غزہ میں امن کی بحالی۔ امریکا ذمے داری پوری کرے

غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں سے تباہی بڑھ گئی، کئی علاقوں میں عمارتیں اور سڑکیں تباہ ہو گئیں۔ انسانی امدادی قافلے محدود رسائی کے باعث پھنس گئے، شہری شدید مشکلات کا شکار ہیں، اسپتالوں میں ادویہ اور ایندھن کی شدید قلت سے مریضوں کی حالت بگڑنے لگی۔پناہ گاہوں میں بھی گنجائش ختم ہونے لگی ہے، شہری مسلسل نقل مکانی پر مجبور ہیں، تباہ شدہ عمارتوں سے مزید لاشیں برآمد ہوئیں، ریسکیو ٹیمیں وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔ غذائی قلت سنگین صورت اختیار کر گئی، خاندان بنیادی ضرورتوں سے محروم رہ گئے، سرحدی گزرگاہوں کی بندش برقرار ہے۔ زخمیوں کی منتقلی ناقابل یقین حد تک مشکل ہو گئی، صورتحال انتہائی تشویشناک ہونے کے باعث اقوام متحدہ نے معاہدے پر مکمل عملدرآمد کی اپیل کر دی۔

دنیا کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسی مثال ملے جس میں کسی ریاست نے مسلمہ عالمی اصولوں، انسانی قوانین، اخلاقی اقدار اور بین الاقوامی معاہدوں کی اس قدر کھلی خلاف ورزی کی ہو جس طرح اسرائیل کھلے بندوں پوری دنیا کے دیکھتے بھالتے کر رہا ہے۔ یہ بھیانک حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں رہی۔ دنیا بھر کے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل نہ کسی قانون کا پابند ہے، نہ کسی اخلاقی حد کا قائل اور نہ ہی کسی عالمی ادارے کے فیصلے کو اہمیت دیتا ہے لیکن اصل المیہ یہ ہے کہ اس ظلم، سفاکی، جارحیت اور مسلسل قتل عام کے باوجود دنیا میں کوئی طاقت ایسی موجود نہیں جو اسرائیل کے ہاتھ کو روک سکے یا اسے انسانیت سوز اقدامات سے باز رکھ سکے۔دو ماہ پہلے جب مسلسل دو سال سے زائد عرصے کی تباہ کن جارحیت، قتل عام، بربادی اور غزہ کی مکمل تباہی کے بعد عالمی دباو ٔبڑھا تو اسرائیل نے ایک جنگ بندی معاہدہ کیا۔ دنیا نے سمجھا کہ شاید اب خون کی یہ دھار رکے گی، مگر جو لوگ اسرائیل کی نفسیات کو جانتے تھے، انہیں اندازہ تھا کہ یہ امن محض ایک وقفہ ہے، سانس لینے کا عارضی وقفہ، اسرائیل اپنی عادت سے باز نہیں آئے گا اور ظلم کا سلسلہ دوبارہ شروع کردے گا۔ وہی ہوا۔ ابھی معاہدے کی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ اسرائیل نے ایک بار پھر جھوٹے بہانوں کی آڑ لے کر قتل عام کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا۔ اسرائیل کی مثال اس خون آشام بھیڑیے جیسی ہے جو میمنے پر حملہ کرنے کیلئے کوئی بھی جھوٹا بہانہ تراش لیتا ہے۔ یہی کچھ اسرائیل نے جنگ بندی کے اس معاہدے کے ساتھ کیا جسے امریکا، مصر اور قطر کی ضمانتوں کے بعد بڑی مشکل سے طے کیا گیا تھا۔

پوری دنیا کے سامنے طے پانے والے امن معاہدے کے تحت اسرائیل کو بمباری روکنا تھی، فلسطینی شہریوں کو محفوظ راستے دینا تھا، امدادی قافلوں کو بلا روک ٹوک غزہ میں داخل ہونے دینا تھا اور بے گھر فلسطینیوں کو واپس اپنے علاقوں میں پہنچنے کیلئے سہولت فراہم کرنا تھی لیکن ہوا اس کے برعکس۔ اسرائیل نے بے شرمی کی حد کرتے ہوئے معاہدے کی کسی شق کی کوئی پروا نہیں کی، چنانچہ گزشتہ دو ماہ میں اسرائیل نے معاہدے کو سات سو سے زائد بار توڑا۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اسرائیل کسی بھی ضابطے یا معاہدے کی پابندی کیلئے تیار نہیں۔ ایک بار پھر رہائشی عمارتیں، اسپتال، اسکول، پناہ گاہیں، امدادی مراکزسب بالکل اسی طرح اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں، جیسے معاہدے سے پہلے بن رہے تھے۔ شہری علاقوں پر بمباری، گھروں کو بارود سے اڑانا، اسپتالوں کا محاصرہ اور امدادی قافلوں کو روکنا یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دنیا سمجھ رہی تھی کہ کم از کم جنگ بندی نے قتل و غارت کا سلسلہ کچھ عرصے کیلئے روک دیا ہے۔زمینی صورتحال پر نگاہ ڈالیں تو اعداد و شمار کسی بھی درد مند دل انسان کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق دو ماہ میں 386 فلسطینی شہید اور 980 سے زائد زخمی ہوئے۔ دسیوں بچی کھچی عمارتیں، سڑکیں، بازارتباہ ہوئے۔ امدادی قافلے جن کی روزانہ 600 ٹرک آمد متعین تھی، وہ صرف 226 ٹرک پہنچ سکے۔ ایندھن، پانی، غذا اور دواؤں کی شدید کمی نے غزہ کو ایک بار پھر سنگین انسانی تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ شہر کی 80 فیصد پانی اور نکاسی آب کی لائنیں تباہ ہوچکی ہیں۔ ہزاروں ٹن خطرناک ملبہ، دھماکا خیز مواد اور زہریلا فضلہ سمندر اور زیرزمین پانی کو آلودہ کر رہا ہے۔

یہ تو صرف غزہ کی بات ہے، دوسری جانب مغربی کنارے میں بھی اسرائیلی فوج کا ظلم و استبداد پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔ گھروں پر چھاپے، بچوں اور خواتین کی گرفتاریاں، مسجدِ ابراہیمی جیسے مقدس مقام پر یلغار اور اسے یہودیانے کی کوششیں یہ سب کچھ اس بات کی گواہی ہے کہ اسرائیل صرف غزہ ہی نہیں، پورے فلسطین کو دہشت، خوف اور جبری قبضے کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق بدل دینا چاہتا ہے۔ معاہدے کے تحت جن فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا، انہیں دوبارہ گرفتار کرنا، لوگوں کو گھروں سے نکالنا، ان کی املاک ضبط کرنا یہ سب دھڑلے سے جاری ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا فلسطینی انسان نہیں ہیں؟ کیا ان کے خون کی کوئی قیمت نہیں؟ کیا ان کی جان، عزت، گھر، زمین، حقوق سب غیر اہم ہیں؟ ایسا لگتا ہے جیسے فلسطینیوں کی نسل کشی ایک معمول کا واقعہ ہو جو دنیا بے حسی کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔

یہ امر واضح ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ امریکی صدر کی ضمانت پر ہوا تھا، مگر اسرائیل نے ان کے وعدوں کو بھی کوئی اہمیت نہ دی۔ یہ امریکا کیلئے بھی کھلا چیلنج ہے کہ اس کا حلیف اور لے پالک اس کی ضمانت اور اس کی ساکھ کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ امریکا، مصر اور قطرتینوں ضامن ممالک کو اس صورتحال میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا مشترکہ طور پر ایک مضبوط فیصلہ کرے۔ اگر اسرائیل کو نہ روکا گیا تو ایک معمولی چنگاری پورے خطے کو ایک ایسے آتش فشاں میں تبدیل کر سکتی ہے جس کا لاوا صرف مشرقِ وسطیٰ نہیں، پوری دنیا کو متاثر کرے گا۔ فلسطینی مزاحمت اگر دوبارہ جوابی کارروائی پر مجبور ہوئی تو اس جنگ کے نتائج انتہائی بھیانک ہوں گے۔ یہ ایک خطے کا مسئلہ نہیں، یہ انسانیت کی بقا اور عالمی امن کا سوال ہے۔دنیا کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ انصاف، انسانیت اور قانون کے ساتھ کھڑی ہوگی، یا پھر طاقت، جبر اور ظلم کے سامنے بدستور منقار زیر پر ہوگی۔ امریکا کو بھی اس مرحلے پر یہ زمینی حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ اسرائیل کو کھلی چھوٹ دینا نہ صرف خطے بلکہ خود امریکا کی ساکھ کے لئے بھی خطرناک ہے۔ امریکا نے آج اپنی ذمے داریاں سنجیدگی سے پوری نہ کیں تو کل حالات سنبھالنا اس کیلئے مشکل ہوجائے گا۔