عملی اصلاح کی بابت چند احادیث

مال اور اولاد آزمائش ہیں: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: بیشک تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں (التغابن: 15)۔ کعب بن عِیاض بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ہر امت کی آزمائش کسی نہ کسی چیز میں ہے اور میری امت کی آزمائش مال میں ہے (ترمذی: 2336)۔ حضرت مسور بن مخرمہ بیان کرتے ہیں: عمرو بن عوف نے بتایا جو بنو عامر بن لوی کے حلیف اور غزوہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح کو (ایک مہم پر) بھیجا وہ بحرین سے مال لے کر آئے انصار نے ابوعبیدہ کی آمد کے بارے میں سنا تو انہوں نے فجر کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرصحابہ کرام کی طرف متوجہ ہوئے تو انہوں نے وہ مال پیش کیا انہیں دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا اور فرمایا: میرا خیال ہے: تم نے ابوعبیدہ کے مال لانے کی بابت کچھ سنا ہے انہوں نے عرض کی: جی ہاں! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو خوشی منائو اور تمہاری مسرت کیلئے اللہ نے جو اسباب پیدا فرمائے ہیں ان سے اچھی امید قائم کرو (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) واللہ! مجھے تمہارے فقر میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہیں ہے بلکہ مجھے (حقیقی) اندیشہ یہ ہے کہ پچھلی امتوں کی طرح دنیا تم پر کشادہ ہو جائے گی اور تم دنیا کی محبت میں اسی طرح ڈوب جائو گے جیسے پچھلی امتیں مبتلا ہوئیں پس تم بھی اسی طرح ہلاک ہو جائو گے جس طرح تم سے پہلی امتیں (دنیا کی محبت کے غلبے کے سبب) ہلاک ہوئیں (ترمذی: 2462)۔

(4)حضرت مطرِف بیان کرتے ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ سورہ التکاثر کی تلاوت فرمارہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی آدم کہتا ہے: میرا مال میرا مال۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا مال کیا ہے بس جو تم نے کھا لیا اور فنا ہو گیا یا جو تم نے پہن لیا اور بوسیدہ ہو گیا یا جو تم نے (اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اللہ کی راہ میں) صدقہ کر دیا اور وہ تمہاری آخرت کیلئے باقی بچا (مسلم: 2958)۔ اس کی مزید تشریح مندرجہ ذیل حدیث سے ہوتی ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ایسا شخص کون ہے جسے اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کا مال عزیز ہو صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم میں سے تو ایسا کوئی نہیں ہر شخص کو اپنا مال زیادہ عزیز ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس بیشک (تمہاری جائداد میں سے) تمہارا مال فقط وہی ہے جو تم نے اپنی عاقبت کیلئے آگے بھیجا اور جو مال تم (اپنی وفات کے وقت) پیچھے چھوڑ گئے وہ (تمہارا نہیں بلکہ) وہ تمہارے وارثوں کا ہے (بخاری: 6442)۔ ام المومنین حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں: انہوں نے ایک بکری ذبح کی (شام کو) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اس میں سے (گھر والوں کیلئے) کیا بچا ہے حضرت عائشہ نے عرض کی: صرف ایک دست بچا ہے (یعنی باقی سب اللہ کے نام پر فقرا کو دے دیا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یوں کہو: جو اللہ کے نام پر دیا ہے) وہ سب (اجرِ آخرت کیلئے) بچ گیا ہے سوائے ایک دست کے (جو اپنی ضرورت کیلئے رکھا ہے (ترمذی: 2470)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانِ مبارک کا مقصد یہ ہے کہ بکری کا سارا گوشت جو اللہ کے نام پر دیا ہے وہ (آخرت کیلئے) بچ گیا ہے اور ایک دست جو گھر والوں کیلئے بچ گیا ہے وہ درحقیقت خرچ ہوگیا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: (تم فانی ہو اور) جو تمہارے پاس ہے (ایک دن) وہ فنا ہو جائے گا اور جو (آخرت کیلئے) اللہ کے پاس ہے وہ (درحقیقت) باقی رہ جائے گا اور ہم صبر کرنے والوں کو ان کے عمل کا بہترین اجر عطاکریں گے (النحل: 96)۔

حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: دنیا میں اس طرح رہو جیسے تم مسافر یا راستے کے راہی ہو پس عبداللہ بن عمر کہا کرتے تھے: جب شام ہو جائے تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار نہ کرو (یعنی ہر وقت موت کیلئے تیار رہو) اپنی صحت کے ایام میں اپنی بیماری کے ایام کیلئے زادِ عمل تیار رکھو اور اپنی فرصتِ حیات میں اپنی موت (اور بعدالموت کیلئے) تیاری کرو (بخاری: 6416)۔ یعنی فرصت کے لمحات کو غنیمت سمجھو پھر حسنِ عمل کیلئے یہ موقع ہاتھ نہیں آئے گا کیونکہ کسی کو خبر نہیں کہ فرشتہ اجل کب آ کھڑا ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مالداری (دنیاوی) ساز وسامان کی کثرت کا نام نہیں ہے اصل مالداری دل کا غنی ہونا ہے (بخاری: 6446)۔ یعنی دل پر دنیاوی مال ودولت کی ہوس کا غلبہ نہ ہو دنیا سے ضرورت کی حد تک تعلق ہو اور بندہ سب سے بے نیاز ہو کر اللہ کا نیازمند بن جائے۔ حضرت غوث الاعظم کا قول ہے: دنیا کو دل کے دروازے کے باہر رکھو یعنی دنیا سے حسبِ ضرورت استفادہ کرو لیکن اسے دل میں جگہ نہ دو دل اللہ تعالیٰ کے ذکر وفکر سے آباد رہنا چاہیے۔

حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کی بیوی حضرت خولہ بنت قیس بیان کرتی ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: یہ مال سرسبز اور شیریں ہے جس نے اسے حلال طریقے سے حاصل کیا اس کیلئے اس میں برکت ہوگی اور کتنے ایسے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کے مال کو حرام وناجائز طریقہ سے حاصل کرنے والے ہیں ان کیلئے قیامت کے دن جہنم کی آ گ کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا (ترمذی: 2374)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے سے کمتر حیثیت کے لوگوں کی طرف دیکھو (اس سے تشکر کی کیفیت پیدا ہوگی) اور اپنے سے برتر لوگوں کی طرف نہ دیکھو (اس سے احساسِ محرومی پیدا ہوگا۔) بندگی کی شان یہ ہے کہ انسان اللہ کی نعمتوں کی ناقدری نہ کرے۔ (ترمذی: 2513)

حضرت سہل بن سعد ساعدی بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے ایسا عمل بتائیے کہ اسے اختیار کر کے میں اللہ اور بندوں کے نزدیک محبوب بن جائوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا سے رغبت چھوڑ دو اللہ تم سے محبت کرے گا اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے بے نیاز ہو جا لوگ تم سے محبت کریں گے۔ (ابن ماجہ: 4102) زید بن حسین نے کہا: امام مالک سے پوچھا گیا: دنیا سے بے رغبتی کیسے حاصل ہوتی ہے انہوں نے فرمایا: کمائی پاکیزہ ہو اور دنیا کی آرزوئیں کم سے کم ہوں۔ (شعب الایمان: 10293) حضرت یونس بن میسرہ نے کہا: زہد ترکِ دنیا اور مال کو اسراف سے ضائع کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ زہد دنیا سے بے رغبتی کا نام ہے کہ جو مال تمہارے پاس ہے اس سے زیادہ تمہیں اس مال پر اعتماد ہو جو اللہ کے پاس ہے اور یہ کہ تیری کیفیت مصیبت اور راحت میں ایک جیسی ہو اور تم اپنے اوپر جائز تنقید کرنے والے کو بھی اتنا ہی پسند کرو جتنا اپنی تعریف کرنے والے کو پسند کرتے ہو (شعب الایمان: 9597)۔ حضرت علی المرتضی نے فرمایا: جو جنت کی آرزو رکھتا ہے وہ نیک کاموں میں جلدی کرے گا اور جو جہنم سے ڈرے گا وہ خواہشات سے اجتناب کرے گا اور جو موت کا انتظار کرے گا اس کیلئے لذتیں ہیچ وحقیر ہوں گی اور جو دنیا سے بے رغبتی اختیار کرے گا اس کیلئے مصیبتوں کا سامنا کرنا آسان ہوگا (شعب الایمان: 10289)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رزق موت کی طرح بندے کے تعاقب میں رہتا ہے (ابن حبان: 3238) یعنی رزق کی تلاش میں حلال وحرام کی تمیز سے بے نیاز نہ ہو جائو بلکہ اللہ کی تقدیر پر بھروسا کرو مقدر میں جو رزق ہے وہ مل کر رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے میرے رب نے نو چیزوں کا حکم دیا ہے ظاہر وباطن میں اللہ تعالی کی خشیت کا غلبہ غضب اور رضا دونوں کیفیات میں عدل پر مبنی بات کرنا فقر اور مالداری دونوں حالتوں میں میانہ روی اختیار کرنا اور یہ کہ میں اس سے رشتہ جوڑوں جو مجھ سے رشتہ توڑے اورجومجھے ضرورت کے وقت محروم رکھے میں اس کی ضرورت کے وقت اسے عطا کروں اور جو مجھ پر زیادتی کرے میں اسے معاف کر دوں اور یہ کہ میری خاموشی فکر ہو اور میرا کلام ذکرِ الہی پر مشتمل ہو اور میری نظر جہاں بھی پڑے عبرت حاصل کروں اور ہر حال میں نیکی کا حکم دوں (مشکا المصابیح: 3358)۔