داری ایک بار پھر حرکت میں آئی۔ تڑاخ۔۔۔ تڑاخ۔۔۔ تڑاخ لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا بن گئی۔ بیوی کی گود میں موجود ننھے منے بچے اور ارد گرد کھڑے دوسرے بچوں نے یہ منظر اپنے شفاف ذہن کے کسی کونے میں محفوظ کر لیا۔ گستاخ، زبان دراز نہ جانے کیسے کیسے ہذیان اورمغلظات کی مستحق ٹھہری۔ گھر جہنم زار بن گیا۔ خانگی زندگی تباہ ہوگئی۔ بچے بے راہ روی کا شکار ہو گئے۔ شیطان کے دل میں ٹھنڈ پڑ گئی۔ عرش الٰہی لرز گیا۔میاں بیوی جو ایک دوسرے کے لیے منبع و سکون و راحت تھے، ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ طلاق دے دی، درمیان میں لٹکایا، کوئی پوچھنے والا نہیں، دوبارہ لا کر بسا یا، انتقامی کاروائی کی، کوئی مسئلہ نہیں، پریشانی نہیں۔ بیوی نے این جی اوز اور عدالت سے رجوع کیا۔ چند دن ذلیل و خوار ہوئے۔ دونوں پھر شتر بے مہار معاشرے کا حصہ بن گئے۔دین سے دوری تقوی و احساس سے عاری زندگی نے یہ دن دکھائے۔ ”نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم” شادی، آبادی اور بربادی تینوں کام ہو گئے۔ کاش دونوں اپنی مرضی، خواہشات کی تکمیل کرتے اور اسے انا کا مسئلہ بنا کرڈٹے رہنے سے پہلے اسے قرآن و حدیث کے آئینے میں پر رکھ لیتے۔

آج کل میاں بیوی کی یہ تکرار عام ہے میاں کہتا ہے میری مرضی بیوی کہتی ہے میری مرضی۔ نافرمانی کی ابتدا اسی مرضی سے ہوتی ہے۔ انسانی مرضی انسان کو حیوان بنا دیتی ہے۔ انسان اگر حیوان بن جائے تو بہیمیت میں حیوانیت کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے اور معلوم ہے وہ حیوانیت کیا ہے؟ روحانی تقاضوں سے غافل ہو کر جسمانی لذتوں کے پیچھے بھاگنا۔

انسان جسم و روح کا مجموعہ ہے۔ جسم فانی اور روح ازلی و سرمدی۔ ہر جسمانی لذت کے ساتھ ایک دکھ وابستہ ہے لیکن روح کی لذتیں الم سے نا آشنا ہیں۔ اس کے باوجود بھی اگر ہم اسلام کی خوشبو سے اپنے جسم و روح کو معطر نہیں کر پا رہے۔ انسانیت چھوڑ کر حیوانیت اپنا رہے ہیں، جواہرات وموتی چھوڑ کر سنگریزوں سے اپنا دامن بھر رہے ہیں۔ ہرے بھرے نخلستان کی بجائے تپتے صحراؤں کو ترجیح دے رہے ہیں تو ہم پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔