نئے نو آبادیاتی نظام کی ایک تصویر

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس،یوکرین جنگ کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ڈونباس میں آزاداقتصادی خطہ قائم کرنے پر اتفاق رائے ہوجائے تو اس جنگ کا اختتام ممکن ہوسکتاہے ۔ امریکی صدر نے خبردار کیا کہ جنگ بندی نہ ہونے کی صورت میں یہ تنازع تیسری عالمی جنگ کی صورت میں وسعت اختیار کرسکتاہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی میں مشکلات کی وجہ جغرافیائی تقسیم کی پیچیدگیاں ہیں جن پر اتفاقِ رائے میں دشواری پیش آرہی ہے۔

دوسری طرف اطلاعات کے مطابق یوکرین کے صدر زیلنکسی نے ڈونباس کی تقسیم یا اسے آزاد اقتصادی خطے کی حیثیت دینے کی تجویز کو مسترد کردیا ہے ۔ یوکرین کے صدر کے مطابق تقسیم یا کسی ایسی تجویز کو قبول نہیں کیا جائے گاجو یوکرین کی آزادی کے خلاف ہو۔ماہرین کے مطابق روس کی جانب سے ڈونباس کو آزاد اقتصادی خطے کے طورپر قبول کرلینا بھی محلِ نظر ہے تاہم یہ ناممکن نہیں ۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ ڈونباس کے روسی تسلط میں آئے ہوئے علاقوں کے حوالے سے امریکا کیا موقف اختیار کرتاہے ۔اگر ڈونباس کے ان شہروںکو روس کا حصہ تسلیم کرلیا گیا جن پر اس وقت روسی افواج قابض ہوچکی ہیں تو شاید روسی صدر پیوٹن بھی امریکی صدر کے ساتھ جنگ بندی کی تجویز پر اتفا ق کرلیں کیوںکہ اس طرح روس کا دیرینہ موقف اپنی جگہ قائم رہے گا کہ وہ اپنی سرحدوں پر کسی نیٹو اتحادی کا وجو د قبول نہیں کرسکتا۔تاہم امریکی صدر ڈونباس کے تمام خطے کو آزاداقتصادی مرکز قرار دلوانا چاہتے ہیں تو قرین ِقیاس یہی ہے کہ روس بھی اس تجویز کو مسترد کردے گا۔ تاہم اس صورت میں یہ سوال اپنی موجود رہے گا کہ آخر روس،یوکرین جنگ کا اختتام کیسے ہوگا؟کیا دنیا واقعی ایک تیسری عالمی جنگ کی جانب دوڑتی چلی جائے گی ؟کیا یہ سب کچھ اس کے باوجود ہوگا کہ انسان بزعمِ خود تہذیب و تمدن اور سائنسی و سماجی ترقی کے دورِ عروج میں ہے اور اس کے کمالات ارضِ خاکی سے بلند ہو کر خلاؤں میں زندگی کے نئے امکانات کھوجنے میں مصروف ہیں؟

غور کیاجائے توامریکی صدر ٹرمپ کی گفتگو سے صاف معلوم ہوتاہے کہ انھیں یوکرین کی آزادی ،روس کی شکست یا انسانی جانوں کے تحفظ سے زیادہ ان اقتصادی مفادات سے دل چسپی ہے جو یوکرین کی سرزمین پر کوئلے سمیت دیگر قدرتی معدنیات اور وسیع وعریض خطے پر پھیلی دولت سے جڑے ہوئے ہیں۔ دراصل یوکرین روس اور امریکا سمیت دیگر اتحادی ممالک کی اسی جغرافیائی سیاست کا شکار ہوا ہے جو سرد جنگ سے پہلے نوآبادیاتی نظام کی صورت میں مشرق اور افریقہ کا اپنی حرص ،لالچ اور معاشی مفادات کا نشانہ بناچکی ہے ۔مشرقی ممالک اور افریقہ پر نوآبادیاتی نظام کی صورت میں مغرب کا تسلط نہ تو تہذیب و تمدن کا کوئی مسئلہ تھا اور نہ ہی یہ محض قومی غلبے کی جدوجہد تھی بلکہ اس کی پشت پر دولت ،وسائل اور خدمات پر کنٹرول کی بے لگام خواہش اور دوسروں کو پیچھے چھوڑ کر زمین پر ”خدا”کہلاکر تسکین حاصل کرنے کی کوشش کارفرما تھی۔ ان سفلی خواہشات کو مغربی تہذیب اور فلسفیانہ علمیت کے پردے میں چھپایا گیا لیکن دنیا میں امن کے ساتھ جینے کے آرزو مند کمزور انسانوں کو مغرب کی ہمہ گیر یلغار کی وجہ سے قتلِ عام ،شہروں کی تباہی ،قدیم پیشوں کی موت اور وسائل سے محرومی سمیت بے پناہ مصائب و آلام اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت یوکرین کو اسی صورت حال کاسامنا ہے جو کبھی مشرقی ممالک اور افریقہ کے سادہ لوح انسانوں کو پیش آچکی ہے ۔ یوکرین سیاسی نہیں بلکہ اقتصادی بنیادوں پر جغرافیائی تقسیم کے خطرے کا سامنا کررہاہے۔اس کا اٹھارہ سے بیس فی صد رقبہ پہلے ہی روس کے قبضے میں ہے ۔ یہ وہی حصہ ہے جہاں گزشتہ ایک سے زائد عشرے میں خانہ جنگی برپا رہی ہے ۔

ڈونباس کے علاقے کو کشمیر کی مثال سے بھی سمجھا جاسکتاہے ۔کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت بالمقابل ہیں۔بھارت نے کشمیر کے ایک حصے پر قبضہ جمارکھاہے ۔تاہم ان دونوں خطوں میں مقاصد کے اعتبار سے فر ق ہے ۔ کشمیر پرپاکستان کے حق کی وجہ تاریخی، جغرافیائی اور اعتقادی ہیں ۔دین اور عقیدے کے ساتھ ساتھ جغرافیائی اسباب اور پانی جیسا قدرتی وسیلہ اس خطے میں پاک،بھارت تنازع کی وجہ ہے۔ ڈونباس پر روس کا دعویٰ جغرافیائی اور لسانی بنیادوںپر ہے ۔ ڈونباس کے اہم ترین شہروں پر روس قبضہ کرچکاہے اور ایک ریفرنڈم کے ذریعے مقامی آبادی کا اعتماد حاصل کرنے کا وہ دعوے دار بھی ہے ۔ اس خطے میں پائے جانے والے معدنی وسائل پرجو کہ یوکرین کی معیشت کا ایک بڑا حصہ ہیں، امریکا، یورپ اور روس کی جنگ جاری ہے ۔ اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی واضح کردیاہے کہ اگر اس خطے کو ”فری اکنامک زون ”تسلیم کرلیا جائے تو روس ،یوکرین جنگ بندہوسکتی ہے کیوں کہ دراصل امریکا اور یورپی ممالک یہاں بلواسطہ جنگ لڑ رہے ہیں ۔دورِ حاضر میں بلواسطہ جنگیں ”سیاسی طاقت ”بڑھانے یا اس کے اظہار کی ایک شکل ہیں اور ان جنگوں کابنیادی مقصد ہی دولت، معدنی وسائل اور اقتصادی اہمیت کے حامل مراکز اور اہم تجارتی گزرگاہوں پر تسلط ہے ۔ ڈونباس کو فری اکنامک زون قراردیے جائے نے بعد یہاں امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو بڑے پیمانے پر معدنیات اور تعمیرات کے ٹھیکے مل سکیں گے جبکہ قدرتی وسائل کی بندر بانٹ میں بڑی طاقتیں ساجھے داری کرلیں گی جبکہ خود یوکرین اپنا داخلی اختیار اور سیاسی کنٹرول کھودے گا۔یوکرین کی بنیادی کمزور ی دراصل اس کا کمزور دفاع تھا۔ یہی مناظر اس سے قبل عراق، شام، لیبیا،افغانستان اورسوڈان سمیت متعدد ممالک میں دیکھے جاچکے ہیں ۔یہ نئے نوآبادیاتی نظام کی محض ایک تصویر ہے۔

یوکرین کی صورت حال اس وقت عالم ِاسلام کے لیے ایک مثال ہے۔ کمزور دفاع کی وجہ سے عالم اسلام کے کئی خطے اس وقت براہ راست یا بلواسطہ جنگوں کی لپیٹ میں ہیں۔ بڑی طاقتیں بالواسطہ جنگوں کے ذریعے اپنے مفادات حاصل کررہی ہیں۔ مملکتِ خداداد پاکستان کو بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ فی الواقع بلواسطہ جنگوں نے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دھانے پر پہنچا دیاہے جس کے پہلو بہ پہلو نیا نوآبادیاتی نظام نئی حشرسامانیوں کے ساتھ وجود میںآرہاہے ۔ ایسے میں دفاع کے لیے حربی وسائل اور داخلی استحکام کے لیے امن و سلامتی کا قیام ضروری ہے جس کا راستہ عدل ہے ۔دنیا عدل و انصاف کی راہ اختیار کرتی تو جنگوں اور پراکسی وار کی ضرورت پیش ہی نہ آتی۔مسلم امہ کے قائدین کو تدبر،فہم و فراست اور دور اندیشی کی اشد ضرورت ہے۔