اقوام متحدہ کے 80سال۔ ایک طائرانہ جائزہ

اقوام متحدہ کا 80واں یوم تاسیس جمعہ 24اکتوبر کو منایا گیا۔ دوسری جنگِ عظیم (1939۔1945) کے بعد عالمی امن کے قیام، تنازعات کے پرامن حل، انسانی حقوق کے تحفظ، بین الاقوامی تعاون کے فروغ اور معاشی و سماجی ترقی کو یقینی بنانے کے منشور کے ساتھ قائم کیے جانے والے اس عالمی ادارے نے اپنے قیام کے مقاصد اور اہداف کے حصول میں کتنی کامیابی حاصل کی اور آج یہ ادارہ کہاں کھڑا ہے؟ اس پر عالمی میڈیا میں مختلف تجزیے کیے جارہے ہیں۔

یہاں اس پس منظر کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے جس میں اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کے قیام کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد (1919ء ) لیگ آف نیشنز کے نام سے ایک بین الاقوامی تنظیم قائم کی گئی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ مستقبل میں جنگوں کو روکا جائے اور عالمی تنازعات کو بات چیت سے حل کیا جائے لیکن یہ تنظیم اپنے مقاصد میں ناکام رہی کیونکہ اس کے پاس عملی قوت یا فوجی اختیار نہیں تھااور امریکا جیسے بڑے ملک نے اس میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ جرمنی، اٹلی، اور جاپان جیسے ممالک نے اس کی قراردادوں کو نظر انداز کیا۔ نتیجتاً، دنیا دوسری جنگِ عظیم میں داخل ہوگئی۔ 1939ء سے 1945تک جاری رہنے والی اس جنگ میں تقریباً 7کروڑ انسان مارے گئے۔ یورپ، جاپان، اور دیگر کئی ممالک برباد ہوگئے۔اس جنگ نے دنیا کو یہ احساس دلایا کہ اگر عالمی سطح پر امن کے مستقل ادارے کی تشکیل نہ کی گئی تو انسانیت دوبارہ تباہی کی طرف جا سکتی ہے۔

چنانچہ 1941ء میں امریکی صدرروزویلٹ اور برطانوی وزیراعظم چرچل نے” اٹلانٹک چارٹر” جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ جنگ کے بعد ایک ایسا عالمی نظام قائم کیا جائے گا جو امن، انصاف اور خودارادیت پر مبنی ہو۔ 1942ء میں اقوام متحدہ کے قیام کی قرار داد پر 26 ممالک نے دستخط کیے ۔ 1944ء کوواشنگٹن میں اقوام متحدہ کے بنیادی خاکے پر کام ہوا اور 1945ء میں سان فرانسسکو کانفرنس میں 50 ممالک کے نمائندے جمع ہوئے اوراقوام متحدہ کا چارٹرتیار کیا گیا۔ 24 اکتوبر 1945ء کو جب پانچ بڑی طاقتوں (امریکا، روس، برطانیہ، چین، فرانس) سمیت زیادہ تر ممالک نے چارٹر کی توثیق کی تو اقوامِ متحدہ باضابطہ طور پر وجود میں آگئی۔ اس کا ایجنڈا یہ بتایا گیا کہ دنیا میں جنگوں کو روکا جائے، تنازعات کو پرامن طور پر حل کیا جائے اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیا جائے۔ دنیا کو جنگوں سے بچانے کے لیے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ”سلامتی کونسل” کی تشکیل کی گئی جس کی ذمہ داری مختلف خطوں میں پیش آنے والے تنازعات اور جنگوں کے خطرات کا فوری طور پر نوٹس لے کر ان کا پر امن حل نکالنا طے پائی۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں دنیا کے تمام انسانوں کے لیے برابری کے حقوق تسلیم کیے گئے اور ہر قوم کو اپنی سرزمین پر آزادی و خودمختاری کے ساتھ جینے کا حق (حق خود ارادیت) دینے کا وعدہ کیا گیا۔ دیرینہ عالمی تنازعات کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق انصاف کے اصولوں کے تحت حل کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا ۔

آج 8دہائیاں گزرجانے کے بعد اگر دیکھا جائے تو اقوام متحدہ کو جہاں اپنے مقاصد میں کچھ جزوی کامیابیاں ملی ہیں، مثلا ًکہاجاتا ہے کہ اقوام متحدہ کے قیام کی وجہ سے دنیا میں تیسری عالمی جنگ کا خطرہ ٹل گیا، دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا دو طاقتوں (امریکا اور سوویت یونین) میں تقسیم ہوگئی۔ دونوں میں کئی بار کشیدگی بڑھی (جیسے کیوبا میزائل بحران، کوریا، ویتنام وغیرہ) لیکن اقوام متحدہ کے ادارے کی موجودی کے باعث ان کے درمیان براہِ راست جنگ نہیں ہوئی۔ علاوہ ازیںاقوام متحدہ نے مختلف ممالک میں امن فوجیں بھیج کر خانہ جنگیوں کو روکنے کی کوشش کی۔ مثلاً کانگو ، بوسنیا، کویت (1991ء )، جنوبی سوڈان، لبنان وغیرہ۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے قیام کے بعد” حق خودارادیت” کے اصول کے تحت درجنوں افریقی اور ایشیائی ممالک نے آزادی حاصل کی۔ اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں نے تعلیم،صحت،رفاہ عامہ،مہاجرین کی امداد اور ہنگامی امداد کے شعبوں میں نمایاں کام کیا اور اس وقت بھی کر رہے ہیں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں آج بھی مظلوم اور محکوم اقوام کے حق میں آواز بلند ہوتی ہے جوکہ بجائے خود ایک مثبت پہلو ہے تاہم دوسری جانب یہ تلخ سچائی بھی دنیا کے سامنے ہے کہ 80برس کی عمر پوری ہونے کے موقع پر اقوام متحدہ کئی اہم عالمی تنازعات اور مسائل کے حل کے سلسلے میں آج بھی اسی مقام پر کھڑی ہے جہاں اپنے قیام کے وقت موجود تھی۔ آج دنیا کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ ارض فلسطین پر غاصب و قابض صہیونی فوج کی جانب سے فرزندان زمین کی نسل کشی کا ہے جو اقوام متحدہ کی درجنوں قرار دادوں اور اس کے ذیلی اداروں کی سینکڑوں رپورٹوں اور انتباہات کے باوجود جاری ہے۔ فلسطین کا تنازع پہلے دن سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں موجود رہا ہے اور یہ اس ادارے کی ناکامی کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اس کے باوجود وہ اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے۔ حد یہ ہے کہ عالمی ادارہ صہیونی فوج کی جانب سے خود اپنے امدادی کارکنوں کے قتل عام اور اپنے ذیلی ادارے انروا پر براہ راست حملوں کے جواب میں بھی بدمعاش ریاست اسرائیل کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔ آج غزہ میں جنگ بندی اور مستقبل کے انتظامات سے متعلق مذاکرات میں بھی اقوام متحدہ کہیں نظر نہیں آرہی۔ اسی طرح جنوبی ایشیا کے ڈیڑھ ارب انسانوں کی زندگیوں پر براہ راست اثر انداز ہونے والا مسئلہ کشمیر بھی اقوام متحدہ کا تقریباً ہم عمر ہے اور یہ بھی اس کے ایجنڈے پر 8عشروں سے موجود ہے۔ اقوام متحدہ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے میں بھی ناکام ہے۔ اس وقت دنیا کے سامنے دوسرا بڑا مسئلہ یوکرین کی جنگ کا ہے جہاں ہزاروں لوگ مارے جارہے ہیں۔ بدقسمتی سے اس انسانی المیے کے حل میں بھی ہمیں اقوام متحدہ کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔

دنیا میں یہ تاثر عام ہے کہ اقوام متحدہ کی ساخت ہی ایسی رکھی گئی ہے کہ یہ چند بڑی عالمی طاقتوں کی مرضی کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرسکتی۔ مذکورہ قوتیں جب چاہتی ہیں تو جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمورکی مذہبی اقلیتوں کو” حق خودارادیت ” دلانے کے لیے راتوں رات فیصلے کیے جاتے ہیں اور ان فیصلوں کو نافذ بھی کردیا جاتا ہے اور جب نہیں چاہتیں تو فلسطین اور کشمیر کے کروڑوں انسانوں کو اپنے حق خود ارادیت کے حصول کے لیے خون کے دریا عبور کرنے پڑتے ہیں۔ اگر اقوام متحدہ کو حقیقی معنوں میں عالمی امن و استحکام کا ضامن ادارہ بنانا ہے تو اس کی ساخت اور طریقہ کار میں جوہری تبدیلیاںلانی ہوں گی اور اس عالمی ادارے کو چند مخصوص طاقتوں کے ناجائز دباؤ اور اثرو رسوخ سے آزاد کرانا ہوگا۔