اسرائیل کی جانب سے فلسطینی شہدا کے جسد خاکی سے اعضا چرانے کا انکشاف ہوا ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل نے معاہدے کے تحت 120 فلسطینیوں کی لاشیں حوالے کی ہیں جن میں سے بیشتر کی حالت نہایت ابتر تھی اور ان پر قتل اور تشدد کے واضح آثار موجود تھے۔ وزارت صحت کے ترجمان اسماعیل ثوابتہ کے مطابق کئی لاشوں کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور ان کے ہاتھ پاؤں بھی بندھے ہوئے تھے جبکہ بعض کے گلے پر رسی کے نشانات تھے جو گلا گھونٹ کر قتل کیے جانے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ متعدد لاشوں کے اعضا غائب تھے، جن میں آنکھیں، قرنیے اور دیگر انسانی اعضا شامل ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کے جسموں سے اعضا چوری کیے جو ایک وحشیانہ جرم ہے۔ فلسطینی حکام نے عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر ایک بین الاقوامی تفتیشی کمیٹی قائم کریں تاکہ اسرائیل کو ‘شہدا کے جسموں کی بے حرمتی اور اعضا کی چوری’ جیسے سنگین جرائم پر جوابدہ ٹھہرایا جاسکے۔
دوسری جانب غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں جنگ بندی کے باوجود جاری ہیں۔ غزہ میں صہیونی فوج نے جنوب سے شمال کی طرف منتقل ہونے والے ایک خاندان کی گاڑی کو نشانہ بنایا جس سے اس میں سوار ایک درجن افراد شہید ہوگئے جن میں7بچے اور 3خواتین شامل تھیں۔ جنگ بندی کے آغاز سے اب تک غزہ میںاسرائیلی فوج کی براہ راست فائرنگ سے شہید ہونے والوں کی تعداد 40 ہو چکی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ قابض فوج اور یہودی آبادکاروں کی بڑھتی ہوئی تشدد کی لہر نے مغربی کنارے کے فلسطینیوں کی زندگی بھی مزید غیر محفوظ بنا دی ہے اور وہاں بھی روزانہ تشدد،اغوا اور گرفتاری کے درجنوں واقعات ریکارڈ ہورہے ہیں۔ غزہ میں جنگ بندی کے باوجود صہیونی بھیڑیے نیتن یاہو کی خون آشامی میں کوئی کمی نہیں آکر دے رہی اور ایسا لگتا ہے کہ صہیونی درندوں کو کوئی لگام دینے والا نہیں ہے۔
دنیا میں بہت سے حلقوں بالخصوص مغربی میڈیا کی جانب سے غزہ میں جاری قتل عام اور نسل کشی کو ”اسرائیل حماس جنگ” سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ تاثر قائم کیا جاتا ہے جیسے یہ جنگ 7اکتوبر 2023ء کو فلسطینی مقاومتی تنظیم حماس کے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد شروع ہوئی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ارض فلسطین گزشتہ پون صدی سے قابض و غاصب صہیونی درندوں کی درندگی ،بہیمیت اور سفاکیت کا نشانہ بنتی چلی آئی ہے اور ظلم،تعدی،جبر،عدوان اورشقاوت کا کوئی روایتی یا غیر روایتی حربہ ایسا نہیں ہے جو فلسطینیوں کے خلاف نہ آزمایا گیا ہو، فلسطینیوں کاجرم صرف یہ ہے کہ وہ اپنی جدی پشتی سرزمین سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں اور وہ اپنی بستیوں پر دنیا بھر سے راندۂ درگاہ ہوکر آنے والے بھگوڑے صہیونیوں کا ناجائز قبضہ تسلیم نہیں کرتے ۔ 7اکتوبر کا طوفان الا قصی آپریشن دراصل اسرائیل کی مسلسل اور نہ ختم ہونے والی ریاستی دہشت گردی پر فلسطینی عوام کے ردعمل کا ایک عنوان تھا اور اس معرکے کے بعد گزشتہ دو برسوں میں دنیا نے صہیونیت اوراسرائیل کا جو چہرہ دیکھا ہے،یہ وہی بھیانک حقیقت ہے جو فلسطینی مقاومت دنیا کو دکھانا چاہتی تھی اور سچ یہ ہے کہ اب دنیا پر کوئی چیز مخفی نہیں رہی ہے۔
آج کی اکیسویں صدی کی دنیا میں روئے زمین پر انسانیت کے خلاف جن گھناؤنے جرائم کا تصور بھی نہیں کیا جانا چاہیے، وہ سارے جرائم اسرائیل نامی قابض و ناجائز ریاست نے فلسطینیوں کے خلاف روا رکھے ہیں۔ آج غزہ کی ایک ایک اینٹ چیخ چیخ کر دہائی دے رہی ہے کہ جو ظلم اس سرزمین پر ہوا ہے، تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ جس بے دردی، شقاوت،سنگدلی اور بے شرمی کے ساتھ غزہ میں انسانی زندگی کی ہر علامت کا نام و نشان مٹادیا گیا ہے، اس کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ اس سفاکیت کے دوران دنیا میں تہذیب اور انسانیت کا کوئی نام لیوا موجود رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں جوکچھ ہوا ہے، یہ آج کے دور کے عالم انسانیت کے چہرے پر لگا وہ سیاہ داغ ہے جو قیامت تک نہیں مٹایا جاسکے گا اور مستقبل کا مورخ اس بہمیت کو روکنے میں ناکامی پر اس زمانے کے تمام حکمرانوں، بااثر عالمی طبقات اور انسانی حقوق کی علم بردار عالمی قوتوں کو معاف نہیں کرے گا۔
ذرا اندازہ لگالیا جائے کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے غزہ میں صحت کی سہولیات کو 800 سے زیادہ حملوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ جنگ میں زخمی ہونے والوں میں سے ایک چوتھائی، جن کی تعداد تنظیم کے مطابق اکتوبر 2023 سے تقریباً 167,376 تھی، مستقل معذوری کا شکار ہیں۔ ان میں سے ایک چوتھائی بچے ہیں۔ غزہ شہر میں الشفاء ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ابو سلمیہ کے مطابق جنگ بندی کے کئی دن گزر جانے کے باوجود غزہ کی صحت کا نظام مکمل تباہی کے دہانے پر ہے۔ اگر فوری طور پر اقدام نہ کیا گیا تو ایک نئی انسانی تباہی سامنے آسکتی ہے کیونکہ پورا طبی نظام مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں ادویہ کی فراہمی میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ غزہ میں نوے فی صد مکانات ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں اور ان کے مکین کھلے آسمان تلے رات گزارنے پر مجبور ہیں جب کہ وہاں سرما کا موسم شروع ہونے کو ہے۔ اسرائیل تاحال معاہدے کے مطابق مطلوبہ مقدار میں امدادی سامان غزہ میں آنے نہیں دے رہا جس کی وجہ سے وہاں بھوک کا راج بھی ختم نہیں ہوا۔ پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور مریضوں اور زخمیوں کو علاج کی سہولیات میسر نہیں۔
اس پس منظر میں اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینی شہدا کے اجساد خاکی کی بے حرمتی اور ان کے اعضا چرانے کی خبر خواہ انسانیت کے لیے کتنی ہی شرمناک کیوں نہ ہو، صہیونی درندوں کے لیے کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے اور نہ ہی صہیونی دہشت گردی سے واقف کسی بھی شخص کو اس پر تعجب ہونا چاہیے ۔ حماس کی جانب سے گزشتہ دنوں باغی گروپ کے چند افراد کو سزا دینے پر امریکی صدر ٹرمپ سمیت متعدد مغربی حکمرانوں کی ”انسانیت ” اچانک جاگ اٹھی تھی تاہم غزہ میں جاری انسانی بحران اور اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینی شہدا کے اعضا چوری کرنے کے ہولناک انکشاف پر کہیں سے کوئی نحیف سی آواز بھی سننے میں نہیں آرہی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انسانی حقو ق کے علم بردار مغربی ممالک اور عالمی تنظیموں کو اپنے دوغلے طرز عمل کا خود ہی جائزہ لیتے ہوئے اسرائیلی فوج کی اس مجرمانہ حرکت کا نوٹس لینا چاہیے اور صہیونی درندے نیتن یاہو کو غزہ اور فلسطین کے دیگر حصوں میں جنگ کی آگ دوبارہ بھڑکانے سے باز رکھنا چاہیے۔

