سیلاب سے قادرپورگیس فیلڈمتاثر،سپلائی بند،کچے کے مزید علاقے زیرآب

گھوٹکی/لاہور/ ملتان/ بہاولپور:سیلابی پانی سے قادرپورگیس فیلڈ کے 10کنویں متاثر ہوئے ہیں جس کے باعث گیس کی سپلائی بند ہوگئی۔نجی ٹی وی کے مطابق لاڑکانہ میں زمینداری بند میں 100 فٹ چوڑا شگاف پڑنے کے بعد پانی کا ریلا درگاہ ملوک شاہ بخاری میں داخل ہوگیا جب کہ پانی اب زرعی علاقوں اور آبادی کی جانب بڑھنے لگاہے۔

ادھر گھوٹکی میں سیلابی پانی سے قادرپورگیس فیلڈ کے کنویں بھی متاثر ہوئے اور 10 کنوؤں سے گیس کی سپلائی بند ہوگئی ہے۔ حکام کے مطابق کشمور میں دریائے سندھ میں گڈو بیراج کے مقام پر بھی پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوا ہے جس سے اونچے درجے کا سیلاب برقرار ہے جب کہ پانی 48 گھنٹے میں سکھر بیراج پر پہنچنے کا امکان ہے۔

انتظامیہ کا کہنا ہے کہ گڈو بیراج پر کوئی خطرہ نہیں تاہم کچے کے علاقوں پر پانی کی سطح میں بھی اضافہ کے بعد علاقے سے نقل مکانی جاری ہے اور کچے سے 30 ہزار لوگوں کو محفو ظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔دوسری جانب ضلع گھوٹکی کے علاقے جان محمد علی میں سیلاب سے متعدد دیہات زیر آب آگئے جب کہ انخلا کا عمل شروع نہ ہونے پر متاثرین مشکلات کا شکار ہیں۔

نوڈیرو کے موریا لوپ بند اور برڑا پتن پر پانی کا شدید دباؤ ہے، پانی کھیتوں میں داخل ہونے لگا، فصلوں کو شدید نقصان ہو رہا ہے۔اوباڑو، یونین کونسل بانڈ اور قادر پور کچے کے درجنوں دیہات زیر آب آئے، لوگ مال مویشی نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل ہونے لگے، سیلابی پانی رونتی بچاؤ بند سے ٹکرا گیا، کپاس اور گنے کی فصلیں ڈوب گئیں۔

سیلاب سے گمبٹ کے کچے کے سینکڑوں علاقے زیر آب آگئے ہیں جس کے باعث سیلاب متاثرین اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ مقامات پر منتقل ہورہے ہیں جبکہ ضلع انتظامیہ منظر عام سے غائب ہے۔

سہون میں سیلابی ریلے میں متعدد مکانات، فصلیں اور باڑے بھی بہ گئے، بھینیسں، گائے اور دیگر مویشی پانی میں رہنے پر مجبور ہیں، علاقہ مکین بھی گھٹنوں گھٹنوں پانی سے گزر کر محفوظ مقامات پر جارہے ہیں، اسکول کے بچے کشتیوں کا کرایہ ادا کرکے اسکول جانے پر مجبور ہیں۔

ٹھٹھہ میں دریائے سندھ میں طغیانی سے بڑا علاقہ زیر آب آگیا ہے، بچے بڑے سب اپنے مال مویشی کے ساتھ کھلے آسمان تلے آگئے ہیں، کشتیوں کے ذریعے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جارہا ہے۔

ادھرنیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے دریائے سندھ کے زیریں مقامات کے لیے ہائیڈرولوجیکل الرٹ کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں گڈو، سکھر اور کوٹری بیراج پر سیلابی صورتحال برقرار ہے۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر نے دریاؤں میں بہاؤ اور سیلابی صورتحال پر تفصیلی رپورٹ جاری کر دی۔رپورٹ کے مطابق دریائے چناب میں تریموں، مرالہ، خانکی اور قادرآباد کے مقامات پر پانی کی سطح میں بتدریج کمی کے بعد صورتحال نارمل ہے، تاہم پنجند کے مقام پر 3 لاکھ 8 ہزار کیوسک کے ساتھ اونچے درجے کا سیلاب موجود ہے۔

جنوبی پنجاب کے اضلاع ملتان، مظفرگڑھ، راجن پور، لودھراں، بہاولپور، رحیم یار خان، علی پور، سیت پور، لیاقت پور، اوچ شریف اور احمد پور شرقی میں شدید سیلابی صورتحال برقرار ہے۔دریائے راوی کی صورتحال مجموعی طور پر معمول کے مطابق ہے، تاہم گنڈا سنگھ کے مقام پر ایک لاکھ 8 ہزار کیوسک کا ریلا موجود ہے۔

دریائے ستلج میں صورتحال نارمل ہے جبکہ سلیمانکی اور ہیڈ اسلام کے مقامات پر 89 ہزار اور 83 ہزار کیوسک کا بہاؤ موجود ہے۔رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ میں تربیلا اور تونسہ پر صورتحال معمول کے مطابق ہے، تاہم گڈو بیراج پر 6 لاکھ 35 ہزار کیوسک کے ساتھ اونچے درجے، سکھر بیراج پر 5 لاکھ 38 ہزار کیوسک کے ساتھ درمیانے درجے اور کوٹری بیراج پر 2 لاکھ 78 ہزار کیوسک کے ساتھ نچلے درجے کا سیلاب موجود ہے۔

گڈو بیراج پر موجود ریلا آئندہ 2 سے 3 روز میں سکھر اور 24 سے 26 ستمبر تک کوٹری بیراج تک پہنچے گا۔ کوٹری پر بہاؤ 4 لاکھ سے 4 لاکھ 45 ہزار کیوسک تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم کی ہدایت پر این ڈی ایم اے سول و عسکری اداروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور ریسکیو و ریلیف سرگرمیوں کی نگرانی کر رہا ہے۔

اب تک پنجاب میں تقریباً 27 لاکھ اور سندھ میں 16 لاکھ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔این ڈی ایم اے نے ہدایت کی ہے کہ خطرے سے دوچار علاقوں کے رہائشی فوری انخلاء کے عمل میں تعاون کریں، غیر ضروری سفر سے گریز کریں، ہنگامی کٹس تیار رکھیں اور اہم دستاویزات محفوظ کریں۔

عوام کو مزید رہنمائی کے لیے ڈیزاسٹر الرٹ ایپ استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ سندھ میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے ایک جدید آن لائن نقشہ تیار کیا ہے، جس کے ذریعے دریائے سندھ میں سیلاب کی تازہ ترین صورتحال کے علاوہ ریلیف کیمپوں کا محل وقوع اور سہولیات دیکھی جا سکتی ہیں۔

سندھ میں پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل سید سلمان شاہ کے مطابق اس نقشے پر کسی بھی ریلیف کیمپ پر کلک کرنے سے یہ معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں کہ کیمپ کہاں قائم ہے، کس عمارت یا سرکاری اسکول میں موجود ہے، وہاں کتنے کمرے ہیں اور کتنے افراد کے رہنے کی گنجائش ہے، ساتھ ہی بنیادی سہولیات کی تفصیل بھی دستیاب ہے۔

اس کے علاوہ کوئی بھی شخص اپنے گھر سے قریب ترین ریلیف کیمپ یا صحت کی سہولت کا فاصلہ معلوم کر سکتا ہے۔پی ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے کے 15 اضلاع کی 38 تحصیلوں میں 643 دیہات سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، جن کے باعث ایک لاکھ 63 ہزار سے زائد افراد کو اپنے گھروں سے نکلنا پڑا۔

علاوہ ازیںعلی پور میں سیلاب میں ڈوب کر جاں بحق گیارہ افراد کی لاشیں نکال لی گئیں۔نجی ٹی وی کے مطابق پاک فوج کے ریسکیو آپریشن میں تمام لاشیں نکال کر ریسکیو کے حوالے کردی گئیں۔جاں بحق افراد میں شعیب، تاج بی بی، محمداقبال، عامر، علشبہ، حسن، شبیر بدھوانی اور چار نامعلوم افراد کی بھی لاشیں ملی ہیں۔

ادھربھارتی آبی جارحیت کے بعد بپھرے دریاؤں نے اپر پنجاب کے بعد جنوبی پنجاب میں بھی تباہی کی داستان رقم کردی، جلال پور پیروالا کے قریب دونوں اطراف سیلابی پانی کے بہاؤ سے ملتان سکھر ایم فائیو (Mـ5) موٹروے کو بھی نقصان پہنچا جس کا ایک حصہ بہہ گیا جس کے بعد موٹروے کو ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا ہے۔

پنجاب کے دریاؤں میں پانی کی سطح کم ہونے کے باوجود جنوبی علاقوں میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں، سیلاب جنوبی پنجاب سے آگے بڑھتا ہوا سندھ میں داخل ہورہا ہے۔شجاع آباد میں دریائے چناب میں طغیانی سے 15 موضاجات پانی میں ڈوب گئے جب کہ 17موضاجات کو جزوی نقصان پہنچا اور اب تک 4000 سے زائد افراد کو ریسکیو کرلیا گیا۔

شجاع آباد کے علاقے جلالپور کھاکھی میں 45 سال شخص اپنے مویشیوں کو سیلابی پانی سے باہر نکالنے کی کوشش میں ڈوب کر جاں بحق ہو گیا، پولیس نے لاش قانونی کارروائی کے بعد ورثاء کے حوالے کردی،جلال پور پیر والا میں دریائے چناب اور دریائے ستلج نے 80دیہات کو ڈبودیا جہاں سے 80 ہزار متاثرین کو ریسکیو کرلیا گیا جب کہ متعدد افراد اب بھی سیلاب میں پھنسے ہوئے ہیں۔

دریائے چناب میں پانی کی سطح کم ہونے کے باوجود مظفر گڑھ میں کئی بستیاں تاحال زیرآب ہیں، سیلاب نے 2000 سے زائد گھروں کو متاثر کیا جب کہ 30000 سے زائد متاثرین اب بھی گھروں کی راہ تک رہے ہیں۔

لیاقت پور میں پانی سطح تو کم ہوگئی لیکن کئی بستیاں تاحال زیرآب ہیں، سیلاب متاثرین شدید گرمی میں کھلے آسمان تلے بیٹھنے پر مجبور ہیں۔چشتیاں کے 47 موضع جات اب بھی پانی کی لپیٹ میں ہیں، موضع راجوشاہ، بونگہ جھیڈ، مزید شاہ، میرن شاہ سیلاب سے شدید متاثر ہوئے۔

اوچ شریف کے 25 دیہات پانی میں ڈوب گئے اور زمینی رابطہ منقطع ہوگیا۔علی پور میں دریائے سلتج، راوی اور چناب نے کئی بستیوں کو ڈبو دیا، ہیڈ پنجند سے 2 لاکھ 87 ہزار کیوسک کا سیلابی ریلا گزر رہا ہے، علی پور سے سیت پور کا زمینی راستہ بحال کرنے کے لیے کام جاری ہے۔

سیلاب راجن پور، روجہان کو متاثر کرتا ہوا سندھ کی جانب رواں دواں ہے، کوٹ مٹھن کے مقام پر دریائے سندھ میں اس وقت پانی کا بہاؤ 6 لاکھ کیوسک ہے۔دوسری جانب پنجاب میں مون سون بارشوں کا 11واں اسپیلآج سے شروع ہونے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔

ترجمان پی ڈی ایم اے پنجاب نے 16 سے 19 ستمبر تک پنجاب کے بیشتر اضلاع میں شدید بارشوں کی پیشگوئی کی ہے۔انہوں نے کہا کہ راولپنڈی مری گلیات اٹک چکوال جہلم، گوجرانولہ، لاہور، گجرات اور سیالکوٹ میں بارشیں متوقع ہیں، نارووال، حافظ آباد، منڈی بہاء الدین، اوکاڑہ، ساہیوال، قصور، جھنگ، سرگودھا اور میانوالی میں بارشوں کا امکان ہے۔

18 اور 19 ستمبر کے دوران راولپنڈی، مری، گلیات کے ندی نالوں میں بہاؤ کے اضافے کا امکان ہے۔ترجمان پی ڈی ایم اے نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایات کے پیش نظر صوبہ بھر کے کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز الرٹ ہیں۔

ڈی جی عرفان علی کاٹھیا نے کہا کہ محکمہ صحت، آبپاشی تعمیر و مواصلات لوکل گورنمنٹ اور لایئو اسٹاک کو الرٹ جاری کر دیاگیا ہے، شہریوں سے التماس ہے کہ خراب موسم کی صورتحال میں احتیاطی تدابیر اختیار کر یں، دریاؤں کے اطراف اکٹھے ہونے اور سیرو تفریح سے گریز کریں۔