عالمی و اسلامی برادری غزہ کو فراموش نہ کرے

غزہ کی پٹی میں موسم سرما کی پہلی بارش کے باعث فلسطینی پناہ گزینوں کے ہزاروں خیمے ڈوب گئے، جبکہ سردی کی شدت میں بھی اضافہ ہو گیا۔ جمعہ کی صبح شروع ہونے والی بارش کا پانی خیموں میں داخل ہوگیا۔ خیموں میں پناہ لیے ہوئے فلسطینی خاندانوں نے سوئے ہوئے بچوں کو محفوظ جگہوں میں منتقل کیا۔ اس دوران کئی مرد اور خواتین خیموں سے پانی نکالنے میں مصروف نظر آئے۔ بارش کے باعث بستر اور اشیاء خور و نوش بھیگ گئیں۔ بارش کے بعد سردی کی لہر میں اضافہ ہونے اور تباہ شدہ ملبوں اور میدانوں میں بارش کا پانی جمع ہونے پر وبائی اور موسمی امراض پھیلنے کا خدشہ ہوگیا ہے۔

غزہ میں جنگ بندی کے نتیجے میں فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کا سلسلہ تو وقتی طو پر تھم گیا ہے تاہم قابض و ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی بدستور جاری ہے۔ ایک جانب صہیونی فوج جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ میں فلسطینیوں کو نشانہ بنارہی ہے تو دوسری جانب مغربی کنارے میں فلسطینی باشندوں کی زندگی اجیرن بنادی گئی ہے۔ چنانچہ تازہ اطلاعات کے مطابق غزہ سٹی، بیت لاہیا اور خان یونس میں فضائی حملے کیے گئے جبکہ توپ خانے سے شدید گولہ باری کی گئی، قابض اسرائیلی افواج کی فائرنگ سے ایک فلسطینی خاتون شہید اور کئی شہری زخمی ہوئے۔ غزہ میں اجتماعی قبر سے 51لاشیں برآمد ہوئی ہیں ،غزہ کی سول ڈیفنس ادارے کے ترجمان نے کہا کہ اب بھی درجنوں خاندان تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جن کی لاشیں تاحال نہیں نکالی جاسکیں۔ سول ڈیفنس کا کہنا ہے کہ شدید تباہی اور محدود مشینری کے باعث ریسکیو ٹیموں کو ملبہ ہٹانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ادھرمغربی کنارے میں بھی صورت حال سنگین ہو گئی جہاں قابض اسرائیلی فوج نے گولیاں مار کر 2 بچوں کو شہید کردیا۔ اس براہ راست ریاستی دہشت گردی کے علاوہ اسرائیل غزہ میںفلسطینیوں کو غزہ میں فلسطینیوں کے لیے آنے والی امداد بھی روک رہا ہے جس سے غزہ کے کئی حصوں میں اس وقت بھی لوگوں کو بھوک اور قحط کی صورت حال کا سامنا ہے۔ اوپر سے موسم سرما کی بارشوں نے غزہ کے لاکھوں ستم رسیدہ شہریوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ غزہ کی اسی فی صد عمارتیں تباہ کردی گئی ہیں اور وہاں کے بیس لاکھ سے زائد شہری خیموں میں اور کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور ہے۔ موسم کی شدت میں اضافے کے ساتھ وہاں مضبوط خیموں اور گرم کپڑوں کی اشد ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیوز میں غزہ کے باشندوں کے امت مسلمہ بالخصوص عرب برادری سے مدد کی اپیل کی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عالم اسلام بلکہ پوری عالمی برادری کو غزہ کے مظلوم و مقہور باشندوں کی اس اپیل پر کان دھرنا چاہیے اور وہاں امداد کی فوری رسائی کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ آزاد دنیا کے تمام انسانیت نواز حلقوں کو اہل غزہ کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے، طاقتور ممالک کو غزہ میں امداد کی رسائی پر قدغنیں لگانے والی اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے اور ان تمام ممالک کو جو امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کا حصہ ہیں، غزہ میں اسرائیل کی جانب سے جنگ معاہدے کی خلاف ورزیاں روکنے، مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ غزہ میں حسب ضرورت امداد بالخصوص خیمے اور تعمیراتی سامان پہنچانے کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لانے چاہئیں۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق امریکا صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کو اقوام متحدہ کی چھتری فراہم کرنے کے لیے سلامتی کونسل میں قرار داد لا رہا ہے جس میں غزہ میں بین الاقوامی امن فوج کی تعیناتی کی منظوری لی جانی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ انقرہ میں عرب و اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس نے اپنے اعلامیے میں غزہ میں اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات کرانے کی تجوویز پیش کی تھی۔ غزہ میں امن فوج کی تعیناتی سمیت کسی بھی منصوبے کی کامیابی کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ فلسطینیوں کو اس پر اعتماد میں لیاجائے، انہیں اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی سے نجات کی ضمانت دی جائے اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا وعدہ پورا کیا جائے۔ اس کے بغیر کوئی بھی منصوبہ خواہ اسے جو بھی نام دیا جائے، مشرق وسطی کے مسئلے کا حل نہیں بن سکتا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سعودی عرب سمیت متعدد اسلامی و عرب ممالک پر نام نہاد ابراہیم اکارڈ میں شمولیت کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے مگر یہ بات طے ہے کہ فلسطینیوں کو اپنی جدی پشتی سرزمین پر آزادی وخودمختاری سے جینے کا حق دیے بغیر ابراہیم اکارڈ بے معنی رہے گا اور اس میں کسی بھی ملک کی شمولیت سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ عالمی واسلامی برادری کا فرض بنتا ہے کہ وہ غزہ کو فراموش نہ کریں اور اہل غزہ کی فوری مدد کے ساتھ ساتھ مسئلہ فلسطین کے منصفانہ اور پائے دار حل پر توجہ دیں۔

مہنگائی پر بھی کچھ مباحثہ ہو!

ملک میں مہنگائی کی رفتار ایک بار پھر بڑھ گئی ہے اور رواں ہفتے افراطِ زر کی مجموعی شرح میں 0.53 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق مہنگائی کی سالانہ شرح 4.15 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسی رفتار سے ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ جاری رہا تو گھریلو بجٹ پر اس کے منفی اثرات مزید گہرے ہو سکتے ہیں۔ حکومتی ادارے مہنگائی روکنے کے لیے اقدامات کے دعوے کر رہے ہیں تاہم صورت حال یہ ہے کہ چینی کی قیمت بھی ان کے قابو میں نہیں ہے۔ کوئٹہ میں چینی کی فی کلوقیمت 229 روپے تک پہنچ گئی ہے، دیگر شہروں میں بھی چینی کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق عوامی حلقے شکوہ کر رہے ہیں کہ قوم کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی اسمبلیوں میں مخصوص عہدوں اورشخصیات کو تحفظ دینے کے لیے تو بحث و مباحثہ اور قانون سازیاں ہورہی ہیں تاہم عام آدمی کے مسائل بالخصوص مہنگائی پر کوئی بحث کی جاتی ہے نہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے کوئی قانون سازی کی جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں عوام کے مسائل کے لیے بھی کچھ وقت نکالیں اور مہنگائی کے جن سے غریب لوگوں کو بچانے کے لیے بھی کچھ مباحثہ کریں اور کوئی تدبیر سوچیں۔