دنیا کو ”دو قطبیت” کی طرف جانا ہوگا

جنگ عظیم دوم میں جاپان پر چین کی فتح کی یادگاری تقریب سے خطاب میں چینی صدر شی جن پنگ نے کہا کہ انسانیت کو آج جنگ یا امن میں سے ایک کو چننا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چینی عوام امن کیلئے پر عزم اور تاریخ کے درست رخ پر کھڑے ہیں، ان کی ترقی اور خوشحالی کو نہیں روکا جاسکتا۔ چینی صدر نے اپنے خطاب میں اقوام عالم سے تاریخی سانحات کو دوبارہ ہونے سے روکنے کی اپیل بھی کی۔

دنیا کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ طاقت کا توازن ہمیشہ سے انسانی سماج اور عالمی سیاست کا بنیادی عنصر رہا ہے۔ طاقت کے مراکز کا ابھرنا اور زوال پذیر ہونا فطری عمل ہے۔ دوسری جنگ عظیم نے دنیا کو اس حقیقت سے روشناس کرایا کہ قومیں جب اپنی بقا کی جنگ لڑتی ہیں تو ان کے فیصلے آنے والی نسلوں کیلئے تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں۔ اسی جنگ کے اختتام پر عالمی نظام کی تشکیل نو ہوئی، اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا اور امریکا اور سوویت یونین دو متوازی سپر طاقتوں کے طور پر دنیا کے اسٹیج پر ابھرے مگر سرد جنگ اور پھر سوویت یونین کے انہدام نے دنیا کو یک قطبی نظام کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، جس میں امریکا نے اپنی بالادستی قائم کر لی۔ انیس سو نوے کی دہائی سے لے کر اکیسویں صدی کے آغاز تک امریکا نے بلاشرکت غیرے دنیا کی قیادت سنبھالی۔ اس دوران جمہوریت، امن، انسانی حقوق اور ترقی کے دعوے تو بہت ہوئے، لیکن عملی طور پر امریکا نے اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے کیلئے دنیا کو جنگوں، خانہ جنگیوں اور عدم استحکام کی آگ میں جھونکا۔ مشرق وَسطی سے لے کر افغانستان، افریقہ سے لے کر لاطینی امریکا تک، کہیں جمہوریت کے نام پر تو کہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں امریکا نے اپنے مفادات کی جنگیں لڑیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا امن کی بجائے مزید تقسیم، انتشار اور خونریزی کا شکار ہوگئی۔ آج جب چین کے صدر شی جن پنگ نے جنگ عظیم دوم کی فتح کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ انسانیت کو امن یا جنگ میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے، تو یہ درحقیقت ایک گہری حقیقت کا اظہارہے۔ چین نے بیجنگ کے تیانمن اسکوائر کی پریڈ میں اپنی فوجی طاقت کی جھلک دکھا کر دنیا کو غیر رسمی طور پر یہ باور کرایا ہے کہ وہ صرف ایک علاقائی طاقت نہیں بلکہ عالمی سطح پر متبادل سپر پاور کی حیثیت اختیار کرنے جا رہا ہے۔ چین کی جانب سے یہ غیر رسمی پیغام ایک ایسے وقت دیا گیا ہے جب دنیا ایک بار پھر دو متوازی بلاکس میں بٹتی جا رہی ہے۔ ایک طرف امریکا اور اس کے اتحادی ہیں جو پرانے استعماری رویوں اور طاقت کے زور پر دنیا کو قابو میں رکھنے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔ دوسری طرف چین کی قیادت میں اس کے اتحادی ہیں جو شراکت داری، مساوات اور ترقی پر مبنی عالمی نظام کی بات کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال واضح طور پر اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد قائم یک قطبی دنیا کا باب اب بند ہونے کو ہے اور ایک نئی دو قطبیت ابھر رہی ہے۔چین کی طاقت کا یہ مظاہرہ اچانک نہیں ہوا۔ گزشتہ تین دہائیوں میں چین نے جس صبر، حکمت اور خاموشی کے ساتھ اپنی معیشت، ٹیکنالوجی، تعلیم، صنعت اور فوجی قوت کو مضبوط کیا ہے، یہ اس کا نتیجہ ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن جانا، جدید ٹیکنالوجی اور ہائپرسونک ہتھیاروں میں پیش رفت، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے ذریعے دنیا کے کئی ممالک کو معاشی شراکت داری میں شامل کرنا اس بات کا اعلان ہے کہ چین اب عالمی نظام میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا واقعی دنیا کو ایک نئی سپرپاور کی ضرورت ہے؟ اس کا جواب خود گزشتہ تیس برسوں کی تاریخ دیتی ہے۔ امریکا نے اپنی یک قطبی حکمرانی میں یہ ثابت کیا کہ وہ دنیا کی قیادت کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس نے کمزور اقوام کو دبایا، وسائل پر قبضہ کیا، آمریت کو ہوا دی اور امن کے نام پر فساد پھیلایا۔ آج اگر دنیا میں طاقت کا توازن بحال نہ ہوا تو انسانیت ایک غیر مہذب اور غیر ذمہ دار طاقت کے ہاتھوں مزید نقصان اٹھائے گی۔ اس تناظر میں متبادل طاقت نہ صرف ناگزیر بلکہ انسانیت کی بقا کیلئے ضروری ہے۔چین نے کبھی جارحانہ توسیع پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اب تک دنیا میں چین کا اثر و رسوخ بڑھنے کا جائزہ لیا جائے تو یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ چین نے دھونس، دباؤ یا طاقت کی بجائے شراکت داری کے ذریعے اپنی جگہ بنائی ہے۔ یہی وہ رویہ ہے جو دنیا کو درکار ہے۔ دنیا کو ایک ایسی طاقت کی ضرورت ہے جو آقا یا باس بننے کی بجائے شراکت دار بنے، جو اقوام کو دبانے کی بجائے ترقی اور خوشحالی کے راستے پر ساتھ لے کر چلے۔ اطلاعات کے مطابق چین کے اس طاقت کے مظاہرے کے بعد امریکا نے اپنی فوجی تنصیبات اور پوزیشننگ میں ہنگامی تبدیلیاں کی ہیں۔ یہ ردعمل ثابت کرتا ہے کہ امریکا اب بھی گولی اور ڈنڈے کی زبان کے سوا کچھ نہیں جانتا۔ یہی وہ منفی خصلت ہے جس کی وجہ سے آج امریکا اپنی گرفت کھو رہا ہے اور نئے طاقت کے مراکز ابھر رہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ چین اور اتحادی ممالک احتیاط، صبر اور حکمت کے ساتھ آگے بڑھیں اور دنیا کو یہ پیغام دیں کہ انسانیت کی بقا جنگ و تصادم میں نہیں بلکہ معاشی تعاون، ٹیکنالوجی، علم، امن اور خوشحالی کی شراکت میں ہے۔

کیا دنیا فلسطین کے مٹنے کی منتظر ہے؟

اسرائیل نے غزہ پر مکمل قبضے کی تیاری کے آخری مرحلے کا منگل سے آغاز کرتے ہوئے ساٹھ ہزار ریزرو فوجیوں کو باضابطہ طور پر تربیت کیلئے طلب کرلیا ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زامیر نے کابینہ اجلاس میں آگاہ کیا کہ غزہ پر قبضے کی منصوبہ بندی عملاً وہاں ایک فوجی حکومت کے قیام کا باعث بنے گی۔ دوسری طرف مغربی کنارے کو بھی مکمل ہتھیانے کی منصوبہ بندی عروج پر ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا یونہی ایک منہ زور قابض طاقت کو ایک سپر طاقت کی سرپرستی میں ایک پوری قوم کو فنا کے گھاٹ اتارتے خاموشی سے دیکھتی رہ جائے گی؟ اگر ایسا ہوا تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ خونخوار اژدھا فلسطین کو خاکم بدہن ہڑپ کرکے نچنت بیٹھ جائے گا؟ ایسا لگ رہا ہے کہ آج بھی دنیا میں طاقت کے زور پر ممالک اور اقوام کو فتح کرکے اپنا جغرافیہ بڑھانے کا چلن رائج ہے۔ اگر دنیا میں یہی طرز عمل چلنا ہے تو پھر اقوام متحدہ کو تحلیل کرکے ایک بار پھر نوآبادیاتی دور کے آغاز کا باقاعدہ اعلان کیا جانا چاہیے۔