فتنہ و فساد کے عوامل و اسباب کی اصلاح بھی کی جائے

ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستان اپنی تاریخ کی سب سے بڑی اور طویل مہم یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اہم ترین مرحلے میں ہے اور اسے فتنہ ٔ خوارج اور فتنۂ ہندوستان کے خلاف اہم کامیابیاں حاصل ہوچکی ہیں، ملک میں داخلی طورپر فسادبرپا کرنے والے عناصر کو مزید بے لگا م نہیں چھوڑا جاسکتا کیوں کہ یہ ڈھیل او ر لاپروائی امن کی خاطر کی گئی تمام تر جدو جہد پر پانی پھیرنے کے متراف ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کی اہم ترین قوتوں نے ملک میں فتنہ، انتشار اور فساد پھیلانے والے گروہوں کی مکمل سرکوبی کا فیصلہ کرلیا ہے اوراسی ذیل میں وفاقی کابینہ نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی کی باضابطہ منظوری دے دی ہے، جس کے بعد اس مذہبی سیاسی جماعت کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت کالعدم قرار دینے کی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔

حکومتِ پنجاب کی رپورٹ اور وفاقی وزارتِ داخلہ کی پیش کردہ دستاویزات کے مطابق، 2016 سے قائم یہ تنظیم ملک بھر میں شرانگیزی اور پرتشدد سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے، جس کے نتیجے میں سکیورٹی اہلکار شہید و زخمی ہوئے، شہری مارے گئے اور سرکاری و نجی املاک کو شدید نقصان پہنچا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس پالیسی کو روبہ عمل لانے کے لیے ایک سخت اور غیر لچک دار ریاستی عزم ناگزیر ہے۔ ٹی ایل پی پر پابندی کے اس فیصلے کا حتمی دارومدار سپریم کورٹ کی توثیق پر ہے، جسے یقینی بنانے کے لیے ٹھوس شواہد کی فراہمی اور قانونی موشگافیوں پر عبور ضروری ہے۔ ٹی ایل پی پریہ پابندی دراصل 2021 میں دی گئی ضمانتوں سے روگردانی اور ملک میں تشدد کے فروغ کا نتیجہ ہے، جس کے بعد ریاستی اداروں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ تشدد کا راستہ اپنانے والوں کو مزید سیاسی حقوق نہیں دیے جا سکتے اور ریاست کو اب”ریاست”بن کر سامنے آنا ہوگا۔

تحریک لبیک پاکستان کے حوالے سے سامنے آنے والی اطلاعات اور شواہد کی روشنی میں اس جماعت پر پابندی کا حکومتی فیصلہ ایک ناگزیر امر سمجھا جاسکتا ہے مگر ملک میں امن و امان کی مکمل بحالی کے لیے یہ صرف ایک قدم ہے۔ پاکستان میں امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ مذہبی شدت پسندی کو شمار کیا جاتاہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ سیاسی تشدد، لسانی گروہ بندیوں اورقومیتوں کی بنیاد پر قتل و غارت گری اور منظم جرائم پیشہ گروہ بھی امن و سلامتی کے بڑے دشمن ہیں۔ سماجی جرائم میں ملوث بااثر طبقات اور ان کی سرپرستی میں کام کرنے والے لٹیرے، ڈاکو اور بھتہ خور بھی اس فہرست کا حصہ ہیں۔ یہ تمام عناصر ریاستی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں اور شہریوں کی زندگی کو اجیرن بناتے ہیں۔ نظم و نسق کی اصلاح کے لیے شریعت کا اصول عدل ہے، جو ہر قسم کے ظلم و تشدد اور فساد فی الارض کی سختی سے ممانعت کرتا ہے، خواہ اس کا محرک مذہب ہو، سیاست ہو، زبان ہو یا محض ذاتی مفاد ہو۔ لہٰذا، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت مذہبی جماعتوں کے علاوہ ہر اس مسلح جتھے اور گروہ کے خلاف بھی سخت ترین، منظم اور بلا امتیاز کارروائی کرے جو ملک میں دہشت، قبضہ، بھتہ خوری اور قتل و غارت گری میں ملوث ہے۔

اس تمام تر صورتِ حال میں، جرائم اور تشدد کو پروان چڑھانے میں ادارے کے اندر موجود کرپٹ عناصر اور بڑے مجرموں کے پشت پناہوں کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ لوگ قانون کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق ملک میں انصاف کی فراہمی کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے تھانہ اور کچہری کے نظا م کی اصلاح بھی انتہائی ضروری ہے۔ اس عمل کے لیے قانون سازی بھی درکار ہے اور اس کے ساتھ ہی موجودہ قوانین کے مطابق عدلیہ میں موجود سیاسی یا کرپٹ ججوں کا احتساب بھی لازم ہے جنھوں نے ماضی میں فتنہ پرور جتھوں کی پشت پناہی کی، ریاست کو بغیر کسی لچک کے ان کے خلاف ٹھوس شواہد پر مبنی قانونی کارروائی کرنی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی بھی فرد امن ِ عامہ کوتباہ کرنے یا ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی جسارت نہ کر سکے۔ یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ جب تک امن و سلامتی کے دشمنوں، ریاست کے باغیوں، فتنہ و فساد پھیلانے والے مراکز اور لوٹ مار میں ملوث عناصر کومہیا ہونے والے کاندھوں اور دہشت گردوں کے اندرونی سہاروں کو ختم نہیں کیا جاتا، سماج دشمن گروہوں اورباہر کے جتھوں کا خاتمہ ایک مشکل اور ناپائیدار عمل رہے گا۔ یہ ایک بنیادی فطری اور منطقی امر ہے کہ کسی مرض کے خاتمے کے لیے اس کے عوامل و اسباب کی اصلاح بھی ضروری ہے۔ اسی طرح نظام کو درپیش اندرونی خطرے کا بھی احتساب ناگزیر ہے کیونکہ ریاست کی صفوں میں موجود یہ فسادی عناصر درحقیقت ملک میں جرائم کو فروغ دینے کا سب سے بڑا سبب ہیں۔

ہم ان سطور میں پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ فتنہ ٔ و فساد کے خاتمے کے لیے محض عسکری قوت یا ریاست کی طاقت کا استعمال ہی واحد حل نہیں ہے بلکہ ملک کو تشدد، لاقانونیت اور انتشار سے پاک کرنے اور مستقل امن کے قیام کے لیے نظریاتی محاذ پر بھی کام کرنا ضروری ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ریاست اب کسی بھی قسم کی انتہا پسندی کو برداشت نہیں کرے گی، چاہے وہ نو مئی کے واقعات کی صورت میں ہو یا پرتشدد مذہبی مظاہروں کی شکل میں۔ ملک میں اسلحہ کلچر کے خاتمے کی بات اب چل نکلی ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے غیر قانونی اسلحہ ڈیلروں کے خلاف کارروائی، اسلحہ لائسنسوں کے اجرا پر پابندی اور شدت پسند تنظیموںکی مالی معاونت کی فہرست سازی کے اقدامات ایک درست سمت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ تاہم اس عزم کو پائیدار بنانے کے لیے، ان فیک نیوز اور نفرت انگیز تقاریر پھیلانے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی ضرورت ہے جو شدت پسندی کا بیج بوتے ہیںاور عوامی سطح پر ریاست کے خلاف ذہن سازی کاخطرنا ک عمل انجام دیتے ہیں۔ یہ تمام امور منصفانہ انداز ہی میں انجام دیے جانے چاہئیں۔ ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر منڈلاتے خطرات، تشدد اور تخریب کا سامان کرنے والے نظریاتی فتنے اور خوارج کی سرگرمیوں سمیت امن وسلامتی کو درپیش دیگر مسائل کے تناظر میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ متشدد تنظیموں پر پابندی ایک ناگزیر ریاستی اقدام ہے جو دیر آید درست آید کے مصداق ہے۔ مذہب، سیاست، زبان یا جرائم کی آڑ میں مسلح جتھے بنا کر ملک میں قتل و غارت گری پھیلا نے والے تمام عناصر کو درست راہ دکھانا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں زندگی کے مسائل کو اسلامی شریعت کے اصولوں کی روشنی میں حل کرنے اور مستند اہلِ علم اور فکر و نظر رکھنے والے علماء کرام کے کردار کو زیادہ فعال کرنا ہوگا۔ اب ملک میں عدل اور قانون کی بالادستی، یکساں انصاف اور ریاست کی غیر متزلزل رٹ کا قیام ہونا چاہیے۔ یہی اس نئے عہد کا سنگ بنیاد ہوگا جس میں ملک محفوظ اور مستحکم ہوسکے گا۔