ملک کے عسکری اور سیاسی نظام میں نئے دور کا آغاز

پاک فوج کے سپہ سالار، فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر نے تینوں مسلح افواج کے سربراہ کا منصب سنبھال لیاہے۔ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے پیش کردہ سفارش پر صدرمملکت آصف علی زرداری نے دستخط کردیے جس کے مطابق جنرل عاصم منیر پاکستان کے پہلے کمانڈرآف ڈیفنس فورس بن گئے۔ و ہ آئندہ پانچ برس تک اس منصب پر فائر رہیں گے۔ اخباری ذرائع کے مطابق وزراتِ دفاع نے اس حوالے سے نوٹی فکیشن بھی جاری کردیاہے۔ پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل ظہیر الدین بابر کی مدت ملازمت میں بھی دو سال کی توسیع کردی گئی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں پہلی مرتبہ ایک مشترکہ عسکری اعلیٰ ترین عہدہ تشکیل دیا گیاہے جو چیئر مین جوائنٹ چیفس کمیٹی کے عہدے سے زیادہ توانا، بھرپور، بااختیار اور پُر اثر ہے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق ملک کی دفاعی ضروریات کے پیش نظر اس منصب کی مدد سے چاروں مسلح افواج کے سربراہوں کے درمیان مشترک اور منظم منصوبہ بندی کو آسان اور مربوط کردیاگیا ہے۔ پاکستان نے عہدِ جدید کی ٹیکنالوجی پر منحصر جنگوں کے تقاضوں کے مطابق ”راکٹ فورس”کے نام سے ایک نئی فوج بھی تشکیل دی ہے جو کسی بھی حریف کوبرق رفتاری کے ساتھ جواب دینے کی صلاحیت کی حامل ہوگی۔ مبصرین کا خیال ہے کہ جدید تقاضوں کے مطابق مربوط دفاع اور مشترکہ اقدام کی ضرورت، اہمیت اور افادیت کو سامنے رکھتے ہوئے افواج کی مشترکہ قیادت دفاع وطن کے تقاضوں کا اہم مطالبہ بن چکا تھا جس کی تکمیل کمانڈر آف ڈیفنس فورس کے عہدے کے ذریعے کی گئی تاہم یہ عہدہ مستقبل میں ”قومی سپہ سالار ”کے نئے عہدے کی تشکیل کا سبب بھی بن سکتاہے۔ یا د رہے کہ کمانڈر آف ڈیفنس فورس کی تشکیل کے ساتھ ہی مسلح افواج کی ساخت میں بھی متعدد قانونی اور انتظامی تبدیلیوں کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ کمانڈر آف ڈیفنس فورسز کے عہدے کی تشکیل کی وجہ سے ملک کے داخلی احوال میں رونما ہونے والی تبدیلیوں میں سے سب سے نمایاں عمل شاید بدامنی، تشدد اور لاقانونیت پر قابوپانے کی ریاستی صلاحیت اورفورسزکی استعدادِ کار میں اضافہ ہوگا۔ اب تک ریاستی سطح پر بہت سے ایسے جرائم سے اغماض برتا جارہا تھا جو سیاسی وابستگیوں کی زمرے میں شامل سمجھے جاتے تھے یا ان کے پس پشت ”بڑے لوگوں”کی موجودگی کا خیال رکھا جاتا تھا۔ تاہم اب یہ باتیں طشت از بام ہوتی جارہی ہیں کہ ملک میں ہونے والے بڑی سطح کے جرائم کسی نہ کسی مقام پر باہم مربوط ہوجاتے ہیں۔

سب سے اہم حوالہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی ہے۔ دہشت گردی کے ساتھ متعدد چھوٹے جرائم جڑے ہوئے ہیں جو غیر ملکی افراد کو جعلی شہریت فراہم کرنے سے لے کر منشیات، کرنسی اور اشیائے خورو نوش کی اسمگلنگ کے متعدد سلسلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ملک میں سیاسی و مذہبی انتشار، لسانی بنیادوں پر تشدد حتی ٰ کہ فرقہ وارانہ انارکی اور ہدفی قتل جیسے جرائم کے سرے بھی دراندازی، غیر ملکی مداخلت، پراکسی وار اور دہشت گردی کے ساتھ ہی وابستہ ہیں۔ ان حالات میں جب پاکستان کی سیکورٹی فورسز ایک مشترکہ حکمتِ عملی کے تحت ایک ہی پالیسی کے مطابق دہشت گردی کے عفریت کے خلاف میدان ِ عمل میں اتریںگی تو اس کے ہمہ گیر اثرات مرتب ہوں گے اور ملک دشمن عناصر خواہ وہ کسی بھی لبادے میں چھپے ہوئے ہوں، آخر کارعیاں ہوجائیں گے اوریوں جرائم کے مختلف اور مربوط سلسلوں کو جڑوں سے اکھاڑنا آسان ہوجائے گا۔ دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق اب تک ہر فوج اپنی داخلی پالیسی خود طے کرتی تھی تاہم کمانڈر آف ڈیفنس فورس کے قیام اور ایک مستقبل مرکز کی تشکیل سے جہاں افواج کی داخلی پالیسیوں میں اشتراک دکھائی دے گا وہاں ان ایک مشترکہ ہدف کے حصول کے لیے نئی ضرورتوں کے مطابق مزید یونٹوں کا قیام بھی عمل میں آسکتاہے جس میں سب سے اہم سائبر، جاسوسی اور دیگر ٹیکنیکل امور کے شعبے ہوں گے۔ ان تمام عوامل کی وجہ سے فورسز کی کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔ فیصلوں کی رفتار تیز ہوجائے گی اور برق رفتاری سے اقدامات کیے جاسکیں گے۔

اس منظر نامے کے سیاسی اثرات بھی مرتب ہوں گے کیوں کہ سرِ دست وطن کا مستحکم دفاع، دہشت گردی کا خاتمہ، دراندازی کا علاج اور مشرقی و مغربی سرحدوں سے نمودار ہونے والی جارحیت اورپراکسی جنگ کا مؤثر جواب ریاست کی اولین ترجیحات بن چکی ہیں لہٰذا جو سیاسی یا مذہبی حلقے ریاست کی پالیسی میں مزاحم ہوں گے، وہ ردعمل کا سامنا بھی کریںگے۔ کمانڈر آف ڈیفنس اتھارٹی کے قیام کے بعد اب ملک دشمن قوتوں کے ساتھ فیصلہ کن جنگ اپنے اہم ترین مرحلے میں داخل ہونے والی ہے۔ ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہ جہاں بھی موجود ہوں گے، قیاس یہی ہے کہ انھیں بالضرور نشانہ بنایا جائے گا۔ اس وقت بھی ملک کے دفاعی محافظ اپنا کام ہر ممکن طورپر انجام دے رہے ہیں تاہم اب فتنہ ٔ خوارج اور فتنہ ہندوستان سمیت بھارت کے تمام اتحادیوں کو ان کے فیصلہ کن انجام سے دوچار کرنے کا مرحلہ شروع ہوسکتاہے۔

ملک کے عسکری اور دفاعی ڈھانچے میں حالیہ تبدیلیوںکا اہم ترین محرک دراصل ملک کو درپیش پراکسی وار، مغربی سرحدوں سے درآنے والی دہشت گردی اور مشرقی سرحدوں سے ہونے والی ممکنہ جارحیت ہی ہے۔ افغانستان کی سرزمین سے مسلط کردہ جنگ نے پاکستان کو تنگ آمد بجنگ آمدپر مجبور کردیا ہے اور اب یہ دفاعِ وطن کا لازمی تقاضا بن چکاہے جس کے لیے قوم نے سپہ سالار اور ان کے رفقا کے کاندھوں پر نئی ذمہ داریاں عائد کی ہیں۔ جنرل سید عاصم منیر اوران کی ٹیم کے اب تک کے طرزعمل کودیکھتے ہوئے مذکورہ اعتماد بے بنیاد نہیں ہے۔ جنرل عاصم منیر اور ان کے رفقائے کار نے عسکری محاذ پر معرکہ حق میں فتح جیسا تمغہ اپنے سینوں پر سجا رکھاہے۔ ملک کو معاشی گرداب سے نکالنے اور سفارتی اور سیاسی محاذوں پر وہ اربابِ حکومت کے ہم قدم دکھائی دیتے ہیں۔ انھیں ملنے والے نئے عہدے اور اس کی نئی ذمہ داریوں کے اثرات منطقی طورپر نہ صرف ملک کے داخلی نظم، پولیس اور نیم فوجی دستوں اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروںکی کارکردگی پر مرتب ہوںگے بلکہ سیاسی، سفارتی اور معاشی میدانوں میں بھی دکھائی دے سکتے ہیں۔