چند روز قبل دوحہ پر اسرائیلی فضائی حملے کے بعد جس میں حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا تھا، عالمی سطح پر ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ بظاہر تمام دنیا قطر کی حمایت میں نظر آئی یہاں تک کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب عاصم افتخار نے اسرائیل کے خلاف سخت لب و لہجے اور کڑے الفاظ میں اشارہ بھی کر دیا کہ اسرائیل نامی دہشت گرد ریاست کا اس وقت دنیا میں کوئی بھی ساتھ دینے والا نہیں ہے۔ پاکستان کا یہ موقف لفظی بیانیہ نہیں تھا۔ پاکستان کی قیادت نے اس موقف کا پاس رکھتے ہوئے قطر کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کا اعلان کیا۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف خود قطر پہنچے اور قطر کی قیادت سے پاکستان کی مکمل حمایت کا وعدہ کیا، تاہم عرب ریاستوں کی جانب سے قطر کی حمایت کی زبانی کلامی حمایت اور دہشت گرد اسرائیل کی بھرپور مذمت کے باوجود کوئی فیصلہ کن یا ایسا موقف سامنے نہ آسکا جو موجودہ حالات میں بہتری کی نوید قرار دیا جا سکتا۔
اس کے برعکس انسانیت کے عالمی مجرم نیتن یاہو نے قطر پر حملے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ حماس قیادت کو نشانہ بنانے کا مقصد یرغمالیوں کی رہائی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا تھا۔ اگر عرب ریاستوں کا واقعی کوئی وزن ہوتا یا ان کے مشترکہ اتحاد کا ادنیٰ سا خو ف بھی دہشت گرد نیتن یاہو کو لاحق ہوتا تو وہ تمام عالمی قوانین، سفارتی آداب اور بین الاقوامی ضابطوں کے خلاف ایسا کھلا موقف اختیار نہ کرتا۔ اسلامی سربراہ کانفرنس کا اب تک جو موقف سامنے آیا ہے، وہ اس بات کی تصدیق ہی کرتا ہے کہ عرب حکمران دہشت گردی کے اڈے اسرائیل کے خلاف کوئی بھی جرأت مندانہ اقدام اٹھانے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ وہ سیاسی، دفاعی اور سفارت کاری ہر میدان میں ہمت اور جرأت سے محروم دکھائی دیتے ہیں۔
اس قضیے کے جائزے سے معلوم ہوگا کہ یہ ایک طاقت ور کے اظہار برتری اور کمزور کے احساس کمتری کے سوا کچھ نہیں۔ قطر پر اسرائیل کا حملہ ایک بے لحاظ سفارتی خلاف ورزی تھی جس نے نہ صرف ثالثی کے کردار میں مصروف ایک خودمختار ملک کی بے توقیری کی بلکہ اس عمل کے ذریعے علاقائی اور عالمی امن کو بھی خطرے میں ڈالا۔ قطر پر اسرائیل کی دہشت گردی کے خلاف فوری ردعمل میں، قطر کے وزیراعظم نے اس کارروائی کو سفارت کاری کی توہین قرار دیتے ہوئے سخت جواب دینے کا مطالبہ کیا، جبکہ پاکستان نے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست دی۔ موجودہ عالمی نظام میں جس کے منہدم ہونے کے آثار واضح ہوتے جا رہے ہیں، پاکستان کا اقدام سفارتی لحاظ سے درست تھا جس میں پاکستان کی جانب سے اسرائیل کے خلاف نہایت سخت موقف اختیار کیا گیا لیکن جو سلامتی کونسل فلسطینیوں کی نسل کشی اور غزہ کے معصوم بچوں کا قتلِ عام دیکھ کر بھی خاموش ہی رہی ہے، اس سے یہ امید کیسے رکھی جا سکتی ہے کہ وہ قطر پر ایک ہی حملے کے بعد دہشت گردی کے عالمی اڈے کے خلاف کسی کارروائی پر آمادہ ہوتی؟ لیکن مسلم امہ کا گلہ عرب ریاستوں سے ہے جو اس قضیے پر اب تک ایک تماشائی کا کردار ادا کرتی چلی آرہی ہیں۔ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ غزہ کے مسلمانوں اور معصوم بچوں کا اپنا لہو شمار کرتے ہیں۔
دوحہ حملے کے فوری بعد اور حالیہ اجلاسوں کے بعد بھی، مسلم امہ کا ردعمل توقعات سے کم رہا ہے۔ قطر کے وزیراعظم نے اگرچہ سخت اور مؤثر جواب کا مطالبہ کیا، لیکن ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے آنے والے بیشتر رہنماؤں کا ردعمل وہی روایتی ”مذمت اور تشویش” تک محدود رہا۔ ایران نے ایک مشترکہ آپریشن روم کے قیام کا مطالبہ کر کے عملی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا، لیکن یہ موقف عرب نمائندوں کے بیانات سے مختلف تھا۔ یہ امر مسلم امہ کے نوجوانوں کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ عرب ریاستیں ہر قسم کے سانحہ پر آنکھیں بند رکھنا ہی کیوں ضروری سمجھ رہی ہیں؟ آخر عرب کب تک ریت میں سر چھپا کر محفوظ رہیں گے؟ تجزیہ کاروں کے مطابق فلسطین میں جاری مظالم اور مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی توسیع کے باوجود، کچھ عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنا، اور دیگر مسلم ممالک کی جانب سے صرف زبانی کلامی مذمت کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ عرب حکمرانوں کے پاس موجودہ صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اور متفقہ حکمت عملی موجود نہیں ہے۔
اس وقت مسلم امہ کو اپنے داخلی اختلافات اور بیرونی دباؤ کے درمیان توازن قائم کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ ایک طرف اسرائیل بین الاقوامی امن کے لیے مسلسل خطرہ بنا ہوا ہے اور دوسری طرف، عرب اور مسلم ممالک کی قیادتیں اس خطرے سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار دکھائی نہیں دیتیں۔ اگرچہ ترکیہ اور بالخصوص پاکستان جو کم از کم اپنا دفاع کر سکتے ہیں، اسرائیل کی جارحیت کے خلاف مضبوط موقف اپنائے ہوئے ہیں، پاکستان مسلسل اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کر رہا ہے جس کا اظہار نئے میزائل تجربات اور بھارتی پشت پناہی پر پاکستان کے پہلو میں خنجر گھونپنے والوں کے خلاف سخت کارروائیوںسے ہوتا ہے اور توقع ہے کہ یہ عمل مزید مؤثر اور مستحکم ہوگا، تاہم مسلم دنیا کا عمومی ردعمل اس رویے اور کردار کے برعکس ہے۔ دراصل حالات میں تبدیلی لانے کے لیے عمل اور کردار کی اصلاح کے ساتھ ایک حقیقی طورپر مشترکہ اور ٹھوس حکمت عملی کی ضرورت ہے جو محض قراردادوں تک محدود نہ ہو۔جہاں مسلمانوں کو گالی مولی کی طرح کاٹا جارہا ہو وہاں امت مسلمہ پر چین کی نیند کیسے روا ہوسکتی ہے؟ اسلامی شریعت بھی اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ ظلم کے خلاف خاموش رہنا یا کمزور ردعمل دینا ظلم کو مزید بڑھاوا دیتا ہے۔ انسانیت کے قاتل نیتن یاہو کی ڈھٹائی بے شرمی دراصل مسلم امہ کے لیے ایک چیلنج ہے۔ افسوس کہ اسلامی سربراہ کانفرنس میں جاری بات چیت اس چیلنج کا مؤثر جواب معلوم نہیں ہو رہی۔ ضرورت تو اس امر کی کہ تھی کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے خاتمے، اقتصادی پابندیاں اور ایک مؤثر فوجی اتحاد کے قیام جیسے اقدامات اٹھائے جاتے۔ امید تھی کہ اسلامی سربراہ کانفرنس ایک فیصلہ کن ردعمل دے گی، لیکن صرف مذمتی قراردادوں تک محدود رہنے سے اسرائیل کو مزید جارحیت کا حوصلہ ملے گا۔ کم ہمتی کی قیمت مزید تباہی، بے حرمتی اور مایوسی کی صورت میں ادا کرنا پڑے گی۔ اس طرز عمل کے متعلق شاعر مشرق علامہ اقبال نے بہت پہلے کہا تھا
گلہ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہل حرم سے ہے
کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری