تادم تحریر استنبول میں ہونے والے پاک، افغان مذاکرات کے حوالے سے موصول ہونے والی اطلاعات کچھ زیادہ خوش گوار نہیں ہیں اور ثالثوں کی کوششوں کے باوجود گفتگو بے نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ استنبول میں ہونے والی یہ بات چیت مملکتِ خداداد پاکستان کو درپیش قومی سلامتی کے سنگین چیلنجوں کے تناظر میں کی گئی ہے۔ پاکستان کا دوٹوک موقف ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر کسی بھی نوعیت کے حملے، دہشت گردی اور تخریب کاری برداشت نہیں کرے گا اور جہاں سے بھی حملہ ہوگا، وہیں اسے جواب دیا جائے گا۔ یہ موقف ایک مضبوط اور مستحکم ریاست کے عزم کا آئینہ دار ہے اور ماضی کے حالات و واقعات سے حاصل شدہ اسباق کا منطقی نتیجہ اور ایک قوت رکھنے والی ریاست کا فطری ردعمل ہے۔ اس منطقی، فطری اور اصولی موقف پر سمجھوتے کا مطلب یہ ہوگا کہ پچیس کروڑ اسلامیانِ پاکستان کی آزادی، سا لمیت اور خودمختاری کو چند بے علم، شرپسند، فسادی گروہوں کے ہاتھوں یر غمال بنا دیا جائے۔ پاکستان کے اس دوٹوک اور واضح موقف کے جواب میں افغان عبوری حکومت کی جانب سے اس سنجیدگی، معاملہ فہمی، دوراندیشی اور فہم و فراست کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا جس کی موجودہ حالات میں اشد ضرورت ہے۔
سنجیدہ فکر مبصرین اور فہم و فراست رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق خطے میں استحکام اور پائیدار امن کی ضمانت ایک مضبوط اور سالم پاکستان کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہ حقیقت خطے ہی نہیں بلکہ پوری مسلم امہ کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔ اس وقت پاکستان کو بیک وقت دو بڑے فکری و عسکری چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ایک طرف ہندوتوا کا اکھنڈ بھارت کا توسیع پسندانہ خواب ہے، جس کا نقشہ بھارتی پارلیمنٹ میں بھی آویزاں ہے، اور دوسری طرف مغربی سرحد پر لویہ افغانستان کا وہ نظریہ ہے جو ناحق سرحد پار حملوں اور دراندازیوں کا سبب بن رہا ہے۔ حالیہ پاک، افغان مذاکرات میں ڈیڈ لاک اور سرحدوں پر افغان شہریوں پر مشتمل دہشت گرد تشکیلات کی موجودگی یہ واضح کرتی ہے کہ یہ صرف عسکری تنازعات نہیں بلکہ ایک گہری فکری و اعتقادی گمراہی کا نتیجہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں بسنے والے تمام مسلمان ان نظریاتی خطوط کو سمجھیں جو اس کی سلامتی کے لیے نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کے داخلی امن و سلامتی اور اس کی وحدت و قوت کے ساتھ عالم اسلام کا استحکام جڑا ہوا ہے۔ اس لیے اس معاملہ پر کوئی لچک، کمزوری، تساہل اور غفلت مسلم امہ کو صدیوں تک بھگتنا پڑ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استنبول مذاکرات میں پاکستان نے کالعدم ٹی ٹی پی اور فتنۂ ہندوستان کے دہشت گردوں کی نئی آبادکاری کی پیشکش کو دوٹوک الفاظ میں مسترد کر دیا۔ پاکستان کا بنیادی اور حتمی مطالبہ یہ تھا کہ افغانستان کی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کا کنٹرول واضح، تصدیق کے قابل اور مؤثر ہونا چاہیے، بصورت دیگر پاکستان اپنے قومی مفادات اور سیکیورٹی کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کا حق محفوظ رکھے گا۔ مذاکرات کے دوران ہی شمالی وزیرستان (اسپن وام) اور کرم (گھاکی) میں سرحد پار سے دراندازی کی کوششیں ناکام بنائی گئیں، جس میں چار خودکش بمباروں سمیت 25دہشت گرد ہلاک ہوئے اور پاک فوج کے پانچ جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ان دراندازوں کے پاس سے افغان شناختی کارڈ کی برآمدگی نے افغان عبوری حکومت کے ارادوں اور قول وفعل پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں، جسے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی تشویش ناک قرار دیا ہے۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق، افغان طالبان کا رویہ غیر منطقی اور غیر تعاون پر مبنی تھا، جبکہ وہ ٹی ٹی پی کی قیادت کو مذاکرات میں شامل کرنے کا مضحکہ خیز مطالبہ کر رہے تھے۔ اسی دوران تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کے آسام رائفلز کے ماہرین کی کابل کے بگرام ہوائی اڈے پر ڈرون بحالی میں مصروفیت کی خبریں بھی خطے کے امن کے لیے مزید خطرات کا اشارہ ہیں۔
بھارت اور افغان عبوری حکومت کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات اور دفاعی معاہدے کی پیدا ہونے والی صورتوں کے درمیان چند اہم افغان رہنماؤں کی جانب سے ڈیورنڈ لائن کو سرحد تسلیم نہ کرنا اور لویہ افغانستان کے نعرے بیان کرتے ہیں کہ حالات و واقعات کس رخ پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ بعض مفکرین کے مطابق لویہ افغانستان اور اکھنڈ بھارت کا فکری چیلنج دراصل ایک ہی بنیادی شر کی دو مختلف شکلیں ہیں جو پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہیں۔ پاکستان کی جغرافیائی تقسیم کا راستہ درحقیقت اکھنڈ بھارت کی طرف جاتا ہے، کیوں کہ بھارت کی متعصب اور مسلم کش قیادت بلاوجہ لویہ افغانستان اور آزاد بلوچستان یا خود مختار کشمیر جیسے منصوبوں کی کھلی یا درپردہ پشت پناہی نہیں کر رہی بلکہ ہندوتوا کے ایجنڈے پر کاربند مودی سرکار کو معلوم ہے کہ (خدانخواستہ) پاکستان کی شکست و ریخت اکھنڈ بھارت کے قیام کا دوسرا نام ہے۔ یہ ایک فطری حقیقت ہے اور منطقی نتیجہ ہے کہ ایک مضبوط، مستحکم اور سالم پاکستان ہی ہندوتوا کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف شرعی جہاد کا فرضِ کفایہ ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان کا کمزور ہونا خطے میں انڈیا کے بے انتہا مضبوط ہونے کا سبب بنے گا، لہٰذا اس وقت جو بھی سیاسی و مذہبی تحریک پاکستان کی جغرافیائی بنیادوں پر تقسیم کا نعرہ لگا رہی ہے، وہ دراصل بالواسطہ یا بلاواسطہ مودی سرکار کے اتحادی کے طورپر کام کر رہی ہے۔ اسی تناظر میں افغان طالبان کا بھارت کی پراکسیز کو پناہ دینا، اورافغان سرزمین کا بھارتی پروکسی کے طور پر استعمال ہونا، نہ صرف اسلامی اخوت کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ افغانستان اور ایران سمیت تمام علاقائی ممالک کے بنیادی مفاد کے بھی خلاف ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق استنبول مذاکرات میں افغان طالبان کی غیر سنجیدگی سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ وہ ٹی ٹی پی اور دیگر خوارجی عناصر کی سرپرستی سے پیچھے ہٹنا نہیں چاہتے، بہرحال اب گیند افغان طالبان کے کورٹ میں ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ وہ ایک ریاست کی طرح عمل کریں گے یا کسی شخصی گروہ یا غیر سیاسی جماعت کی طرح۔ لیکن وہ اچھی طرح جان لیں کہ دہشت گردی کی کارروائی کے جواب میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ اس ردعمل میں جدید فضائی صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کے مراکز کو نشانہ بنانا، سائبر حملوں سے ان کے مواصلاتی نظام کو درہم برہم کرنا، اور سرحد کی سختی سے بندش کر کے معاشی دباؤ ڈالنا شامل ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف بھارت کے کسی ممکنہ حملے کے لیے بھی پاکستان تیار ہے۔ پاکستان کا ہر جوابی اقدام انڈیا کو اپنے اکھنڈ بھارت کے منصوبے سے باز رکھے گا اور اس کی افغانستان میں مداخلت کی کوششوں کو کمزور کرے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یوں محسوس ہوتا ہے کہ فیصلہ کن ٹکراؤ جلد یا بدیر ہوگا۔ اس وقت افغان طالبان کی عاقبت نااندیشی کی قیمت افغانستان کو چکانا پڑے گی۔

