ملکی معیشت ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں ہر سمت غیر یقینی، دباؤ اور مسلسل خسارے نے ملک کے معاشی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا رکھا ہے۔ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 2025۔26ء کے ابتدائی پانچ ماہ میں تجارتی خسارہ 37 فیصد سے زائد بڑھ کر ساڑھے پندرہ ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ درآمدات مسلسل بڑھ رہی ہیں جبکہ برآمدات کم ہو رہی ہیں۔ نومبر کے اعداد وشمار اس بحران کو اور زیادہ نمایاں کرتے ہیں، جہاں سالانہ بنیاد پر تجارتی خسارہ تقریباً 33 فیصد بڑھا جبکہ برآمدات میں 15 فیصد سے زیادہ کمی دیکھی گئی۔
معیشت و تجارت کی یہ صورتحال معمولی یا وقتی نہیں، بلکہ مسلسل و متواتر معاشی بحران کا لازمی نتیجہ ہے اور آج کی اس صورتحال کو ماضی کے تسلسل میں دیکھے بغیر پوری طرح نہیں سمجھا جا سکتا۔ تاہم ایک عام آدمی اور محب وطن شہری کیلئے پریشان کن سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوست ممالک سے اربوں ڈالر کے قرضے لینے اور بھاری مالی مراعات حاصل کرنے کے باوجود معیشت کیوں اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو پا رہی؟ کیوں ہر چند ماہ کے بعد قرض مئے کی نئی قسط اور نئے بیل آؤٹ پیکیج کے بغیر معیشت سانس تک نہیں لے سکتی؟ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ مالیاتی سہاروں کے باوجود معاشی ڈھانچہ کمزور ہے، تجارت خسارے میں ہے، پیداوار جمود کا شکار ہے اور سرمایہ کار بداعتمادی سے دوچار ہیں۔ یہ صورتحال صرف معاشی بدانتظامی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایسے مسائل کا مجموعہ ہے جو عشروں سے حل طلب ہیں اور جنہیں مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ یہ امر واضح ہے کہ موجودہ تجارتی خسارے کی بنیادی وجہ درآمدات اور برآمدات کا عدم توازن ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ جب درآمدات بڑھیں اور برآمدات کم ہوں تو لازمی طور پر تجارتی خسارہ بڑھے گا لیکن اصل سوال یہ ہے کہ برآمدات کم کیوں ہیں؟ کیوں ہماری صنعت عالمی منڈی کا مقابلہ نہیں کر پاتی؟ کیوں ہمارا پیداواری ڈھانچہ جدید تقاضوں کے مطابق نہیں ڈھل سکا؟ ان سوالات کا جواب صرف اعداد وشمار میں نہیں بلکہ اس پورے ماحول اور اس نظام میں پوشیدہ ہے جو تجارت، صنعت اور سرمایہ کاری کے راستے میں مسلسل رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
ملک کے تجارتی و معاشی ماحول کا تجزیہ کیے بغیر تجارتی خسارے کی وجوہات پر گفتگو ادھوری رہتی ہے۔ کوئی بھی ملک اس وقت تک بین الاقوامی تجارت میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا جب تک اس کا اندرونی نظام شفاف، مستحکم، کم لاگت اور سرمایہ کار دوست نہ ہو۔ بدقسمتی سے ملک کا انتظامی ڈھانچہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ امن و امان کے مسائل، ٹیکس نظام کی پیچیدگیاں، غیر ضروری ڈاکومنٹیشن، کرپشن، رشوت، ادارہ جاتی ناہمواری، انتظامی سست روی، بجلی تیل کی بلند قیمتیں، روپے کی بے قدری، غیر یقینی پالیسی ماحول اور بار بار بدلتے ہوئے حکومتی فیصلے وہ عوامل ہیں جو ملکی و غیر ملکی سرمایہ کو بے یقینی کے اندھیرے میں دھکیل دیتے ہیں۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ جہاں ایک چھوٹے سے کاروباری کام کے لئے کئی کئی محکموں کے چکر لگانے پڑیں، جہاں ون ونڈو آپریشن کے دعوے صرف بیانات تک محدود ہوں، جہاں بجلی اور گیس مہنگی، ٹرانسپورٹیشن اور لاجسٹکس غیر منظم اور انتظامی امور غیر شفاف ہوں، وہاں دنیا کے مقابلے میں کم قیمت اور معیاری مصنوعات تیار کرنا ممکن ہی نہیں رہتا۔ اس لئے جب ہم برآمدات میں کمی کی شکایت کرتے ہیں تو ہمیں پہلے اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم نے برآمد کنندگان کیلئے واقعی آسانیاں پیدا کی ہیں یا ان کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے؟ آئے دن کمپنیوں کی بندش اور دوسرے ملکوں میں منتقلی خود اس کا جواب آپ ہے۔ حکومت کی بنیادی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ معاشی سرگرمیوں کے لئے ایسا ماحول پیدا کرے جو صنعت اور تجارت کو سہارا دے، نہ کہ ان کا گلا گھونٹے لیکن موجودہ صورتحال بتاتی ہے کہ حکومتی پالیسیاں تاحال اس سمت میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں لا سکیں۔ حکومت مسلسل اپنی کامیابیوں کے دعوے کرتی دکھائی دیتی ہے، معاشی استحکام کے نعرے لگائے جاتے ہیں، لیکن زمینی حقائق ان دعوؤں کی نفی کرتے ہیں۔
عوام، کاروباری طبقہ اور عالمی مالیاتی و تجارتی ادارے سب یہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت اب بھی مصنوعی سانسوں پر ہے اور بغیر بیرونی امداد کے چند ماہ بھی نہیں چل سکتی۔ ایسے میں بھلا تجارت میں توازن کیسے پیدا ہو اور معیشت میں کیسے استحکام آئے؟ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی معیشت دعوؤں سے نہیں بلکہ حقائق سے بہتر ہوتی ہے۔ جب تک پالیسیوں میں تسلسل نہ ہو، جب تک شفافیت نہ ہو، جب تک ادارے مضبوط نہ ہوں، جب تک کرپشن کا قلع قمع نہ کیا جائے اور جب تک حکومتی سمت واضح نہ ہو، تب تک معاشی بحالی کا سفر شروع ہی نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کا مسئلہ یہ نہیں کہ وسائل کم ہیں، بلکہ مسئلہ بدانتظامی، غلط حکمت عملی اور بے سمت ترجیحات ہیں۔ معاشی ماہرین مسلسل یہ کہتے آ رہے ہیں کہ معیشت میں رساؤ جاری ہے۔ حکومتی اخراجات بے تحاشا ہیں، ٹیکس وصولی ناکافی ہے، محصولات کا نظام غیر مؤثر ہے، توانائی کے شعبے میں سرکلر ڈیٹ مسلسل بڑھ رہا ہے اور کرپشن عروج پر ہے۔ یہ وہ شگاف ہیں جہاں سے مسلسل رساؤ جاری ہے۔ جب تک ان مین ہولز کو بند نہیں کیا جائے گا، معیشت کبھی مستحکم نہیں ہوسکتی، چاہے بیرونی دنیا سے کتنی ہی امداد کیوں نہ مل جائے۔
یہ بات ہمارے قومی و معاشی پالیسی سازوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قرضے وقتی اور عارضی سہارا تو دیتے ہیں لیکن قرض کی بنیاد پر کوئی معیشت مستقل بنیادوں پر نہیں سنورتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت خود احتسابی کی طرف آئے اور اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرے۔ ترقی و استحکام کے کھوکھلے دعوؤں سے زیادہ ضروری عملی اقدامات ہیں۔ صنعت کو سہولت، برآمدات کو مراعات، کاروبار کو آسانی، ٹیکس نظام کو سادگی، توانائی کے شعبے کو استحکام اور ادارہ جاتی اصلاحات وہ نکات ہیں جن کے بغیر تجارت اور معیشت دونوں خسارے سے نہیں نکل سکتے۔ اگر یہ اقدامات خلوص نیت سے کیے جائیں تو نہ صرف تجارتی خسارہ کم ہو سکتا ہے بلکہ مجموعی معاشی ڈھانچہ بھی آہستہ آہستہ بہتر ہو سکتا ہے۔ معیشت محض اعداد وشمار کا کھیل نہیں، بلکہ یہ اداروں کا استحکام، نظام کی شفافیت، پالیسیوں کا تسلسل اور حکومتی سنجیدگی سے جڑی ہوتی ہے۔ درست سمت میں ٹھوس اقدامات کے بغیر اب شاید آئی ایم ایف سے مالی سپورٹ اور مزید قرض ملنا بھی بند ہوجائے۔ اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ حکومت معاشی ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر سخت اصلاحات پر کام کرے اور سیاسی استحکام پر توجہ دے۔

