مئی 2016میں بلوچستان کے شہر نوشکی میں امریکی ڈرون حملے میں افغان راہنما ملا اختر منصور کی وفات نے طالبان کے وجود اور ان کے مستقبل پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے تھے۔ طالبان قیادت بے سہارا اور انتشار کا شکار ہو چکی تھی۔ ایسے وقت میں کوئٹہ کے نواح میں روپوش ملا ہبت اللہ نے آگے بڑھ کر طالبان قیادت کو سنبھالا دیا۔ ملا ہبت اللہ کی بقا صرف اس لیے ممکن ہوئی کہ وہ پاکستان کی حفاظت اور خاموش سرپرستی کے سائے میں روپوشی کی زندگی گزار رہے تھے۔ امریکی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیاں مسلسل ان کے تعاقب میں تھیں، اگر پاکستان اور اس کے ادارے ملا ہبت اللہ کو حفاظتی چھتری فراہم نہ کرتے تو وہ چند دن بھی زندہ نہ رہتے اور پکڑے جاتے، مگر تاریخ کا یہ تلخ تضاد دیکھئے کہ آج وہی شخص جسے پاکستان نے پناہ اور تحفظ دے کر قیادت تک پہنچایا آج پاکستان کو اپنا سب سے بڑا ہدف بنا چکا ہے۔
ایک اطلاع کے مطابق حال ہی میں طالبان کے امیر ملا ہبت اللہ اخوند زادہ نے افغانستان کے مختلف صوبوں اور اضلاع کے ان کمانڈرز کو کابل میں طلب کیا ہے جن کے پاس خودکش حملہ آوروں کے نیٹ ورکس موجود ہیں۔ انہیں براہِ راست پاکستان کے خلاف کارروائیوں کی ہدایات دی گئی ہیں اور پاکستان کے بڑے شہروں خصوصاً کراچی، لاہور اور اسلام آبادکو واضح طور پر ممکنہ اہداف کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح بعض اطلاعات کے مطابق طالبان رجیم کے ایک اعلیٰ اہلکار نے ایک اجلاس میں پاکستان کو دھمکی دیتے ہوے کہا ہے: ”آپ کے پاس ایٹم بم ہیں تو ہمارے پاس بھی ایٹم بم ہیں اور ہمارے ایٹم بم یہ نوجوان ہیں جو جان دینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔”
2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد پاکستان کو توقع تھی کہ طالبان رجیم ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو درست سمت میں آگے بڑھائے گی لیکن طالبان رجیم نے اس کے برعکس پاکستان سے تعلقات کو بتدریج سرد مہری کی طرف دھکیلا ہے اور بھارت کے ساتھ اپنی قربت کو تیزی سے آگے بڑھایا ہے۔ بھارت نہ صرف سفارتی سطح پر طالبان رجیم سے روابط بڑھا رہا ہے بلکہ افغانستان کے اندر تکنیکی اور عملی موجودگی بھی قائم کر چکا ہے۔ قندھار، کابل اور بگرام میں بھارتی ماہرین، انجینئرز اور سیکورٹی اسٹاف کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت افغانستان میں ایک منظم اور طویل المدتی اسٹریٹجک قدم جما چکا ہے۔ بگرام جو کبھی امریکی فوجی سرگرمیوں کا مرکزی نقطہ تھااب بھارت اور طالبان کے مشترکہ معاشی و تکنیکی منصوبوں کی سرگرمیوں کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ طالبان رجیم پاکستان کو نظر انداز کر کے بھارت کے ساتھ براہِ راست اسٹریٹجک ہم آہنگی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ طالبان رہنماؤں کے بیانات اس نئے اتحاد کی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں۔
دریں اثنا نائب طالبان وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر نے حال ہی میں افغان تاجروں کو حکم دیا ہے کہ وہ تین ماہ کے اندر پاکستان کے ساتھ تجارت کم کر کے اس کے متبادل تلاش کریں۔ یہ پیغام طالبان رجیم کی اس وسیع پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ افغانستان کی معیشت کو پاکستان سے علیحدہ کر کے بھارت، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ جوڑنا چاہتے ہیں۔ بھارت نے پہلے ہی چابہار پورٹ کے ذریعے افغانستان کو ایک عملی ٹرانزٹ روٹ مہیا کر دیا ہے جس نے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو محدود کرنا شروع کر دیا ہے۔ چابہار پورٹ کا معاملہ اس نئی سفارتی تبدیلی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ طالبان رجیم اور بھارت کے درمیان چابہار کے استعمال پر بڑھتی ہم آہنگی پاکستان کو تجارتی لحاظ سے بائی پاس کرنے کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ 2023–24میں افغانستان کے ذریعے بھارت اور وسطِ ایشیا کے درمیان تجارت کا حجم 1.4ارب ڈالر تک پہنچ گیا جو پاکستان کی ٹرانزٹ حکمت عملی کے لیے براہِ راست دھچکا ہے۔ پاکستان کے راستے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا حجم کم ہو کر 2.5ارب ڈالر سے 1.6ارب ڈالر تک آ چکا ہے۔
افغانستان میں بھارتی موجودگی محض تجارتی بنیادوں تک محدود نہیں بلکہ اس میں دفاعی اور انٹیلی جنس پہلو بھی واضح طور پر شامل ہیں۔ کرزئی دور میں بھارت کے افغانستان میں 11قونصل خانے تھے جن کی وجہ سے پاکستان کو مغربی سرحد پر مستقل دباؤ کا سامنا رہتا تھا۔ طالبان رجیم کے ساتھ بڑھتی قربت مستقبل میںانڈیا کی اسی نوعیت کی وسیع موجودگی کے امکانات کو جنم دے رہی ہے۔ بھارت پہلے ہی اپنے تکنیکی ماہرین کے ذریعے افغانستان میں سلما ڈیم، پارلیمنٹ کمپلیکس اور 400بستروں والے اسپتال جیسی تنصیبات کی مرمت اور فعالیت پر کام کر رہا ہے۔ ان منصوبوں کی مجموعی قدر 300–400ملین ڈالر بتائی جا رہی ہے۔ بھارت نے گزشتہ برس ویزا سروس بحال کرکے افغان شہریوں کی تعلیمی، کاروباری اور طبی ضروریات کے لیے بھارت تک رسائی آسان کر دی ہے۔ اس سارے پس منظر کے ساتھ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ طالبان رجیم پاکستان کے بار بار مطالبات کے باوجود ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی عملی کارروائی کرنے کو تیار نہیں بلکہ ٹی ٹی پی کو محفوظ پناہ گاہیں، حساس علاقوں تک رسائی اور تنظیمی آزادی فراہم کی جا رہی ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں پاکستان میں 800سے زائد دہشت گرد حملے ہوئے جن میں سے اکثریت کی منصوبہ بندی افغان سرزمین پر ہوئی۔ اس پس منظر میں یہ بیانات کہ ”ہمارے ایٹم بم یہ نوجوان ہیں” نہایت تشویشناک ہیں۔ بھارت اس صورت حال سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ بھارت کی پالیسی یہ ہے کہ افغانستان میں اثر و رسوخ بڑھا کر پاکستان کو دو محاذوں پر الجھایا جائے۔ اس حکمتِ عملی کے نتیجے میں پاکستان کی عسکری اور سفارتی ترجیحات مسلسل دباؤ کا شکار رہیں گی۔
کچھ عرصہ قبل بھارت نے افغانستان کے طلبہ کے لیے 5000اسکالرشپس فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے افغانستان کی نئی ٹیکنوکریٹ کلاس براہِ راست بھارت کے اثر میں آ سکتی ہے۔ تعلیمی اثر و رسوخ وہ دائمی سیاسی سرمایہ ہوتا ہے جو دہائیوں تک کسی ملک کی پالیسی ترجیحات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ قصہ مختصر! بھارت کی افغانستان میں بڑھتی ہوئی موجودگی، طالبان رجیم کی پاکستان مخالف پالیسیاں، ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں میں اضافہ اور پاکستان کے خلاف ممکنہ خودکش کارروائیاں خطرناک امتزاج کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ آنے والے د ن پاکستان کے لیے مشکل ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے اور ایک ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اللہ کی مدد اور توفیق سے ہمیشہ مشکل حالات سے سرخرو ہوتا آیا ہے اور ان شاء اللہ انڈیا طالبان گٹھ جوڑ بھی ناکام و نا مراد ہوگا۔

