افغانستان میں عالمی امداد کا نظام اور علاقائی عدم استحکام کا خطرہ

پاک،افغان سرحد پر افغان کے دستوں کے ساتھ خوں ریز جھڑپوں کا سلسلہ ایک رات سے آگے نہیں بڑھا تاہم اطلاعات کے مطابق سرحدوں پر کشیدگی اب بھی موجود ہے۔ دوسری طرف افغان سرزمین سے پاکستان میں دراندازی کرنے والے فتنہ ٔ خوارج اور فتنہ ٔ ہندوستان کے خلاف فوج اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں کے انٹلی جنس بیس آپریشن بھی جاری ہیں۔ بلوچستان میں ایک کامیاب آپریشن کے دوران بی ایل اے کے بارہ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیاہے جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں پنجاب کے مختلف شہروں میں ایک مربوط آپریشن کے ذریعے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را”کے لیے کام کرنے والے دہشت گردوں کے ایک بڑے گروہ کوگرفتار کیاہے جس کے پاس ہتھیاروں، دھماکہ خیز مواد اور حساس مقامات اور سیکورٹی اداروں کے نقشے ملے ہیں۔

قیاس کیا جارہاہے کہ اس قسم کے مزید گروہ بھی ملک میںسرگرم عمل ہوسکتے ہیں جنھیں ہنوز افغانستان سے افراد ودیگر وسائل کی فراہمی عین ممکن ہے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف مسلسل استعمال دراصل علاقائی استحکام کو درپیش ایک مسلسل خطرے کی مانند ہے جس کا تدارک اس لیے ضروری ہے کہ یہ مسئلہ آنے والے دنوں میں غیر ریاستی گروہوں کی پر تشدد سرگرمیوں کی صورت میں ایک سنگین بحران بن سکتاہے جس کا نشانہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دیگر علاقائی ممالک بھی بنیں گے اور خطے میں چین کی سرکردگی میں جغرافیائی بنیادوں پر اقتصادی شراکت داری کا جو عالمی معاشی منصوبہ زیرعمل ہے،اسے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا اور پورا خطہ انارکی اور جنگوں کی لپیٹ میں آجائے گا۔ اس موقع پر سوال پیدا ہوتاہے کہ طالبان حکومت جو کہ امن و سلامتی کے قیام کا وعدہ کرکے اقتدار تک پہنچی تھی آخر کیوں اپنی سرزمین کو غیر ریاستی جنگجو گروہوں کے لیے پناہ گاہ بنا کر علاقائی ممالک کے لیے ایک سیکورٹی رسک بنی ہوئی ہے ؟دہشت گردوں،خوارج اور متشدد گروہوں کی سرپرستی اور پشت پناہی کے لیے وسائل کہاں سے میسر آرہے ہیں اور اس عمل کی منطقی وجہ کیا ہے ؟

مذکورہ سوال خطے کی سلامتی اور امن کے لیے فکر مند ہر شخص کے خیالات میں گردش کررہاہے۔ اس سوال کا مفصل جواب افغان عبوری حکومت کے ساختیاتی و دیگرپہلوؤ ں کا مکمل جائزہ لے کر ہی پیش کیا جاسکتاہے تاہم طالبان حکومت کو بیرونی امدادی نظام سے حاصل ہونے والے معاشی فوائد کا سرسری تجزیہ بھی بہت سے معاملات کو سمجھنے میں مدد فراہم کرسکتاہے ۔ امریکا او ر اقوام متحدہ کی زیر نگرانی کام کرنے والے مختلف عالمی امدادی اداروں کی رپورٹوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ اس وقت افغانستان کو ملنے والی عالمی امدادی رقوم جو کہ ڈالر کی صورت میں پیش کی جاتی ہیں، اس ملک کی معیشت میں ماہانہ بنیادوں پر چالیس سے پچاس ارب پاکستانی روپے زیر ِ گردش رکھتی ہیں۔ یہ رقوم مختلف ممالک کی این جی اوز پر مشتمل ایک ملک گیر نظم کے ذریعے خوراک، صحت، تعلیم نیز گھروں اور سڑکوں اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبوں کی تعمیر کے ذریعے افغان عوام کو فراہم کی جارہی ہے ۔ امریکا اور اقوام متحدہ کے ذریعے سے حاصل ہونے والی اتنی بھاری رقوم جس میں امریکی حصہ تیس سے پینتیس فی صد ہے ، بالواسطہ طورپر طالبان کے اقتدار کو سہارا دیے ہوئے ہیں۔طالبان حکومت ان رقوم سے ٹیکس،چنگی اور دیگر نوعیت کے محصولات حاصل کرکے بھاری فنڈ حاصل کرلیتی ہے اور چوں کہ اسے صحت، تعلیم اور سڑکوں کی تعمیر و مرمت یا گھروں اور رہائش گاہوں کی فراہمی کے لیے کچھ خاص خرچ نہیں کرنا پڑتا لہذا اس کے کارپردازوں کو عوامی مسائل کی وہ فکر بھی لاحق نہیں جو کہ عوام کو جواب دہ طرز حکمرانی میں پیش آسکتی ہے ۔ عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان کے ساتھ ٹکراؤ کو طالبان حکومت نے عوامی مقبولیت کا ذریعہ بنالیا ہے جبکہ تعلیم ،صحت، خوراک اور گھروں کی فراہمی جیسے متعدد اہم امور عالمی امداد کے سہارے کسی نہ کسی طورچل رہے ہیں۔ گویا طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرتے ہوئے بھی ،اقوام متحدہ اور امریکا نے اسے ایک غیر علانیہ سندقبولیت فراہم کررکھی ہے۔برآمدات و درآمدات کا حجم افغان کرنسی کی موجودہ قدر سے مطابقت نہیں رکھتا۔یہ امریکی ڈالر کی مسلسل فراہمی کا کمال ہے ۔ افغان عوام کے ساتھ امداد کے پردے میں طالبان حکومت کے ساتھ اس معاشی تعاون کی متعدد وجوہ ہوسکتی ہیںجن میں ممکنہ اقتصادی معاہدے شامل ہیں جو کہ قطر اور عرب امارات سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں اور امریکا،آسٹریلیااور دیگر مغربی ممالک کے سرمایہ داروں کی شراکت کے ساتھ وجود میں آنے کے قوی امکانات ہیں ۔یہ محض قیاس آرائی نہیں بلکہ بھارت کے ساتھ متحدہ عرب امارات اور قطر کی افغانستان کی داخلی صورت حال کے ساتھ دل چسپی کے متعدد شواہد موجود ہیں۔ قطر کئی برسوں سے افغان طالبان کے لیے سہولت کاری کا سب سے اہم مرکز ہے جہاں امریکا کا سب سے بڑا فوجی مستقر بھی موجود ہے۔ اسی تناظر میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اس وقت افغانستان عالمی پراکسی وار کے لیے ایک تزویراتی حیثیت اختیار کرچکاہے۔منشیات ،اسمگلنگ اور اسلحے کے ذریعے اس مرکز کو مستحکم کیا جارہاہے جہاں دنیا بھر سے آنے والے جنگجوبتدریج جمع ہورہے ہیں۔یوںمحسوس ہوتاہے کہ امریکی چھتری تلے جدید اسلحے اور وسائل کی مدد سے ایک طرف چین اور اس کے اہم اتحادی پاکستان کو نشانہ بنانا آسان ہوگا تو دوسری جانب ایران،سعودی عرب ،ترکیہ اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک جنگجو گروہوں کی رسائی ممکن ہوسکے گی۔گویا افغانستان کی یہی تزویراتی حیثیت اس کے لیے عالمی امداد کا حقیقی سبب بنی ہوئی ہے ۔

پاکستان کے ساتھ طالبان حکومت کا دوبدو ٹکراؤ بھارتی جغرافیائی سیاست کا حصہ ہے جسے طالبان قیادت قومی تفاخر کے طورپر پیش کررہی ہے۔پاکستان واحد ملک نہیں جسے طالبان رجیم کی لسانی،قومی اور انتقامی سوچ کا سامنا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق پانی کی قلت سے دوچار ایران کے ساتھ بھی طالبان رجیم کے تعلقات سخت تناؤ کا شکارہیں جس کی وجہ ہلمند (ہرمند) دریا پر متنازع ڈیم کی تعمیر ہے جو جنوبی ایران اور سیستان کے علاقوں میں زرعی تباہی کا سبب بن جائے گا۔ صاف معلوم ہوتاہے کہ طالبان رجیم کے مذکورہ اقدامات سے خطے کے استحکام کوسنگین چیلنج درپیش ہیں۔ عالمی امدادی نظام کے سہارے افغان عوام کو دبا کرطالبان انتظامیہ نے خوارج اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی کا سلسلہ جاری رکھا تو نہ صرف بھارت کی پراکسی جنگ طویل ہوجائے گی بلکہ خطے کے دیگر ممالک کو بھی غیر ریاستی گروہوں کی جانب سے پر تشدد کارروائیوں کا ہمہ وقت سامنا رہے گا۔علاقائی ممالک کو ان مسائل کا قرار واقعی حل جلد تلاش کرنا ہوگا۔