ماحولیاتی و زرعی ایمرجنسی۔ وقت کی پکار

وزیرِاعظم نے حال ہی میں ملک میں ماحولیاتی و زرعی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان بظاہر ایک حکومتی فیصلہ ہے لیکن درحقیقت یہ پوری قوم کے مستقبل کا سوال ہے۔ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ کبھی قحط کی صورت میں خشک سالی، کبھی سیلاب کی شکل میں، کبھی تباہ کن بارشیں، کبھی زمین کی زرخیزی کا زوال اور کبھی زرعی پیداوار میں شدید کمی، یہ سب ہمارے سامنے موجود حقیقتیں ہیں۔

پاکستان کی معیشت کی بنیاد زراعت پر ہے لیکن یہی زراعت آج پانی کی قلت، زمین کے کٹاؤ، کیمیائی کھادوں کے بے جا استعمال، بیجوں کی غیرمعیاری فراہمی اور کسانوں کی محرومی کا شکار ہے۔ ماحولیاتی بحران نے زرعی مسائل کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ بڑھتی ہوئی گرمی اور غیرمتوقع بارشوں نے کاشتکاروں کو نقصان پہنچایا ہے۔ اوپر سے حکومت کی پالیسیاں کسانوں کی مشکلات میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ بے تحاشا بارشوں کے ساتھ ساتھ دریائے راوی، ستلج اور چناب میں اونچے درجے کے سیلاب نے جہاں عام آدمی کی املاک، مکانات، مال مویشیوں اور جانوں کا نقصان کیا ہے وہیں پر کسانوں کے لیے یہ سیلاب قہر ثابت ہوا ہے۔ مویشیوں کے علاوہ لاکھوں ایکڑ فصلیں تباہ و برباد ہوچکی ہیں۔ ابھی چند روز قبل ہی بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی حکومت سے زرعی ایمرجنسی کا مطالبہ کیا تھا جسے حکومت نے نہ صرف تسلیم کر لیا جبکہ ساتھ میں ماحولیاتی ایمرجنسی کا نفاذ بھی کر دیا ہے۔ وزیرِاعظم کا ایمرجنسی کا یہ اعلان اس لیے اہم ہے کہ یہ مسئلہ صرف حکومتی پالیسی یا چند منصوبوں سے حل نہیں ہو گا بلکہ ایک قومی شعور کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت پانی کے ذخائر بڑھانے، ڈیموں کی تعمیر، جدید آبپاشی کے نظام، فصلوں کی سائنسی تحقیق اور ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات کرے اور ساتھ ہی عوام کو اس میں شریک بنائے تو یہ ایمرجنسی ایک انقلابی تبدیلی کا نقطہ آغاز ثابت ہو سکتی ہے۔

پاکستان کی اصل معیشت زراعت ہے۔ زراعت پر کروڑوں انسانوں کی زندگی، ملک کی غذائی خود کفالت اور اجناس و اس سے تیارشدہ پراڈکٹس کی برآمدات کا دارومدار ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان جو ایک زرعی ملک کہلاتا ہے برسوں سے اس کا زرعی شعبہ زوال کا شکار ہے۔ پانی کی قلت بڑھ رہی ہے اور زمین بنجر ہو رہی ہے۔ کاشتکار زمین کے ٹھیکوں اور قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں جبکہ عالمی درجہ حرارت کی تبدیلی نے قحط و سیلاب کے خطرات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ ماحولیاتی و زرعی ایمرجنسی کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ ماہرین نے آئندہ برس 2026ء میں 22فیصد زیادہ سیلابی پانی آنے کی توقع ظاہر کی ہے جو کہ انتہائی الارمنگ صورتِ حال ہے۔ ہمیں 2025ء کے موجودہ سیلاب کے اثرات سے نکلنے اور متاثرین کی بحالی میں کئی سال لگ جائیں گے۔ ایسے میں اگلے سال اگر توقع اور خدشات کے مطابق پانی آ گیا تو ہماری زراعت، معیشت اور کاروبار تباہ ہو جائیں گے۔ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے سیاسی اختلافات اور صوبائی تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا۔ خیبر پختون خوا، پنجاب اور سندھ یکساں طور پر تباہی کا شکار ہوئے ہیں۔ اب ان سب کو ایک صفحے پر آنے کی ضرورت ہے۔

یہ المیہ ہے کہ جب عالمی ادارے بار بار خبردار کرتے رہے کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ممالک میں شامل ہے اُس وقت ہماری حکومتیں صرف زبانی جمع خرچ کرتی رہیں۔ پنجاب میں درختوں کا صفایا کرنے پر روک ٹوک نہ لگائی گئی جبکہ بلین ٹری سونامی والے صوبہ خیبر پختون خوا میں سرکاری سطح پر درختوں کی نیلامی کی گئی اور سوال کرنے پر خفگی کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا گیا کہ درخت بیچ کر حکومتی خزانے میں رقم جمع کی گئی تو اس میں کیا برائی ہے۔ انہی نامناسب اور غیرسنجیدہ رویوں نے ہمیں اس حال کو پہنچایا ہے۔

اب اگر حکومت نے واقعی ایمرجنسی کا فیصلہ کر لیا ہے تو تو اسے نعروں سے آگے بڑھنا ہو گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ شجرکاری مہم کو فوٹو سیشن کی بجائے ایک سخت، شفاف اور قومی و عوامی مہم بنایا جائے۔ پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے سخت قانون سازی کی جائے۔ نیز ڈرپ اور سپرنکلر نظام رائج کیا جائے۔ جدید آب پاشی نظام کو سبسڈی کے ساتھ رائج کیا جائے۔ چھوٹے کسانوں کو قرضوں اور سبسڈی میں عملی ریلیف دیا جائے نہ کہ بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں کو فائدہ پہنچا کر ایمرجنسی کو مذاق بنا دیا جائے۔ کسانوں کو سستی کھاد و زرعی ادویات اور معیاری بیجوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ انہیں سستی بجلی مہیا کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ زرعی تحقیقی اداروں میں بدلتے موسمی حالات سے ہم آہنگ نئی نئی فصلوں اور بیجوں پر تحقیقی کام تیز کیا جائے تاکہ بدلتے موسم کا مقابلہ کیا جا سکے۔

ماحولیات کو محض تقریروں میں نہیں بلکہ صنعتی فُضلے، کچرے اور پلاسٹک آلودگی کے خاتمے کے اقدامات کیے جائیں۔ فصلوں کی باقیات کو جلانے پر پابندی محض زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔ اس پر عمل درآمد کے لیے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو باختیار، ذمہ دار اور جوابدہ بنایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔ ماحولیاتی و زرعی ایمرجنسی کو محض اعلان تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ اگر یہ اعلان کاغذی کارروائی اور پریس کانفرنسوں سے آگے نہ بڑھا تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ یہ ایمرجنسی صرف حکومت کا کام نہیں بلکہ پوری قوم کی بقا کا مسئلہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیرِ اعظم کا اعلان تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوتا ہے یا محض ایک دعویٰ بن کر فائلوں میں گم ہو جائے گا۔ وزیرِاعظم کا عمل اور فیصلہ بڑی اہمیت کا حامل ہو گا۔ ان کے اقدامات کے نتیجے میں یا تو ہم فطرت کو بچا لیں گے یا پھر فطرت ہمیں مٹا دے گی۔ قوم کو اب ایک ایسے زرعی و ماحولیاتی انقلاب کی ضرورت ہے جو نہ صرف کسانوں کو سہارا دے بلکہ عوام کو بھی ایک محفوظ مستقبل فراہم کرے۔