عالمی سطح پر ہندو انتہا پسندی کے فروغ نے بھارت کے نام نہاد سیکولر تشخص کو بے نقاب کر دیا۔ مودی حکومت کی سرپرستی میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آر ایس ایس)دنیا بھر میں ہندوتوا نظریے کے فروغ اور اقلیتوں کے حقوق کو پامال کرنے میں مصروف ہے۔امریکی جریدے پریزم کی تازہ تحقیقات کے مطابق آر ایس ایس نے امریکی کانگریس پر اثرانداز ہونے کیلئے ایک امریکی لا فرم کے ذریعے خفیہ لابنگ شرع کر رکھی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آر ایس ایس امریکا میں خطیر رقم خرچ کر چکی ہے جب کہ یہ سرگرمیاں امریکی فارن ایجنٹس رجسٹریشن ایکٹ کے قوانین کے منافی ہیں۔
بھارت دنیا کے سامنے دو باتوں پر بہت فخر کرتا ہے اور ان ہی کو اپنا چہرہ اور شناخت بنا کر پیش کرتا ہے، وہ دو باتیں اس کا سیکولر آئین اور اس کا جمہوری نظام ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے سیکولرازم اور جمہوریت بھارت کی روح ہوں اور بھارت واقعی دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریہ ہو۔ زبانی جمع خرچ، کاغذی کارروائی اور لفظوں کی حد تک شاید ہی کوئی بھارت کی ان ”صفات” سے اختلاف کرے لیکن لفظوں سے اوپر اٹھ کر اگر حقیقی بھارت کا جائزہ لیا جائے تو تصویر اس سے یکسر مختلف بلکہ لرزا دینے والی نظر آتی ہے۔ بھارت کی اس ”دستاویزی شناخت” سے ہٹ کر دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ بھارت کا اندرون چنگیز سے بھی تاریک تر ہے۔ آئین میں درج سیکولر اور جمہوری اصول صرف کتابی خیالی باتیں ہیں، عملاً بھارت کی سرزمین پر ان کا کوئی وجود نہیں۔ اس خیالی و کتابی شناخت کے بر عکس حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے پورے نظام، اس نظام کو چلانے والے ہرکاروں، سیاست دانوں، بیوروکریسی حتیٰ کہ عدلیہ تک کہیں بھی سیکولر اور جمہوری مزاج دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے برعکس پورے نظام پر صرف ایک فلسفہ غالب ہے اور وہ ہے ہندوتوا۔ یعنی کٹر، متعصب اور فاشسٹ ہندو قوم پرستی۔ یہ تنگ نظری اور مذہبی برتری کا خبط آج بھارتی سیاست کے ہر ستون میں سرایت کر چکی ہے بلکہ بھارتی ریاست کی جڑوں میں بیٹھ چکی ہے۔ جمہوریت اور سیکولر ازم کے بلند بانگ دعوؤں کے درمیان جمہوریت کی نیلم پری کے لباس میں جس دیوِ استبداد کی بھارت میں حکومت ہے، اس کا نام صرف رام راج ہے۔
یہ بھی بہرحال ایک حقیقت ہے کہ بھارت کی یہ نئی ہندوتوائی شناخت ہمیشہ سے نہ تھی۔ تقسیم کے بعد اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ظلم و زیادتی ضرور موجود تھی مگر پھر بھی کسی نہ کسی درجے میں سیکولر ازم اور جمہوری قدروں کا چلن تھا مگر جب سے آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بی جے پی نے طاقت حاصل کی ہے، خاص طور پر جب نریندر مودی جیسا ہندو نسل پرست شخص مسلسل برسراقتدار آیا، بھارت کی سیکولر اور جمہوری شناخت عملی طور پر تبدیل ہوگئی۔ اب تو یہ حال ہے کہ بھارتی ریاست خود کو زبانی کلامی بھی سیکولر کہنے کی زحمت نہیں کرتی بلکہ کھلے عام ہندو راشٹر ہونے پر فخر کرتی ہے۔ مودی سرکار کے آٹھ سے دس سالہ دورِ حکومت میں مسلمانوں کیلئے زندگی ناقابلِ برداشت بنا دی گئی ہے۔ شہریت ترمیمی قانون سی اے اے، این آر سی، مندروں کی سیاست، مسلم علاقوں کا گھیراو، اذان و باجماعت نمازوں پر پابندیاں، حجاب تنازع، لِنچنگ، گاو رکھشا کے نام پر مسلمانوں کا ہجومی قتل اور ظلم کے نہ رکنے والے سلسلے نے بھارت کو اقلیتوں کیلئے ایک وسیع و عریض اوپن ایئر قید خانہ بنا دیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آر ایس ایس مسلمانوں سے ایک ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ چن چن کر لے رہی ہے۔ ہر نیا قانون، ہر نیا ضابطہ اور ہر نئی انتظامی پالیسی کا نشانہ مسلمان بنتے ہیں۔ بھارت کی سرکار کسی ریاست کی طرح نہیں بلکہ ایک منظم انتہا پسند گروہ کی طرح چلائی جا رہی ہے، جو اپنے نفرت بھرے بیانیے کو بڑھانے کیلئے پوری ریاستی مشینری استعمال کر رہی ہے۔ یہ صورت حال جہاں بھارت کے سیکولر اور جمہوری چہرے کیلئے زہرِ قاتل ہے وہاں پورے خطے کیلئے بھی شدید خطرہ بن چکی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ظلم صرف بھارت تک محدود نہیں رہیں گے۔ پاکستان اور بنگلادیش مسلم اکثریتی ممالک ہیں جو بھارت کے پڑوس میں واقع ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم براہ راست ان ممالک کے جذبات، امن اور خطے کے توازن کو متاثر کریں گے۔
اقلیتوں کی بد حالی بھارت کا داخلی مسئلہ نہیں، جیسا کہ مودی حکومت او آئی سی سمیت کسی بھی عالمی فورم کی جانب سے اس حوالے سے اٹھائے گئے سوال پر اس معاملے کو داخلی قرار دے کر غیر مسموع بنا دیتی ہے۔ مودی سرکار کی ان امتیازی پالیسیوں سے بدامنی بڑھے گی، سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوگا اور خطے میں ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ بھارت کی روایتی دشمنی بھی اسی تناظر میں شدت اختیار کر رہی ہے، کیونکہ بی جے پی پاکستان کو ایک اسلامی ملک کے طور پر ہی ٹریٹ کر رہی ہے۔ یہ ایک منطقی بات ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور مظالم بڑھیں گے تو اس کے اثرات پاکستان اور بنگلادیش تک بھی پہنچیں گے۔ پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی بڑھے گی، خطے میں عسکری توازن بگڑے گا اور اسلحے کی دوڑ مزید تیز ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی داخلی پالیسی نہ صرف اس کے پڑوسیوں بلکہ عالمی امن کیلئے بھی خطرہ بنتی جا رہی ہے۔
بھارت اپنے ان جرائم کے اثرات خود بھی محسوس کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا میں اپنی بدنامی چھپانے کیلئے امریکی لابنگ فرموں پر بھاری سرمایہ خرچ کر رہا ہے۔ پریزم کی زیر بحث رپورٹ نے ثابت کر دیا ہے کہ بھارت اپنے سیاہ کارناموں پر پردہ ڈالنے کیلئے قانون شکن ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے لیکن اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی۔ سچ زیادہ دیر چھپا نہیں رہتا۔ ہندوتوا کی لہر نے بھارت کے حقیقی چہرے سے نقاب اتار دیا ہے۔ بھارت کے پاس اب بھی راستہ موجود ہے۔ اسے چاہیے کہ وسعتِ قلبی کی پالیسی اپنائے، اقلیتوں کو وہ حقوق دے جو اس کے اپنے آئین میں درج ہیں، سیکولر ازم اور جمہوریت کو ہی اپنی شناخت بنائے اور انصاف، مساوات اور انسانی وقار کواصول بنائے۔ اگر بھارت اس راستے پر چلتا ہے تو خطے میں امن و استحکام آئے گا۔ جنوبی ایشیا کے افق سے خوف و دہشت کے بادل چھٹ جائیں گے، اسلحے کی دوڑ کی بجائے ترقی اور خوشحالی کی دوڑ شروع ہوگی اور کروڑوں انسانوں کا مستقبل بدل جائے گا۔ انسانیت کی بھلائی، خطے کے امن اور بھارت کے اپنے مستقبل کے لئے بھی یہی واحد راستہ ہے۔

