دو رُخ
بنت مولوی شبیر احمد۔ وہاڑی
پہلا رخ:
شوہر: ’’میری شرٹ استری نہیں کی تم نے؟‘‘
بیوی: ’’وقت ہی نہیں ملا… لائیں! اب کردیتی ہوں۔‘‘
شوہر: ’’وقت کیوں نہیں ملتا؟ تم لوگوں کا گھر پر سارا دن کام ہی کیا ہوتا ہے بھلا؟ بس فیس بک پر مصروف رہو، فون پر گپیں لگائو اور بس!‘‘
بیوی: ’’تو آپ کون سا ہل چلا کر آتے ہیں یا پھر مزدوری کرکے آرہے ہیں؟ صبح گئے آفس میں دن بھر گپیں، چائے کافی، اس طرح بیٹھے رہے اور شام کو اٹھ کر آرہے ہیں گھر! کام تو سارا ہم کرتے ہیں۔ گھر سنبھالو، بچے سنبھالو، دن کا پتا چلتا ہے نہ رات کا…‘‘
دوسرا رُخ:
شوہر: ’’میری شرٹ استری نہیں کی تم نے؟‘‘
بیوی: ’’وقت ہی نہیں ملا، لائیں! اب کردیتی ہوں۔‘‘
شوہر: ’’آرام کرلو اب، تم ویسے بھی گھر سنبھالتی ہو، بچوں کے سب کام، انہیں پڑھانا اور ہوم ورک کروانا، گھر والوں کا خیال رکھنا… یقیناً تھک جاتی ہو۔ میں خود استری کرلیتا ہوں۔ یہ کون سا مشکل کام ہے ابھی کرلیتا ہوں۔‘‘
بیوی: ’’آپ بھی تو صبح سے کام پر جاتے ہیں، ہمارے لیے تھکتے ہیں آپ کے کپڑے پرانے ہوگئے، شرٹس کا رنگ خراب ہوگیا ہے لیکن سب کچھ ہم پر خرچ کردیتے ہیں، اپنے کپڑوں کی تو کیا اپنی بھی پروا نہیں کرتے، تپتی دھوپ ہو یا برستی بارش، صبح کے گئے شام کو واپس آتے ہیں… رہنے دیں، میں ابھی استری کردیتی ہوں۔‘‘
غور کیجیے… بس چھوٹا سا فرق ہے!
پہلے انداز میں صرف اپنے حقوق کی بات کی گئی ہے جبکہ دوسری طرف اپنے علاوہ دوسرے کا خیال بھی۔
تھوڑا سا احساس، چند میٹھے بول ہماری زندگی کو کتنا آسان کردیتا ہے۔ ہمیں اپنے رشتوں اور تعلقات میں تحمل، برداشت، احساس کو اہمیت دیتے ہوئے برتائو کرنا ہوگا تبھی زندگی سہل ہوپائے گی۔
پچھتر الفاظ کی کہانی
اذیت
ساجدہ بتول
سالن جل رہا ہے۔۔۔ پانی ڈالو!
خیر ہے ۔ جتنا بھی جلے سوڈے سے سب صاف ہوجاتا ہے۔
پاگل تو نہیں ہوگئی!! ابھی جو پریشانی ہوگی وہ کون اٹھائے گا؟؟
پھر تو تم بھی پاگل ہو!!
میں نے کہا نماز پڑھو تو تم نے انکار کردیا اور کہا اللہ بخشنے والا ہے۔
بعد میں تو واقعی سب دھل جائے گا لیکن ابھی جو اذیت ہوگی وہ کیسے اٹھائو گی۔۔۔!!؟؟