پاکستان کا آئین اپنی اصل روح میں عوام کے حقوق کے تحفظ، صوبوں کے اختیارات کی تقسیم اور ریاستی اداروں کے درمیان توازن قائم کرتاہے مگر عملی طور پر دیکھا جائے تو زیادہ تر آئینی ترامیم سیاسی جماعتوں کے مفادات، کسی حکومتی شخصیت کو فائدہ پہنچانے، کسی ادارے کی طاقت بڑھانے یا مخصوص سیاسی نتائج حاصل کرنے کے لیے کی جاتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئین کو عوامی ضرورتوں کے مطابق ڈھالنے کا اصل مقصد پیچھے رہ گیا ہے۔
پاکستان میں آج بھی چند ایسی بنیادی اور ضروری آئینی ترامیم کی ضرورت ہے جو عوامی فلاح، سیاسی استحکام اور ملک کے انتظامی و معاشی ڈھانچے کو مضبوط بنا سکیں، مگر بدقسمتی سے ان پر قومی سطح کا اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہو پایا۔ سب سے پہلی ضرورت مضبوط اور بااختیار بلدیاتی نظام کے حوالے سے آئینی ضمانت کی ہے۔ آئین میں مقامی حکومتوں کے بارے میں شقیں تو موجود ہیںلیکن یہ اتنی مبہم اور کمزور ہیں کہ ہر نئی حکومت اپنی مرضی کے قانون کے ذریعے بلدیاتی نظام کو یا تو معطل کر دیتی ہے یا اسے بے اختیار کر کے محض کاغذی ڈھانچہ بنا دیتی ہے۔ اگر آئین میں واضح طور پر یہ درج کر دیا جائے کہ بلدیاتی ادارے صوبائی اسمبلیوں کے برابر باقاعدہ منتخب حکومتیں ہوں گی جنہیں مالی، انتظامی اور قانون سازی کے مخصوص اختیارات حاصل ہوں گے تو ملک میں ترقی اور عوامی مسائل کے حل میں انقلاب آسکتا ہے۔ اس میں یہ بھی ضروری ہے کہ آئین میں صاف طور پر درج ہو کہ کوئی بھی حکومت بلدیاتی انتخابات ملتوی نہیں کر سکتی اور منتخب ممبران اپنی مدت پوری کریں گے۔
اسی طرح ایک بہت اہم آئینی ترمیم عدالتی اصلاحات اور انصاف کے نظام میں تیزی کے حوالے سے ناگزیر ہے۔ موجودہ عدالتی ڈھانچہ پیچیدہ، سست اور مہنگا ہے۔ لاکھوں مقدمات برسوں سے زیرِ التوا پڑے ہیں، جس کے نتیجے میں کمزور طبقے کو انصاف نہیں ملتا۔ آئین میں شفاف، تیز اور عوامی نوعیت کے انصاف کے لیے ایسے اصول شامل کرنے کی ضرورت ہے جو نچلی عدالتوں کی تعداد بڑھائیں، ججز کی تعیناتی کے لیے غیر سیاسی اور شفاف طریقہ کار ترتیب دیں، اور مقدمات کا فیصلہ مخصوص مدت میں کرنے کی آئینی پابندی عائد کریں۔ عوامی مفاد کا سب سے بڑا تحفظ انصاف ہی کے ذریعے ممکن ہے اور جب تک عدالتی نظام میں بنیادی اصلاحات آئینی ضمانت سے نہیں گزرتیں، تبدیلی نہیں آئے گی۔
اسی طرح طاقتور اداروں کے اختیارات اور دائرہ کار کی واضح حدبندی بھی ناگزیر ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس حقیقت سے بھری پڑی ہے کہ آئین کی تشریحات کو سیاسی ضرورت کے مطابق تبدیل کیا جاتا رہا ہے۔ کبھی ایگزیکٹو طاقت زیادہ ہو جاتی ہے، کبھی عدلیہ خود کو بالا دست سمجھتی ہے اور کبھی عسکری ادارے بالواسطہ یا بلاواسطہ فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ آئین میں ایسی ترامیم کی ضرورت ہے جو پاور شیئرنگ کے معاملے کو غیر مبہم اور ایک واضح فریم ورک میں لے آئیں، تاکہ ادارہ جاتی ٹکراؤ کم ہو اور ریاست کی توجہ عوامی فلاح کی طرف منتقل ہو سکے۔
ایک اور اہم ضرورت پارلیمانی نگرانی اور شفاف طرزِ حکمرانی کو آئینی تقویت دینے کی ہے۔ آج عوام کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن، اختیارات کا غلط استعمال اور حکمرانوں کا غیر جواب دہ ہونا ہے۔ اگر آئین میں لازمی بنایا جائے کہ ہر سال تمام وزارتیں اپنی کارکردگی کی رپورٹ پارلیمنٹ میں جمع کروائیں، ہر بڑے منصوبے کا آڈٹ آئینی تقاضا ہو اور سرکاری اداروں کے سربراہ جمہوری فورمز کو جواب دہ ہوں تو حکمرانی کی کیفیت بدل سکتی ہے۔ یہی وہ شفافیت ہے جو عوامی اعتماد بڑھاتی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس سمت میں کوئی ٹھوس تبدیلی ابھی تک نہیں لائی گئی۔
پاکستان کے قوانین میں انتخابی اصلاحات بھی سب سے زیادہ ضروری ترمیم ہیں۔ انتخابات کا عمل شفاف، قابلِ اعتماد اور مکمل طور پر غیر جانبدار ہونا چاہیے، کیونکہ جب انتخابی میدان ہی صاف نہ ہو تو پوری سیاسی عمارت کمزور بنیادوں پر کھڑی رہتی ہے۔ اسی لیے آئین میں ایسی دفعات شامل کرنے کی ضرورت ہے جن سے سیاسی جماعتیں مالی شفافیت کی پابند ہوں، امیدواروں کے اثاثے ہر سال لازمی آڈٹ ہوں اور انتخابی مہم کے دوران خرچ ہونے والا ہر روپیہ عوام کے سامنے ظاہر کیا جائے۔ انتخابی فہرستوں و حلقہ بندیوں کا عمل بھی مکمل طور پر خودمختار اور شفاف بن جائے، کیونکہ یہی وہ عمل ہے جس پر نمائندگی کا پورا تصور قائم ہوتا ہے۔ اگر انتخابی نظام درست ہو جائے تو سیاست دان زیادہ جواب دہ ہوں گے، بدعنوانی کم ہوگی اور حقیقی نمائندے عوامی طاقت سے سامنے آئیں گے۔ یہ اصلاحات محض تکنیکی نہیں بلکہ پاکستان کی جمہوری سمت کے تعین کا بنیادی ذریعہ ہیں۔
اسی طرح بہت اہم اور نظر انداز شدہ ضرورت تعلیم اور صحت کے شعبے میں آئینی اصلاح کی ہے۔ ہمارے آئین کی شق 25ـAکے تحت تعلیم کو بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے، مگر اس پر عملدرآمد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ کسی شہری کو بھی مفت معیاری تعلیم کسی بھی درجے پر حاصل نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا دار ومدار اس کے پڑھ لکھے، صحت مند اور باصلاحیت شہریوں پر ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ان دونوں شعبوں کو ہمیشہ غیر سنجیدگی کا سامنا رہا۔ آئین میں واضح طور پر ریاست کو یہ پابند بنانا چاہیے کہ وہ ہر سال جی ڈی پی کا کم از کم مخصوص حصہ تعلیم اور صحت پر خرچ کرے اور اس پابندی کی خلاف ورزی پر پارلیمانی جواب دہی بھی یقینی بنائی جائے۔ نیز تعلیم کم از کم میٹرک تک تمام شہریوں کیلئے مفت بھی ہو اور معیاری بھی ہو۔ معیار کو ٹھیک کرنے کیلئے بھی آئین میں میکنزم ہونا چاہیے۔ یہ وہ شعبے ہیں جن میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے، حالانکہ ایک قوم کو مضبوط بنانے کے لیے ان سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں۔
مختصراً پاکستان کے آئین کو سیاسی مقاصد کے لیے بار بار بدلا گیا، لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ اسے عوامی ضرورتوں کے مطابق بدلا جائے۔ عوامی مفاد کے لیے آئینی ترامیم وہ ہیں جو انصاف تیز کریں، بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنائیں، انتخابی نظام کو شفاف کریں، پاور شیئرنگ کو واضح کریں اور تعلیم، صحت و معاشی منصوبہ بندی کو آئینی ضمانت فراہم کریں۔ جب تک آئین میں یہ حقیقی اصلاحات شامل نہیں ہوتیں، پاکستان کی سیاست طاقتوروں کے گرد گھومتی رہے گی اور عوام کے مسائل آئینی کتاب کے صفحات میں ہی دفن رہیں گے، عملی زندگی میں نہیں۔

