Photo : FreePik
انیسہ عائش۔ کوٹ رادھا کشن
آج صبح کامنظر ان کے تصور میں ابھرا تو انہیں نئے سرے سے تاسف نے گھیر لیا۔ اب وہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور ہوگئیں۔ بالآخر انہوں نے زریاب سے بات کرنے کی ٹھانی اور پرسکون ہوگئیں۔
٭
زریاب نے کان کے پاس بجتے الارم کو کوفت سے ہاتھ بڑھاکر بند کیا اور دوبارہ نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔ کافی دیر بعد اس نے بمشکل مندی مندی آنکھوں سے گھڑی پر نگاہ ڈالی تو اس کی آنکھیں پوری طرح کھل گئیں۔ وہ چھپاک سے اٹھی۔ بالوں کا جوڑا بنایا۔ منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور کچن میں آگئی۔ جلدی سے فریج کھولا، آٹا نکالا۔ تیزی سے کمرے میں سوئے رمیز، دعا اور رجا کو آوازیں لگاتی ہوئی اندر آئی پھر انہیں جھنجھوڑ کر اٹھایا۔ ناشتہ تیار کرنے اور لنچ باکس پیک کرتے ہوئے اس کا ایک پائوں بچوں کے کمرے میں تو دوسرا پائوں کچن میں تھا۔ دو تین بار کے اٹھانے سے دعا اور رجا تو نیند میں جھولتی اٹھ گئیں مگر رمیز ابھی بھی نیند میں دھت تھا، زریاب کو غصہ چڑھ آیا۔ اس نے رمیز کے سر پر زور دار چپت رسید کی۔ بچوں کو کھینچ کھانچ کر منہ بسورتے ہوئے ناشتہ کرایا۔ یہ کس قدر مشکل مرحلہ ہوتا تھا ، صرف زریاب ہی جانتی تھی۔ بچوں کی سستی، وین والے کے جلد پہنچنے کی اطلاع اس کا سر چکرادیتی۔ بیگم صبیحہ ایک ہفتے سے روزانہ یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔ اس ساری ہڑبونگ سے صبح ہی صبح اچھی خاصی بدمزگی پھیل جاتی۔ بچے ماں کی ڈانٹ پھٹکار سنتے، رمیز تو اکثر مار کھاتے ناراض ہوکر گھر سے روانہ ہوتا۔ زریاب بچوں کو بھیجنے کے بعد کچھ لمحے بیٹھ کر سکون کا سانس لیتی۔ صبیحہ بیگم کے ساتھ ناشتہ کرتی پھر سارے گھر کو سمیٹنے، صفائی کرنے میں دس بج جاتے۔ اگلے دو تین گھنٹے سوکر وہ تازہ دم ہوتی پھر دوپہر کا کھانا بناتی اور بچوں کے استقبال کیلئے تیار ہوجاتی۔ اپنی صبح والی بدسلوکی یاد آتی تو باری باری بچوں کو پیار کرتی۔ ان کی پسندیدہ چیزیں بناتی۔ مداوا کرنے کی کوشش کرتی اور کبھی اس میں کامیاب بھی ہوجاتی۔
صبیحہ بیگم زریاب کی والدہ تھیں۔ زریاب کے شوہر کو کام کے سلسلے میں کچھ دنوں کے لیے اسلام آباد جانا پڑا تو وہ بچوں کی نانی کو لے آئے تاکہ وہ اکیلے نہ رہ سکیں۔ صبیحہ بیگم کی آمد نے زریاب کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی خوش کردیا۔ زریاب ویسے تو بہت سمجھ دار اور سگھڑ، سلیقہ شعار بیٹی تھی مگر اب اس کے معمولات بہت زیادہ بگڑ چکے تھے۔ زریاب رات دیر تک موبائل چلاتی یا اپنے پسندیدہ ناول اور کتابیں پڑھتی۔ بچے بھی سونے کا نام نہ لیتے تھے۔ وہ جیسے ہی انہیں سلا کر لائٹ آف کرکے کمرے سے باہر قدم رکھتی، سونے کی اداکاری کرتے تینوں بچے اٹھ کھڑے ہوتے۔ یہی وجہ تھی کہ صبح جلدی اٹھنا زریاب اور بچوں کیلئے بہت مشکل ثابت ہوتا۔ زریاب کی نماز فجر نکل جاتی اور اکثر آخری وقت ادا کرپاتی۔ صبیحہ بیگم نے چند روز اس معمول کو خاموشی سے دیکھا۔ آج وہ زریاب سے اس کے متعلق بات کرنا چاہ رہی تھیں کہ چائے کا کپ اٹھائے زریاب خود ہی ان کے پاس چلی آئی۔
’’امی! سچ میں میں تو بہت تنگ آگئی ہوں جتنی مشکل سے میں ان بچوں کو اسکول روانہ کرتی ہوں، یہ میں ہی جانتی ہوں۔ وہ تو عام روٹین میں بھی 9 بجے تک مزے سے سورہے ہوتے ہیں اور مجھے ہر صبح یہ مصیبت جھیلنی پڑتی ہے۔‘‘
’’بیٹا یہ مصیبت مجھے تو خود پیداکردہ نظر آتی ہے!!‘‘
صبیحہ بیگم نے نرم اور دھیمی آواز میں کہا تو اس نے چونک کر ان کی جانب دیکھا۔
’’کیا مطلب امی جان!؟‘‘
’’بیٹا اس وقت کو یاد کرو۔ میں بھی تو تمہیں صبح صبح اٹھاتی تھی اور تم لوگ قرآن مجید پڑھنے جایا کرتے تھے۔‘‘
’’امی ہم تو ایک آواز پر اچھے بچوں کی طرح اٹھ جایا کرتے تھے۔ ‘‘
’’بیٹا یاد کرو! میں عشاء کی نماز کے فوراً بعد تم لوگوں کو سلادیتی تھی بلکہ میرا خود بھی یہی معمول تھا۔صبح جب 7 گھنٹے کے نیند پوری ہوچکی ہوتی تھی تو تم لوگ بآسانی فریش اٹھ جایا کرتے تھے۔ تمہیں یاد ہے تمہاری بہن رفدا نیند کی کتنی پکی تھی۔ تم لوگوں نے اس کا نام ہی نیندو رکھ چھوڑا تھا۔‘‘
’’ہاں جی امی!!! لیکن حیرت ہے آپ اس کو کیسے اٹھاتی تھیں۔ نہ ہڑبونگ، نہ افراتفری اور نہ ہی ایسی بدمزگی!! آپ کے دور میں ہم کبھی خراب موڈ کے ساتھ اسکول نہیں گئے۔ کتنی پرسکون صبحیں ہوا کرتی تھیں ان دنوں!!‘‘
بیتے دنوں کی یاد نے اس کے چہرے پر روشنی پھیلادی۔
’’بیٹا تم چاہو تو وہ پرسکون صبحیں پھر سے لوٹ کر آسکتی ہیں۔‘‘
’’امی مجھے کیا کرنا پڑے گا؟‘‘ اس نے معصومیت سے پوچھا تو انہیں اس پر بے اختیار پیار آگیا۔
’’سب سے اہم بیٹا تمہیں اور تمہارے بچوں کو جلد سونے کا عادی بننا ہوگا۔ ‘‘
اس نے کچھ بولنے کیلئے لب وا کیے مگر صبیحہ بیگم کو بولتا دیکھ کر خاموش ہوگئی۔
’’رہی بات تمہارے شوق کی تو تم جو دن میں دو تین گھنٹے سوتی ہو اس وقت موبائل چلالیا کرو۔ دوسرا یہ کہ بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر چیخ چیخ کر اور تھپڑ مار کر جگانا بہت غلط ہے۔ نرمی ، پیار اور ان کی پسندیدہ چیزوں کی ترغیب کا راستہ اپنائو۔ پہلے پہل مشکل ہوگی مگر اس کے آگے جیسا میرے رب کا وعدہ ہے ہر مشکل کے بعد آسانی ہے!‘‘
٭
اگلی صبح منظر کچھ بدلا بدلا سا تھا۔ اس کی آنکھ موبائل کے بجتے الارم اور فجر کی اذانوں سے کھلی۔ اس نے کافی عرصہ بعد نماز خشوع و خضوع سے ادا کی۔ وہ بچوں کے کمرے میں آئی۔
’’رمیز بیٹا اٹھو!اگر جلدی اٹھو گے تو تمہاری پسند کے چکن رول بناکر دوں گی لنچ کے لیے!‘‘
اس نے رمیز کے سر میں نرمی سے ہاتھ پھیرتے لالچ دیا۔ رمیز سستی اور کسلمندی سے آنکھیں کھولتا غیر معمولی طور پر اٹھ کھڑا ہوا۔ سب سے چھوٹی دعا تو رات کو ہی نانی اماں سے جلد اٹھنے کا وعدہ کرکے سوئی تھی سو وہ فوراً جاگ گئی۔ رجا نے ذرا سا سر اٹھا کر ایک نگاہ ماں پر ڈالی اور پھر سر تکیے میں دے دیا۔ زریاب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ وہ اپنی رجا کی کمزوری سے واقف تھی۔ اس کے کان کے قریب گنگناتے ہوئے بولی:
’’اٹھو بیٹا آنکھیں کھولو
بستر چھوڑو منہ ہاتھ دھولو
اتنا سونا ٹھیک نہیں ہے
وقت کا کھونا ٹھیک نہیں ہے
سورج نکلا تارے بھاگے
دنیا والے سارے جاگے‘‘
رجا کے وجود میں ہلچل ہوئی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ منہ ہاتھ دھونے واش روم کا رخ کررہی تھی۔
٭
لان کی نرم گیلی گیلی گھاس پر چہل قدمی کرتے آسود سی ہوا کو اندر اتارتے، شبنم کے موتی کی مانند چمکتے قطرے، پرندوں کی بولیوں کی آوازیں سنتے بے اختیار اس کا دل خدا کی بڑائی بیان کرنے کو بے تاب ہوا۔ سبحان تیری قدرت! پانچ سات منٹ واکنگ کے بعد وہ کچن میں چلی آئی۔ آج پرسکون ماحول میں ناشتہ کیا گیا، اسکول کی تیاری کی اور بچے روانہ ہوگئے۔
واقعی امی نے سچ کہا تھا کہ ذرا سی محنت و مشقت سے وہی ماضی کی پرسکون صبحیں لوٹ آئی تھیں۔ وہ ناشتہ اٹھاکر امی کے پاس چلی آئی کہ ان کا شکریہ بھی تو ادا کرنا تھا۔