رفح کی سرنگوں میں محصور نوجوان اور انسانیت کا ضمیر

جنوبی غزہ میں سرنگوں میں موجود حماس مجاہدین کو اسرائیلی فوج نے مکمل گھیرے میں لے لیا، مجاہدین کی جانب سے شدید ترین مزاحمت کی جارہی ہے جس میں درجنوں کی شہادت کی اطلاعات ہیں جب کہ ثالث ممالک کی جانب سے محفوظ راستے کے لئے ہونے والے مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہوگئے ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے 40سے زائد حماس مجایدین شہید کرنے کا دعوی کیا ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی سکیورٹی اداروں نے ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد تصدیق کی ہے کہ رفح کے محلے جنینہ میں شہید جنوبی غزہ میں سرنگوں میں موجود حماس مجاہدین کو اسرائیلی فوج نے مکمل گھیرے میں لے لیا، مجاہدین کی جانب سے شدید ترین مزاحمت کے بعد درجنوں کی شہادت کی اطلاعات ہیں ۔ اسرائیلی سکیورٹی اداروں نے ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد تصدیق کی ہے کہ رفح کے محلے جنینہ میںشہید ہونے والے حماس کے تین مجاہدین دراصل بریگیڈ کمانڈر، نائب کمانڈر اور سرنگ یونٹ کے سربراہ تھے۔

دنیا کے مظلوم ترین شہر غزہ پر اسرائیل کی مسلسل وحشیانہ بمباری اور سفاکانہ جارحیت تقریباً دو سال جاری رہی۔ درمیان میں عارضی جنگ بندی کے چند دنوں کے مختصر وقفے کے علاوہ اس تمام عرصے میں اسرائیل نے امریکا، برطانیہ سمیت اپنے تمام عالمی طاغوتی سرپرستوں کی مکمل اعانت اور حمایت سے غزہ کو فضا، زمین اور سمندر سے یکطرفہ طور پر آتش ، آہن اور ہلاکت خیز بارود کا نشانہ بنائے رکھا اور وحشیت، بہیمیت، بے دردی، سفاکی، بے رحمی اور درندگی کاکوئی حربہ ایسا نہیں تھا جو غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر نہ آزمایا گیا ہو۔ اس عرصے میں مسلسل حملوں سے غزہ کو مکمل طور پر تہس نہس کرکے رکھ دیا گیا۔ انسانیت دشمن صہیونی ریاست فلسطینی مسلمانوں پر ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کیا۔ اس درندے کے دائیں بائیں بھی بظاہر انسانیت کا چولا پہنے درندے ہی کھڑے تھے، جو نہایت ڈھٹائی اور سفاکی سے اس درندے کی حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں اور اس وقت بھی کر رہے ہیں۔ ظلم و تعدی کی تمام حدود کراس کرنے کے باوجود اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کے عزم کو توڑنے میں ناکام رہا اور اس پر دنیا بھر سے نفرین اور پھٹکار پڑنے لگی تو اس کے سرپرست امریکا کے بڑ بولے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نام نہاد امن منصوبہ پیش کرکے صہیونی ریاست کو ریسکیو کرنے کی کوشش کی اور مذاکرات کے دوران دھونس دھمکی کے ذریعے اسرائیلی شرائط کو بالادست رکھنے کی کوشش کی جس کے تحت اسرائیلی فوج کو غزہ کے نصف کے قریب پر تعینات رہنے اورمحدود کارروائیاں جاری رکھنے کی اجازت دی گئی۔ یہ شرط انصاف کے اصولوں کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ فلسطینی عوام کے بنیادی مطالبے سے ہم آہنگ نہیں تھی تاہم فلسطینی مقاومتی تنظیموں نے مذاکرات کی کامیابی کے لیے اپنی نیک نیتی کے ثبوت کے طور پر اس پر آمادگی ظاہر کی۔ توقع یہ تھی کہ صہیونی ریاست اسرائیل غزہ میں جنگ بندی کی عالمی برادری کی خواہش کا احترام کرے گی اور غزہ میں خون خرابے سے باز آجائے گی۔ مگر افسوس کہ صہیونی بھیڑیا خون خواری کی اپنی جبلت سے باز نہیں آیا،وہ بہانے بہانے سے ییلو لائن کے قریب کے علاقوں میں اپنے گھروں کے کھنڈرات کی طرف واپس آنے والے فلسطینیوں کو مار رہا ہے، جنگ بندی کے بعد سے اب تک وہ پانچ سو سے زائد فلسطینیوں کو شہید کرچکا ہے۔

ییلو لائن کے اندر رفح کی سرنگوں میں پھنسے ہوئے وہ سینکڑوں فلسطینی نوجوان اس کا خاص ہدف ہیں جو جنگ بندی سے پہلے رفح کی سرنگوں میں موجود تھے۔ اصولی طور پر جنگ بندی کے بعد ان نوجوانوں کو ییلو لائن کے اس پار جانے کی اجازت دی جانی چاہیے تھی مگر اسرائیل نے سراسر ناجائز طور پر ان سے ہتھیار پھینکنے اور گرفتاری دینے کا مطالبہ کیا ، یہ مطالبہ جنگ بندی کی روح اور بین الاقوامی جنگی قوانین کے خلاف ہے۔ اب ہونا یہ چاہیے کہ عالمی قوتیں اور غزہ امن منصوبے کے ضامن ممالک اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتے اور اسرائیل پر رفح میں محصور فلسطینی نوجوانوں کو سیف پیسیج دینے کے لیے دباؤ ڈالتے مگر صد حیف کہ صہیونی دہشت گرد ریاست کی فہمائش کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ اسرائیل نے سینکڑوں کی تعداد میں فلسطینی نوجوانوں کو جو جنگ کے دوران اپنی حفاظت اور دفاع کے لیے رفح کی سرنگوں میں موجود تھے، ان سرنگوں کے اندر بھوک اور پیاس سے مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے، ان میں سے جو افراد سرنگوں سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے، جنیوا کنونشن کے مطابق محاصرے میں آئے ہوئے افراد کو اس طرح سے مارنا عین حالت جنگ میں بھی جائز نہیں ہے چہ جائیکہ جنگ بندی کے بعد لوگوں کے ساتھ اس طرح کا بہیمانہ سلوک روا رکھا جائے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جنگی قوانین اور انسانی حقوق کی اس صریح خلاف ورزی اور محصور افراد کے ساتھ اس انتہائی غیر انسانی سلوک پر عالمی سطح پر بھی کوئی آواز بلند نہیں ہورہی۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ کی جنگ میںوہ تمام کردار بری طرح بے نقاب اور پوری طرح ننگے ہوگئے، جو سوتے اور جاگتے ہمہ وقت انسانیت کا نعرہ لگاتے نہیں تھکتے اور اسی بنیاد پر دنیا میں دوسروں کو مطعون اور ملزم ٹھہراتے ہیں، وہ ادارے بھی ناکارہ اور بے کار ثابت ہوئے جن کا مقصد وجود ہی جنگوں کو روکنا اور دنیا میں ہر صورت قیام امن ہے۔ چنانچہ غزہ کی سرنگوں میں محصور سینکڑوں نوجوانوں کے زندہ رہنے کے بنیادی انسانی حق کی حمایت میں کہیں سے کوئی آواز اٹھتی سنائی نہیں دے رہی۔ انسانیت شرمندہ شرمندہ دکھائی دے رہی ہے۔

عالمی قوتوں سے کیا گلہ؟ یہاں امت مسلمہ کا کردار بھی کچھ کم شرم ناک نہیں ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ دنیا کے ستاون اسلامی ممالک کے حکمرانوں میں کوئی ایک بھی ایسا دکھائی نہیں دیتا جس کو غزہ کی سرنگوں میں محصور امت کے بیٹوں کی کوئی فکر ہو۔ فلسطینی مجاہدین نے تو ارض مقدس کی حفاظت اور دفاع کا اپنا فرض نہایت بہادری، جرات اور شجاعت سے نبھایا ہے، کیا امت مسلمہ کو اپنی ذمے داریوں اور فرض کا احساس ہے؟ فلسطینی جانباز اپنی بساط سے بڑھ کر ارض مقدس کے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں، اس مشکل ترین وقت میں مسلم امہ کی طرف سے یہ لفظی اور اخلاقی حمایت بھی ان کیلئے بڑی ڈھارس اور مدد ثابت ہوسکتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پورے عالم اسلام کو غزہ کی سرنگوں میں پھنسے مجاہدین کی جانوں کی حفاظت کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے اور فلسطینی عوام پر اسرائیلی مظالم کے خلاف عالمی سطح پر پیدا ہونے والی بیداری کی لہر کو تیز کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔