غزہ میں حملہ آور اسرائیلی قابض فوج کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے، مجاہدین کے ساتھ جھڑپوں میں 12فوجی ہلاک اور 4لاپتہ ہوگئے، شدیدلڑائی کے بعد قابض افواج پسپا ہونے پر مجبور ہوگئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ پر حملہ آور اسرائیلی افواج کو فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ غزہ کے قصبے زیتون میں اسرائیلی فورسز پر مزاحمت کاروں کے پے در پے حملوں میں 12اسرائیلی فوجی ہلاک جبکہ 4 لاپتہ ہوگئے۔
غزہ کی سرزمین اس وقت انسانی تاریخ کے بدترین المیے کی تصویر بن چکی ہے۔ جدید اور قدیم دور کی تمام جنگوں میں ہونے والی تباہ کاریوں کا ریکارڈ غزہ میں ٹوٹ چکا ہے، تاہم حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو غزہ میں جو قیامت برپا ہے، اسے کسی طور بھی جنگ نہیں کہا جاسکتا۔یہ جنگ نہیں، بلکہ در حقیقت مسلسل ڈیڑھ سال سے زائد عرصے سے جاری ایک جابر اور قابض طاقت کی جانب سے نہتی، کمزور، بے بس اور چاروں طرف سے محصور ایک قوم کی یکطرفہ نسل کشی ہے۔ اس قتل عام میں فریقین کے درمیان طاقت کا کوئی موازنہ نہیں، یہ یکطرفہ قتل و غارت ہے جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ جنگ دو برابر کی طاقت کے حامل فریقوں میں لڑی جاتی ہے، ایک نہتی و بے بس قوم اور دنیا کی ایک غیر رسمی ایٹمی طاقت کے درمیان بھلا کیسی جنگ؟ یہی وجہ ہے کہ اس یک طرفہ ”جنگ” میں اسرائیل نے غزہ کو اپنی طاقت کی تجربہ گاہ بنا دیا ہے۔ اس محدود پٹی کی محصور آبادی پرایسے مہلک اور تباہ کن ہتھیار آزمائے جا رہے ہیں جنہیں انسانیت نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ جدید ٹیکنالوجی کے حامل یہ ہتھیار امریکی و اسرائیلی اسلحہ ساز کارخانوں میں تیار ہو کر براہ راست غزہ کی بستیوں پر برسائے جا رہے ہیں۔ اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ اسرائیل ان تباہ کن ہتھیاروں کو یہاں استعمال کر کے دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ یہ میدانِ جنگ میں آزمودہ ہتھیار ہیں، تاکہ ان کی فروخت میں اضافہ ہو۔ اس طرح غزہ کی معصوم جانوں کو تجارتی منڈی کا اشتہار بنا دیا گیا ہے اور یہ سب وہ لوگ کر رہے ہیں جو دنیا میں امن، تہذیب اور انسانیت کے سب سے بڑے علم بردار ہیں۔
غزہ روئے زمین پر بسنے والے ہر انسان کیلئے ایک کڑی آزمائش ہے۔ اس آزمائش میں انسانیت کے دعوے، اخلاقیات کے اصول اور عالمی قوانین سب بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کے ادارے خاموش تماشائی ہیں۔ مغربی دنیا جو آزادی، انسانی حقوق اور انصاف کے نعرے لگاتی نہیں تھکتی، اس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ مشرقی ممالک اور عالمِ اسلام کے حکمران اور عوام بھی بے حسی اور بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ غزہ کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہے، کوئی عمارت سلامت نہیں رہی۔ اندازہ کیجیے کہ اسرائیل اب تک اس محدود اور گنجان آباد علاقے پر پچیس ہزار ٹن بارود گرا چکا ہے، جس کی تباہی دو ایٹم بموں کے برابر ہے۔ اس سے تباہی کی گہرائی اور وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مزید ظلم یہ کہ اسرائیل نے محصور فلسطینیوں پر بھوک اور پیاس بھی مسلط کر دی ہے۔ کھانے پینے کی اشیائ، دوائیں اور بنیادی ضروریات زندگی غائب ہیں۔ ایک طرف اسرائیلی بمباری ہے تو دوسری طرف بھوک کا عذاب۔ یہ اجتماعی سزا ہے جس کا مقصد لاکھوں بے کس و بے بس فلسطینیوں کو زندگی کے حق سے محروم کرکے ان کی بچی کھچی زمین پر قبضہ کرنا ہے مگر سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی بربادی اور قتل عام کے باوجود اسرائیل کو کیا حاصل ہوا؟آج اسرائیل کو غزہ پر حملہ کرتے ہوئے ایک سال دس ماہ گزر چکے ہیں۔ اس دوران اس نے تین بڑے مقاصد طے کیے تھے غزہ پر مکمل قبضہ، اپنے قیدی چھڑانا اور حماس کا خاتمہ، مگر ان تینوں میں وہ آج بھی بری طرح ناکام ہے۔ غزہ اب بھی اسرائیل کے قبضے میں نہیں آیا، اسرائیل اپنے قیدی اب تک نہیں چھڑا سکا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حماس آج بھی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے۔ حماس کی بقا اسرائیل کی سب سے بڑی شکست ہے۔
حالیہ دنوں میں غزہ سٹی کے حی الزیتون نامی علاقے میں فلسطینی مجاہدین کی مزاحمت نے اسرائیلی فوج کے غرور کو خاک میں ملا دیا ہے۔ اسرائیلی کمانڈ کو یقین تھا کہ اب غزہ کا قلب اس کے قبضے میں ہے۔ ٹینک، توپیں اور جدید ترین اسلحہ لے کر جب وہ قبضے کیلئے غزہ کی طرف بڑھنے لگے تو انہیں یہ توقع نہ تھی کہ نہتے اور محصور لوگ اس قدر جرات و بہادری کا مظاہرہ کریں گے۔ حماس کے مجاہدین نے اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر ایسی مزاحمت کی کہ اسرائیلی فوجیوں کی لاشیں گرنے لگیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق صرف ایک جھڑپ میں بارہ اسرائیلی فوجی مارے گئے اور چار لاپتہ ہو گئے۔ اس طرح قابض فوج کو پسپا ہونا پڑا۔ یہ جرات و بہادری کی ایسی مثال ہے کہ اس پر تاریخ فخر کرے گی۔ اس ایمانی جرات کے آگے دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی فیل اور ہیچ ہے، تاہم یہ واضح ہے کہ اب تک اپنے مقاصد میں بری طرح ناکامی کے باوجود اسرائیل ہاتھ نہیں روک رہا اور اس بھری دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ روکے۔
یہ سب واضح کرتا ہے کہ غزہ میں جنگ نہیں بلکہ ایک ایسا المیہ جاری ہے جس کی آگ میں انسانیت جل رہی ہے۔ ایک ایسی بھٹی دہک رہی ہے جس میں معصوم فلسطینی بچوں کے جسم کے ساتھ ساتھ عالمی ضمیر بھی جل رہا ہے، مگر افسوس کہ نہ تو مغرب کے منافق حکمران حرکت میں آ رہے ہیں اور نہ ہی مشرق و عالم اسلام کے رہنما۔ غزہ کی یہ صورتحال اس بات کا اعلان ہے کہ دنیا میں اصول، اخلاقیات اور انصاف کے تمام نعرے کھوکھلے ہیں۔ یہ صرف طاقتور کیلئے ہیں، کمزورکے باب میں ان کی کوئی اہمیت و حیثیت نہیں۔ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کے اجلاس صرف دکھاوا ہیں، عملی طور پر ان کا کوئی کردار نہیں۔ انسانی حقوق کے بڑے بڑے علمبردار ادارے اور این جی اوز صرف چند بیانات جاری کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر دیتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کچھ کرنے کی ہمت ان میں نہیں۔ اگر دنیا نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں تو کل یہ آگ کسی اور سرزمین کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں نے غزہ کو جس طرح مذبح بنادیا ہے، یہ دنیا کیلئے ایک سنگین خطرہ ہے۔ اگر آج اس قتل عام کو نہیں روکا گیا تو کل عالمی نظام مکمل طور پر طاقت کے پنجے میں آ جائے گا اور دنیا میں مکمل طور پر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا ہی راج ہوگا۔