شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کا اعلامیہ

چین کے شہر تیانجن میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں عالمی تجارتی نظام کی مضبوطی اور یکطرفہ اقتصادی پابندیوں کی مخالفت کرتے ہوئے ڈیجیٹل اکانومی اور ای کامرس تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ اجلاس کے اعلامیے کے مطابق دہشت گردی، علیحدگی پسندی اورانتہا پسندی کے خلاف مشترکہ جدوجہد پر اتفاق کیا گیا جب کہ انسداد دہشت گردی تعاون پروگرام 2025–2027 پر عملدرآمد جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ ایس سی او کے مشترکہ اعلامیے میں پہلگام، جعفر ایکسپریس اور خضدار حملوں کی سخت مذمت کی گئی جب کہ فلسطین میں فوری اور پائیدار جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی پر بھی زور دیا گیا۔

شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس ایک ایسے وقت میں ہوا جب دنیا میں بڑی طاقتوں کے درمیان سیاسی اور معاشی بالادستی کی کشمکش اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چھیڑی گئی ٹیرف کی جنگ نے عالمی اقتصادیات کے پورے سسٹم کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کی نظریں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس پر لگی ہوئی تھیں۔ اجلاس کے موقع پر جس طرح کے مناظر دیکھنے کو ملے اور آخر میں جو اعلامیہ جاری ہوا، وہ بہر حال دنیا کے لیے ایک موثر اور معنی خیز پیغام ہے کہ امریکا اور مغرب کی بالادستی کا زمانہ اب زیادہ دیر تک جاری رہنے والا نہیں ہے اور آنے والے دور میں عالمی سیاست و اقتصادیات کی قیادت کرنے کے لیے جنوب کے ممالک بھی سنجیدہ امیدوار ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ اجلاس کی خاص بات اس میں بھارت کی پہلے سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ شرکت تھی۔ بھارت اگر چہ تنظیم کا مستقل رکن رہا ہے تاہم امریکا کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات اور خطے میں امریکا کے” فطری حلیف ” ہونے کے ناتے سی اوسی میں بھارت کے کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا تاہم اب کی بار بھارت نے شنگھائی تعاون تنظیم میں اپنی موجودگی کو زیادہ نمایاں کرکے پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مبصرین کے مطابق اس کی وجہ امریکا سے اس کے تعلقات میں آنے والی سرد مہری ہے۔ آج سے چند ماہ پہلے تک کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا کہ بھارت اور امریکا کے درمیان تعلقات میں اس قدر بگاڑ آجائے گا کہ امریکا بھارت کی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کردے گا اور جواب میں بھارت امریکا کے سامنے سرجھکانے کی بجائے اس کے اور اپنے سابقہ حریف چین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دے گا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان تعلقات کی نوعیت بدل رہی ہے، شنگھائی تعاون کونسل کے اجلاس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے چین کے ساتھ تعلقات کا نیا باب کھولنے کی کوششوں کے لیے استعمال کیا ہے، جہاں ان کی چین اور روس کے صدور کے ساتھ خصوصی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں کا پیغام بالکل واضح تھا کہ تینوں بڑے ممالک امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے چھیڑی گئی ٹیرف کی جنگ میں ایک ساتھ ہیں اور امریکی دباؤ سے نکلنے میں ایک دوسرے کی مدد کرسکتے ہیں۔ عالمی مبصرین اور خود امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی احمقانہ ٹیرف پالیسی نے چین کو اپنی مصنوعات کے لیے بھارت جیسی متبادل بڑی منڈی فراہم کردی ہے اور بھارت کو بھی امریکا کی بجائے چین کی طرف دھکیلا ہے۔ چین،بھارت اور روس اگر باہمی تجارت کو فروغ دینے میں کامیاب ہوگئے تو نہ صرف یہ کہ عالمی اقتصادیات میں امریکا کی بالادستی کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گے بلکہ دنیا میں طاقت کا توازن بھی تبدیل کرنے کے قابل ہوسکیں گے جس کے اثرات پوری انسانی آبادی پر پڑسکتے ہیں۔

تاہم یہاں ایک اہم سوال یہ بھی اٹھایا جارہا ہے چین کی جانب بھارت کا جھکاؤ آیا بھارت کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی علامت ہے یا پھر یہ اپنے دیرینہ حلیف امریکا کی نظر میں اپنی قیمت بڑھانے اور اس کے ساتھ تجارتی ڈیل کو آسان بنانے کی حکمت عملی کا حصہ ہے؟ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاست اور مزاج سے واقف کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دوسرا احتمال زیادہ قوی ہے۔ تاہم اس کا انحصار اب اس بات پر بھی ہوگا کہ ٹرمپ انتظامیہ اس ساری پیشرفت کو کس نظر سے دیکھتی ہے یا اس سے کتنا اثر قبول کرتی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اگرچہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کوشش کر رہی ہے کہ وہ چین اور امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن برقرار رکھے اور چین کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات میں رخنہ نہ پڑنے دے تاہم بیک وقت چین اور امریکا دونوں کی توقعات پر پورا اترنا پاکستان کے لیے آسان نہیں ہے۔ اگر چہ اس وقت پاکستان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نوازشات سے مستفید ہورہا ہے تاہم یہاںاس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ان نوازشات کا مقصد امریکا کی جانب سے بھارت پر سودے بازی کے لیے دباؤ ڈالنا اورپاکستان کو چین سے دور کرکے بیک تیر دو شکار کرنا ہو۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیںپاکستان کو کسی فریب میں آکر چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو قربان نہیں کرنا چاہیے اورسی پیک منصوبوں کو رول بیک کرنے یا ان میں رخنہ ڈالنے کی کوششوں کی مزاحمت کرنی چاہیے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا اعلامیہ خطے کے ممالک کی جانب سے دنیا کو متبادل قیادت فراہم کرنے کی کوششوں کی ایک جھلک ہے۔ پاکستان کو اس میں اپنا فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔

افغانستان میں زلزلے سے تباہی

افغانستان کے صوبہ کنڑ میں اتوار کو رات گئے آنے والے شدید زلزلے نے تباہی مچا دی۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق اور تین ہزار سے زاید افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اب بھی سیکڑوں لوگ ملبے تلے پھنسے ہوئے ہیں۔ امدادی کارروائیاں جاری ہیں اور افغان حکومت نے بین الاقوامی برادری سے امداد کی درخواست کی ہے۔ افغانستان میں آنے والا تباہ کن زلزلہ بلاشبہہ بہت بڑی قدرتی آزمائش ہے جو چار عشروں تک جنگوں اور خانہ جنگی کا شکار رہنے والے افغان عوام کو درپیش ہے۔ مصیبت کی اس گھڑی میں پوری عالمی برادری اور بالخصوص اسلامی دنیا کو افغانستان کی بھرپور مدد کرنی چاہیے۔ پاکستان اگر چہ خود بھی طوفانی بارشوں اور سیلاب کی شکل میں آنے والی آفت سے نمٹنے کی جدوجہد میں مصروف اور مدد کا محتاج ہے تاہم پھر بھی پاکستان کی حکومت اور امدادی اداروں کو اسلامی اخوت اور ایثار کے جذبے کے تحت افغانستان کے زلزلہ زدگان تک ہر ممکن امداد پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔