عشرت جہاں
سعود اسے لینے آئے تھے لیکن بات نہ بنی اور وہ جزبز ہوکر اٹھ کر چلے گئے۔
’’یوں ہی بھیج دیں اپنی بچی کو…!!؟ بہت ہلکا سمجھ رکھا ہے ہمیں۔ یا تو ہماری بات مان لیں یا پھر…‘‘ رفیعہ بیگم نے ان کے جانے کے بعد لب کشائی کی۔
’’بس بہت ہوچکا۔ ہماری بہن ہم پر بھاری نہیں ہے۔ اماں آپ نے بھی دوٹوک کیوں نہ کہہ دیا ہم نہیں بھیجنے والے مائرہ کو۔‘‘
مائرہ ہونٹ کاٹے جارہی تھی۔ اس کا دل دھک دھک کررہا تھا۔ سعود نے بھی تو ذرا لحاظ نہ کیا۔ صاف کہہ کر چلے گئے میں کسی کی شرطیں نہیں مانوں گا، میرا نہ سہی، بچوں کا تو سوچتے…! وہ من کی موجوں میں گم تھی۔
’’غضب خدا کا! بچوں کا بھی نہ سوچا۔‘‘ بڑی آپا بولیں۔’’ دیکھیں تو سہی کیسے ٹکا سا جواب دے دیا۔ لو بھلا یہ بچے ان کی اولاد نہیں ہیں کیا!!!!‘‘
’’ابھی ہم زندہ ہیں، بچے بھی پل جائیں گے۔‘‘ عارف بھائی نے بچوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ چھوٹا دانیال باپ کے چلے جانے پر زاروں زار روئے جارہا تھا اور بلال سہما ہوا سا کھڑا تھا۔
’’ارے بچوں کو تو سنبھالو۔ دیکھو کیسے ہلکان ہورہے ہیں! ‘‘رفیعہ بیگم اونچی آواز سے بولیں۔ روبی بھابھی بچوں کو پیار کرتی کرتی پچھلے صحن میں لے آئیں۔
’’اب کیا ہوگا؟ یہ نند صاحبہ بھی سر پر چڑھ کر بیٹھیں گی! ‘‘روبی نے روما بھابھی کے کان میں سرگوشی کی۔
’’اور وہ بھی بچوں سمیت…!!!!‘‘ روما نے لقمہ دیا اور بچوں کی طرف دیکھنے لگیں۔
٭
کمرے میں صرف زیتون بوا تھیں جو خاموش بیٹھی تھیں۔انہوں نے مائرہ کی طرف دیکھا جو سعود کی بے نیازی پر دھواں دھواں چہرہ لیے سب کو تکے جارہی تھی۔ اس کی دل بستگی کیلئے اماں ابا بھائی بہنوں کے تبصرے اس کے ڈوبتے ابھرتے وجود کو سہارا دے رہے تھے لیکن دماغ بدستور سائیں سائیں کیے جارہا تھا۔ مستقبل کے خدشات اور شوہر کی بے رخی پر اس کا دل رو رہا تھا۔
کیا تھا… اگر رکھ لیتے ذرا سا مان!!!؟؟
اتنی جلدی میرا گھر برباد ہوجائے گا، کبھی ایسا سوچا نہ تھا۔
وہ سہم کر رہ گئی۔
لیکن وہ میرا گھر کہاں…؟؟ وہ تو نمرہ، فوزیہ، ثمرہ بھابھی اور ہر دم رہنے والی نندوں کا ہے… اس کے باغی دل نے کہا۔
بچوں کا کیا ہوگا؟؟ دوسری سوچ ابھری۔
ابا، عارف بھائی، غضنفر بھائی ہیں ناں…!آپا ، سعدیہ، رافعہ سب کتنا چاہتے ہیں بلال اور دانیال کو… لیکن باپ…!!!!
بچے رافعہ اور سعدیہ کے پاس تھے۔ وہ سوچ کے گنبد میں مقید گم صم تھی۔ گزرے دنوں کی پشیمانیاں گزرت وقت کی بے کلی اور آنے والے دنوں کی بے چینیاں ہولائے دے رہی تھیں۔
اب کیا ہوگا؟ کا لازوال سوال سامنے کھڑا تھا۔ کاش کہ تقدیر کی کتاب کا آخری صفحہ ہمارے سامنے کھلا ہو اور اس کے مطابق ہم اپنی زندگی کے فیصلے کرنے والے بن جائیں۔ اگر ایسا ہوبھی جائے تو شاید ہم کوئی غلط فیصلہ ہی نہ کریں یا پھر سارے ہی فیصلے غلط ہوجائیں۔
بے لگام سوچوں کے پیچھے دوڑتے وہ ہانپ گئی۔ مسئلہ جوں کا توں تھا۔ عشاء کی نماز پڑھ کر بوا اس کے پاس چلی آئیں۔ اسے اس کیفیت میں بیٹھا دیکھ کر انہوں نے گلا کھنکارا اور گویا ہوئیں۔
’’جب انسان کسی فیصلے پر نہ پہنچ پائے تو اسے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دینا چاہیے بیٹی!‘‘
’’بوا سمجھ نہیں آرہا کیا کروں؟ میں، بچے، سعود، ان کی بے رخی، دوسری طرف امی، ابو، بھائی، بھابھیاں، بہنیں اور ان کے دلاسے…!‘‘
’’کچے گھڑے کبھی دریا پار نہیں کرواتے بیٹی، منزل تک کہاں پہنچائیں گے؟‘‘
مائرہ اچانک سر اٹھاکر انہیں دیکھنے لگی۔ اس دم اس پر افشا ہوا اس کی اور بوا کی کہانی تو اس نکتے پر آکر مل چکی ہے۔ شاید اس کی تقدیر کا آخری صفحہ اس کے سامنے کھل گیا تھا۔
’’میاں بیوی کے رشتے کے درمیان کبھی انا کو مت لے کر آنا بیٹی! اب تمہاری تقدیر تمہارے اختیار میں ہے۔ ‘‘
اس کا ہاتھ سہلائے وہ مزید بولنے لگیں۔
’’میں نے بھی تو کچے گھڑوں پر انحصار کیا تھا۔ سوچتی ہوں کاش میرے پاس ایک ایسی ٹائم مشین ہوتی جس میں بیٹھ کر ان لمحوں کو زندگی کی کتاب سے مٹادیتی جنہوں نے صرف پچھتاوے دیے ہیں۔ ‘‘بوا بول نہیں رہی تھیں، دل کے پھپھولے پھوڑ رہی تھیں اور مائرہ حیرت سے انہیں تکے جارہی تھی۔
’’جیسا بھی تھا، اس وقت شوہر کی چاکری قبول کرلیتی تو آج در در کی چاکری سے بچ جاتی۔ اپنے گھر کی ملکہ کہلاتی۔‘‘
پہلی مرتبہ مائرہ کو بوا جی پر بڑا ترس آیا، ہمدردی محسوس ہوئی ورنہ اس سے پہلے تو بوا جی کا وجود غیر مرئی سا تھا۔ وہ بوا ہی تو تھیں جنہیں فالتو پرزہ سمجھ کر ہر اہم معاملے سے نکال دیا جاتا تھا۔ کاموں کا بوجھ ان کے سر پر لاد دیا جاتا۔ وہ کبھی فاخرہ کے گھر ہوتیں تو کبھی سائرہ کے گھر۔ کبھی خاندان کی کسی خوشی کے موقع پر سردی گرمی سے بے نیاز کام میں جُتی ہوتیں اور کبھی غم کے لمحات میں بہنوں کی دیکھ بھال میں مصروف۔ جی چاہے نہ چاہے چار کپڑوں کی پوٹلی اٹھائے کبھی آمنہ خالہ کے ہاں قیام تو کبھی ذکیہ بھابھی کا بلاوا۔ ان کی خواہشات نے تو گویا عجز کا کفن اوڑھ لیا تھا۔ اپنی اولاد دور تھی مارے باندھوں مہینوں بعد خیر خیریت پوچھ لیتے۔ کچھ پیسے بھیج کر بری الذمہ ہوجاتے۔ بوا انہیں کہاں رکھتیں۔ خود ان کا ٹھکانہ اماں ابا کا گھر تھا۔ ان کے بعد بھائی بھتیجے
بھتیجیوں کا جنہوں نے ترس کھاکر انہیں رکھ چھوڑا تھا۔
’’نہیں نہیں…!‘‘
مائرہ نے جھرجھری لی۔
’’مجھے بوا نہیں ملکہ بننا ہے… اپنے گھر کی ملکہ…!!!‘‘
اس نے بوا کی گود میں سر رکھ لیا۔