اعلانِ نیویارک۔ عالمی برادری اپنا فرض ادا کرے

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جمعہ کے روز ”اعلانِ نیویارک” کو منظور کر لیا جس کا مقصد مشرق وسطیٰ کے تنازع کے حل کے لیے دو ریاستی فارمولے کو نئی تحریک دینا ہے۔اس قرارداد کے متن کو 142 ووٹوں کی اکثریت سے منظور کیا گیا، جبکہ 10 ممالک نے مخالفت کی، جن میں اسرائیل اور امریکا بھی شامل ہیں جب کہ 12 ممالک نے ووٹنگ سے اجتناب کیا۔ قرارداد میں حماس کی کھلے الفاظ میں مذمت کی گئی اور اس سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ہتھیار ڈال دے۔ مبصرین کے مطابق ”اعلانِ نیویارک” کا مقصد دو ریاستی حل کو نئی جان دینا ہے، اور یہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ مشرق وسطی کے قضیے کا ایک منصفانہ اور جامع تصفیہ ناگزیر ہے تاکہ دہائیوں پر محیط اس تنازع کو ختم کیا جا سکے۔

یہ اعلان 7 صفحات پر مشتمل ہے اور جولائی میں اقوام متحدہ میں منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس کا نتیجہ ہے جس کی میزبانی سعودی عرب اور فرانس نے کی تھی۔ امریکا اور اسرائیل نے اس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا تھا۔اعلان میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل کی جانب ”ٹھوس، وقت کے تعین کے ساتھ اور ناقابلِ واپسی اقدامات” پر زور دیا گیا ہے۔ اس میں غزہ کے عام شہریوں پر اسرائیلی حملوں، بنیادی ڈھانچے کی تباہی، محاصرے اور بھوک کے استعمال کی مذمت بھی کی گئی ہے، اور غزہ میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری سے ایک عارضی استحکام مشن کی تعیناتی کی حمایت کی گئی ہے۔”دو ریاستی حل کانفرنس ”میں شریک ممالک نے اس امر پر اتفاق کیا کہ فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے پائے دار اور مستحکم اقدامات ناگزیر ہیں ۔ کانفرنس کے دوران فرانس نے ستمبر میں فلسطین کو تسلیم کرنے کے اپنے عزم کی تجدید کی، جبکہ برطانیہ نے بھی اسی ماہ فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔عرب لیگ نے بھی اس اعلان کی حمایت کی ہے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ ژاںنوئل بارو نے اسے ”حماس کو بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر تنہا کرنے کی ایک اہم پیش رفت” قرار دیا۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس اعلان کو اس وقت منظور کیا جب محض دس دن بعد 22 ستمبر کو فرانس اور سعودی عرب کی قیادت میں ایک سربراہی اجلاس منعقد ہونا ہے، جہاں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے فلسطین کو تسلیم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کا مسئلہ ممکنہ طور پر اس سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا بھی سب سے بڑا اور اہم موضوع ہوگا۔ یاد رہے کہ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو جوکہ انسانیت کے خلاف جرائم کے لیے بین الاقوامی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کو مطلوب ہیں،حالیہ دنوں کھلے اور دوٹوک الفاظ میں دوریاستی حل کو مسترد کرچکے ہیں اور ان کی جانب سے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کو پامال کرتے ہوئے غزہ اور مغربی کنارے پر قبضہ کرنے کی کارروائی شروع ہوچکی ہے،نیتن یاہو کے اس غیر قانونی اقدام کو امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ٹرمپ سرکار نے امریکا کے اب تک کے سرکاری موقف یعنی” قضیہ فلسطین کے دو ریاستی حل” کو ترک کرکے اسرائیل کو فلسطینیوں کی بقیہ اراضی کو بھی ہتھیانے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، بلکہ ٹرمپ انتظامیہ خود فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرکے امریکا کے بدکردار صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سفلی ذوق کے مطابق غزہ میں عیاشی و فحاشی کے اڈے قائم کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے، نیتن یاہو اور صہیونی فوج کو اس مقصد کے لیے محض آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔

اس شیطانی منصوبے کے تحت اس وقت بھی غزہ میں فلسطینیوں کی بدترین نسل کشی جاری ہے اور گزشتہ دوچار روز کے دوران پانچ لاکھ سے زائد فلسطینی انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں جنوب کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔ٹرمپ اور نیتن یاہو کی شیطانی جوڑی غزہ کے بیس لاکھ سے زائد شہریوں کو جنوب کے ایک محدود علاقے میں اکھٹا کرکے وہاں سے زبردستی دوسرے ممالک بھیجنے کی تیاری میں ہے۔گویا پوری ایک قوم اور نسل کو غیر قانونی ،غیرانسانی اور غیر اخلاقی طریقے سے اپنی جدی پشتی سرزمین سے بے دخل کرکے دنیا میں دربدر کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔اس طرح سے ایک زبردست انسانی المیہ دنیا کے سامنے رونما ہونے کا خدشہ ہے۔ایسے میں ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی برادری کو سب سے پہلے اس المیے کو رکوانے کے لیے اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔ قضیہ فلسطین کے مستقل حل کی تجاویز اب ثانوی درجے میں چلی گئی ہیں۔اس وقت فلسطینی عوام کے ساتھ بڑی خیر خواہی یہی ہوگی کہ عالمی طاقتیں ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کو فلسطین کے بچوں،خواتین،بزرگوں اور عام شہریوں پر سفاکانہ بمباری اور انہیں بھوکا مارنے کی وحشیانہ کارروائی سے روکیں۔عالمی طاقتیں فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کے شیطانی منصوبے کے خلاف بروقت راست اقدام کریں۔ غزہ میں فوری جنگ بندی تمام انسان دوست ممالک اور اداروں کا مطالبہ ہونا چاہیے، جنگ بندی کے بعد بے شک عالمی طاقتیں ثالثی کریں اورقضیہ فلسطین کا کوئی بھی حل تلاش کرتے ہوئے اس قضیے کے اصل فریق اور ارض فلسطین کے حقیقی مالکان یعنی فلسطینی عوام کو ضرور اعتماد میں لیں۔فلسطینی سیاسی و مقاومتی تنظیموں کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی بھی خاکہ مشرق وسطیٰ میں امن کا ضامن نہیں بن سکتا۔

فلسطین میں اصل مسئلہ زمین کی تقسیم کا نہیں بلکہ زمین سے قبضہ چھڑانے کا ہے۔اسرائیل تمام تر بین ا لاقوامی اصولوں ،اقوام متحدہ کے چارٹر اور مسلمہ عالمی قوانین کے مطابق ایک ناجائز اور قابض ریاست ہے۔اس نے 1967 ء کی جنگ کے بعد جتنے فلسطینی علاقوں پر قبضہ کیا ہوا ہے،ان پر اس کا دعوی کسی بھی پیمانے میں درست نہیں بنتا،یہاں تک کہ آج تک برطانیہ اور خود امریکا بھی ان کو مقبوضہ علاقے تسلیم کرتے آئے ہیں،اب ریاستی دہشت گردی کے بل بوتے پر اس نے مزید فلسطینی علاقے بھی ہتھیالیے ہیں تو اس سے اس کا ناجائز قبضہ جائز نہیں ہوجاتا۔ نیتن یاہو کے تازہ بیانات سے عیاں ہے کہ قبضہ گیری کی یہ صہیونی مہم صرف ارض فلسطین تک بھی محدود نہیں ہے بلکہ صہیونی لابی گریٹر اسرائیل کے مزعومے کے تحت پورے مشرق وسطیٰ پر قبضے کا خواب دیکھ رہی ہے لہٰذا یہ پوری مہذب دنیا اور عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس لابی کا ہاتھ روکے اور اسے اس کی اوقات میں رکھنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اقوام عالم کی کوششیں مستحسن ہیں تاہم اس کے لیے پہلے اسرائیل نامی ناسور کا علاج ناگزیر ہے۔