مفتی محمد ابراہیم صادق آبادی
نماز وتر:
سوال: میں نماز وتر تہجد کے بعد پڑھتی ہوں، لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آنکھ دیر سے کھلتی ہے اور وقت ختم ہورہا ہوتا ہے تو وضو کرکے جلدی سے وتر شروع کردیتی ہوں، پھر اس میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ کبھی سلام پھیرنے سے پہلے فجر کی اذانیں شروع ہوجاتی ہیں۔ اس نماز کا کیا حکم ہے؟ ہوگئی یا دہرانی پڑے گی؟ اور ایسے موقع پر نیت ادا کی کی جائے یا قضاء کی؟ (لبنیٰ ۔ کراچی)
جواب: اگر تہجد میں اٹھنے کی مستقل عادت ہے اور شاذ و نادر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آنکھ نہیں کھلتی تو اپنا معمول جاری رکھیں اور وتر تہجد کے بعد پڑھیں۔ کبھی آنکھ نہ کھلے اور وقت نکل جائے تو قضاء پڑھ لیں دیر سے آنکھ کھلے اور وقت تنگ ہوتو وتر پڑھیں، تہجد چھوڑدیں، لیکن اذان کی آواز سنتے ہی یہ نہ سمجھ لیں کہ وقت ختم ہوگیا اس لیے کہ بہت سے مؤذن وقت سے پہلے اذان دیدیتے ہیں۔ بہتر ہے کہ کسی ماہر فن کا مرتب نقشۂ اوقات سامنے رکھیں، اگر مستقل اٹھنے کی عادت نہیں تو وتر رات کو سونے سے پہلے پڑھ لیں۔ پھر جب آنکھ کھل جائے تو تہجد پڑھ لیں۔ جب وقت باقی ہو (خواہ اذانیں شروع ہوچکی ہوں) تو وتر شروع کرتے ہوئے اداء کی نیت کریں۔ وقت ختم ہوچکا ہو تو قضاء کی نیت کریں اور شک ہو تو یوں نیت کریں کہ آج کے وتر پڑھتی ہوں۔ جو نمازیں پڑھ چکیں وہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔
بدعت کی تردید:
سوال: (۱)بدعت کے حق میں مندرجہ ذیل دلائل پیش کیے جاتے ہیں ان کی حقیقت واضح کیجیے۔
(الف)حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح باجماعت شروع کرائی جب کہ آپ سے پہلے عہد نبوت میں ایسا نہیں تھا۔(ب) مشہور حدیث کہ جس نے کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا اسے اجر ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی اجر ملے گا اور جس نے کوئی براطریقہ ایجاد کیا اس پر وبال ہوگا اور اس پر عمل کرنے والوں کا وبال بھی اس پر ہوگا۔(ج)صحیح مسلم کتاب العلم باب ۶ میں امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ نے بدعت کی تقسیم کی ہے، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ مروجہ تیجہ ساتواں بیسواں چالیسواں وغیرہ کو بدعت حسنہ سمجھ کر کیا جائے تو کیا مضائقہ ہے؟
(۲) کسی بزرگ کے ایصال ثواب کے لیے جو کھانا پکا یا جا تا ہے۔ (جیسے گیارہویں شریف) بعض لوگ اسے حرام کہہ دیتے ہیں۔ حالاں کہ کسی موقع پر بھی اس میں غیر اللہ کا نام نہیں لیا جاتا۔ مقصد صرف ایصال ثواب ہو تا ہے۔ اس کھانے کا کیا حکم ہے؟(ایضاً)
جواب: تراویح با جماعت تو خود عہد نبوت میں بھی پڑھی گئی، لیکن اس پر دوام اس لیے نہیں اختیار کیا گیا کہ کہیں امت پر فرض نہ ہوجائے۔ چنانچہ یہ علت خود حدیث میں مذکور ہے۔ سلسلۂ وحی منقطع ہونے کے بعد جب یہ فرضیت کا خدشہ دور ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی عمل نبوت کو زندہ کرتے ہوئے دوبارہ تراویح باجماعت کا حکم صادر فرمایا جس کی تمام صحابہ کرام نے تعمیل کی اور اس پر صحابہ کا اجماع ہوگیا اس میںکونسی نئی بات پائی گئی جسے جواز بدعت کی دلیل تسلیم کیا جائے؟ پھر صحابہ کرام اور بالخصوص خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کا قول و عمل مستقل حجت ہے لما قال صلی اللہ علیہ وسلم علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھتدین اگر بالفرض تراویح با جماعت کا وجود عہد نبوت میں نہ ہوتا تب بھی صحابہ کا عمل ہمارے لیے حجت تھا۔ صحابہ کے عمل کو بدعت کی دلیل بنانا سینہ زوری ہے۔
(ب) اچھے طریقے سے مراد خود ساختہ طریقہ (بدعت) نہیں بلکہ سنت ہے۔ چنانچہ اسی حدیث کے دوسرے طرق میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں۔ ایما داعٍ دعا الی ھدیً [مسلم ۲/۳۴۱ وغیرہ] من احیا سنۃ من سنتی قدا میتت بعدی [ترمذی ۲/۹۲، ابن ماجہ ۱۹]
من احیا سنۃ من سنتی فعمل بھا الناس [ابن ماجہ ۱۹] ان الفاظ کی روشنی میں حدیث کا مطلب واضح ہے کہ جس نے ھدایت و بھلائی کی طرف دعوت دی۔ یا مردہ سنت کو زندہ کیا تو اس پر چلنے والے تمام لوگوں کی بقدر اسے ثوب ملے گا۔ غرض حدیث میں سنت کو زندہ کرنے اور اس کی ترویج و اشاعت کی ترغیب ہے نہ کہ نئی سنت اور نیا طریقہ ایجاد کرنے کی اجازت ورنہ سوچنے کا مقام ہے کہ ایک حدیث میں جس چیز کو ضلالت اور گمراہی سے تعبیر کیا جارہا ہے دوسری حدیث میں اس کی اجازت کیسے ہوگی؟ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راہ سنت ص۱۱۳۔
ج:شرعی بدعت یعنی وہ جس کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو خیر القرون میں اس کا وجود ہو اور اسے دین سمجھ کرکیا جائے وہ تو ہے ہی بدعت سیئہ، اس میں حسنہ سیئہ کی تقسیم کے کیا معنی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کل بدعۃ ضلالۃ کہ ہر بدعت ضلالت و گمراہی ہے، اس قسم کی ہر بدعت بدعت سیئہ ہے۔ باقی بدعت حسنہ سے مراد لغوی بدعت ہے۔ یعنی اس قسم کا دینی کام جس کا عہد نبوت یا خیر القرون میں کوئی محرک داعی نہ تھا بعد میں پیش آیا اور وہ کام کسی نے شروع کیا تو مذموم نہیں۔امام مسلم اور دیگر ائمہ دین کی کتابوں میں جہاں کہیں بدعت حسنہ کا ذکر آتا ہے اس سے مراد یہی لغوی بدعت ہے ورنہ شرعی بدعت تو حدیث کی رو سے مردود ہے، حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: چیزے کہ مردود باشد حسن از کجا پیدا کند؟ [مکتوبات حصہ سوم ص۷۲]
تیجہ ساتواں وغیرہ جن کا خیر القرون میں کہیں کوئی وجود نہ تھا، بدعت سیئہ ہیں۔
(۲) صدقۂ خیرات اور ایصال ثواب کا مسئلہ تو برحق ہے، کوئی مسلمان اس کا منکر نہیں لیکن کسی بزرگ اور مقتدا شخصیت کے لیے اگر ایصال ثواب سے مقصد اس کی رضا و خوشنودی ہو، مثلاً یہ عقیدہ رکھے کہ ایصال ثواب کیا جائے کہ ان کی روح خوش ہو کر ہماری حاجت روائی اور مشکل کشائی کرے گی تو یہ شرکیہ عقیدہ ہے اور اس مقصد کے لیے تیار کیا گیا کھانا بھی قطعی حرام ہے خواہ جانور ذبح کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا نام ہی لیا جائے۔ اگر اس قسم کا عقیدہ نہیں اور مقصد صرف ایصال ثواب ہے تو کھانا حرام نہیں، لیکن مخصوص تاریخوں کی تعیین اور ان کا الزام بدعت ہے، اس لیے بھی ایسے کھانے سے احتراز لازم ہے۔