قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں پاکستان اور افغانستان فوری جنگ بندی پر راضی ہوگئے۔ دونوں ممالک نے آئندہ چند دنوں میں مزید ملاقاتیں کرنے اور امن و استحکام کیلئے مستقل مکینزم بنانے پر بھی اتفاق کیا۔ قطری وزارت خارجہ کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی خطے میں پائیدار امن کے قیام کی مضبوط بنیاد فراہم کرے گی۔ امید ہے جنگ بندی دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی کا خاتمہ کرے گی۔ واضح رہے کہ قطری انٹیلی جنس چیف عبداللہ بن محمد الخلیفہ کی میزبانی میں مذاکرات کا پہلا دور دوحہ میں ہوا تھا جس میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیر دفاع خواجہ آصف نے کی، افغان وفد کی سربراہی وزیر دفاع ملا محمد یعقوب نے کی، جبکہ ترک انٹیلی جنس کے سربراہ ابراہیم قالن بھی موجود تھے۔
کئی ماہ سے جاری شدید تناؤ، کشیدگی اور سرحدی جھڑپوں کے بعد بالآخر وہ وقت آگیا جس کی دعا ہر با شعور اور امن پسند شخص کر رہا تھا۔ نائب وزیراعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے اس پیش رفت کو درست سمت میں پہلا مثبت قدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ امن دونوں ملکوں اور پورے خطے کے مفاد میں ہے۔ یہ اتفاقِ رائے ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گزشتہ کئی مہینوں کے دوران دونوں ممالک کے تعلقات تاریخ کی بدترین سطح پر پہنچ گئے تھے۔ افغانستان سے دہشت گردوں کی جانب سے مسلسل حملوں اور پاک افغان سرحد پر جھڑپوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا، تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوئیں اور دونوں ممالک کی فضا پر باقاعدہ جنگ اور شدید خونریزی کے لہو رنگ بادل چھا گئے۔ ایسے میں قطر اور ترکیہ کی جانب سے ثالثی کی پیش کش کسی نعمت سے کم نہیں تھی، چنانچہ ان کی طرف سے ثالثی کی پیشکش پر پاکستان نے جو شروع سے ہی امن کا خواہاں ہے، بلا پس و پیش شرکت کی ہامی بھری اور دوحہ مذاکرات میں وزیرِ دفاع خواجہ آصف کی قیادت میں وفد بھیجا، جبکہ افغان وفد کی سربراہی وزیرِ دفاع ملا محمد یعقوب نے کی اور ان کے ہمراہ افغان انٹیلی جنس چیف عبدالحق وثیق بھی موجود تھے۔ مذاکرات کے دوران دونوں ممالک نے اپنی اپنی شکایات پیش کیں اور بالآخر ایک جامع جنگ بندی معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت یہ طے پایا کہ کوئی بھی فریق دوسرے کے خلاف کسی دہشت گرد گروہ کو پناہ یا سہولت فراہم نہیں کرے گا۔
مذاکرات میں پاکستان نے کھل کر اور تمام تر ثبوتوں کے ساتھ اپنا موقف رکھا اور ایک ہی مطالبہ رکھا کہ افغانستان سے دہشت گردی ہو رہی ہے، یہ سلسلہ بند کیا جائے، یہ امر خوش آئند ہے کہ پہلی بار عالمی ثالثوں کے سامنے افغان حکومت نے اس امر کا اقرار کیا کہ وہ آئندہ کسی گروہ کو بھی پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دے گی۔ یہ یقینا ایک تاریخی اور اہم پیشرفت ہے۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان ہمیشہ افغانستان کا خیر خواہ رہا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے جب بھی افغان عوام کسی آزمائش میں مبتلا ہوئے، پاکستان نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر ان کی مدد کی۔ لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دینے سے لے کر ان کی تعلیم و صحت کی سہولیات فراہم کرنے تک، پاکستان نے ہر ممکن تعاون کیا لیکن اس کے جواب میں پاکستان کو بدظنی، الزام تراشی اور دشمنی کا سامنا کرنا پڑا۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات کی تاریخ کا اگر منصفانہ جائزہ لیا جائے تو صرف ایک دور ایسا دکھائی دیتا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان حقیقی اعتماد اور برادرانہ تعلقات قائم تھے اور وہ دور تھا ملا عمر کا۔ ان کے زمانے میں نہ پاکستان کو افغان سرزمین سے کسی خطرے کا سامنا رہا، نہ سرحدی خلاف ورزیاں ہوئیں۔ اس دور میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات احترام اور بھائی چارے پر مبنی تھے مگر 2021 میں طالبان کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد حالات نے وہ کروٹ لی جس کی کسی کو توقع نہ تھی۔ پاکستان نے طالبان کی حکومت کو خوش آمدید کہا، ان کی کامیابی پر مبارکباد دی اور یہ امید ظاہر کی کہ اب کابل کی فضا سے پاکستان دشمنی کی بدبو نہیں بلکہ محبت و تعاون کی خوشبو آئے گی لیکن افسوس یہ امیدیں زیادہ دیر قائم نہ رہ سکیں۔ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے پاکستان پر حملے شروع کیے اور طالبان حکومت نے انہیں روکنے کی بجائے نرم رویہ اختیار کیا۔
اس صورتحال میں پاکستان نے سفارتی و سیاسی سطح پر ہر دروازہ کھٹکھٹایا۔ کئی وفود کابل گئے، علماء و سیاسی زعما کو بھیجا گیا، مگر خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔ آخرکار پاکستان کو مجبوراً سرحد پار موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر محدود کارروائیاں کرنا پڑیں۔ طالبان حکومت نے اس پر سخت ردعمل ظاہر کیا، یوں حالات ایک نازک موڑ پر پہنچ گئے۔ ایسے میں قطر اور ترکیہ نے بروقت جو مخلصانہ کردار ادا کیا وہ نہایت لائق تحسین ہے۔ یہ امر تسلیم کرنا ہوگا کہ جنگ کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ جنگ اپنی کوکھ سے صرف تباہی، انتشار اور نفرت کو جنم دیتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ یہ دونوں برادر ممالک اپنی توانائی ایک دوسرے کے خلاف ضائع کرنے کی بجائے غربت، جہالت، بے روزگاری اور بے امنی کے خلاف متحد ہو جائیں۔دونوں ممالک کے درمیان طے پایا ہے کہ آئندہ مذاکرات 25 اکتوبر کو استنبول میں ہوں گے، جہاں ایک ٹھوس اور قابلِ تصدیق مانیٹرنگ مکینزم پر پیش رفت ہوگی۔ اگر یہ عمل تسلسل سے آگے بڑھتا ہے تو خطے میں دیرپا امن کی راہیں ہموار ہوسکتی ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان رشتے محض سرحدی یا سفارتی نہیں بلکہ دینی، تاریخی اور ثقافتی ہیں۔ ان رشتوں کو نفرت، شکوک یا سیاسی اختلافات سے نہیں کاٹا جا سکتا۔ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ دونوں ممالک کے رہنما ماضی کی تلخیوں کو پسِ پشت ڈال کر باہمی اعتماد کی بنیاد پر نئے باب کا آغاز کریں۔ دوحہ میں ہونے والی جنگ بندی بلاشبہ امید کی کرن ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر نیتیں درست ہوں تو پیچیدہ مسائل بھی بات چیت کے ذریعے حل کیے جا سکتے ہیں۔ امید ہے کہ استنبول میں ہونے والی آئندہ نشست اس معاہدے کو مضبوط تر بنائے گی، تاکہ پاکستان اور افغانستان نہ صرف اپنے لیے بلکہ پورے خطے کیلئے امن، ترقی اور استحکام کی مثال قائم کر سکیں۔ اس موقع پر دونوں ملکوں کو ان شر پسند عناصر اور سازشی قوتوں پر بھی کڑی نظر رکھنا ہوگی، جنہیں اس معاہدے سے مایوسی ہوئی ہے اور جن کا مفاد بھی دونوں ملکوں کی باہمی لڑائی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ دونوں برادر ممالک کے درمیان اخلاص، اعتماد اور خیر خواہی کو پروان چڑھائے اور دونوں ملکوں کو تعمیر، ترقی اور خوشحالی کے سفر میں ایک دوسرے کا دست و بازو بنائے، آمین۔

