انتخابات سے صرف پانچ ماہ پہلے

ہمارے قریب اور بھارت کے عین پہلو میں کئی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ پاکستان، بھارت اور چین ان تبدیلیوں سے لا تعلق نہیں رہ سکتے۔ نیپال میں جین زی یعنی 18سے 25سال کے نوجوانوں نے غیر معمولی مظاہروں اور گھیرائو جلائو کے ذریعے وزیراعظم کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن اس وقت ہمیں بنگلہ دیش کی بات کرنی ہے۔ بات صرف یہ نہیں کہ اسلامی جمعیت طلبہ یعنی اسلامی چھاترا شبر (Bangladesh Islami Chhatra Shibir) نے حیران کن اور ”جھاڑو پھیر دینے والی” بھاری اکثریت سے ڈھاکہ یونیورسٹی طلبہ یونین کے انتخابات جیت لیے اور 28میں سے 23سیٹوں، مرکزی کمیٹی (DUCSU) کی 12میں سے نو سیٹوں پر اس کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ بات صرف یہ بھی نہیں کہ 1971ء کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی میں پہلی بار جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی طلبہ تنظیم تاریخی کامیابی کے ساتھ یونین بنا چکی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس وقت اس کی یہ غیر معمولی کامیابی صرف ڈھاکہ نہیں پورے بنگلہ دیش میں فروری 2026ء میں ہونے والے قومی انتخابات کے تناظر میں دیکھی جا رہی ہے۔ ان انتخابات میں فیصلہ ہوگا کہ بنگلہ دیش کی باگ ڈور کس جماعت کے ہاتھ میں آئے گی؟ وہ کس نظریے کی حامی اور کس ملک کی دوست ہو گی اور ان تبدیلیوں سے بھارت یا پاکستان کس قدر متاثر ہوں گے؟

بنگلہ دیش میں پچھلے سال جولائی سے اٹھنے والی تحریکوں اور بعد کے واقعات کا بغور مطالعہ کرنے والے بھی ڈھاکہ یونیورسٹی کے ان انتخابی نتائج پر حیران ہیں۔ بہت سے تجزیے یکسر غلط ثابت ہوئے ہیں۔ ایک نظر اس کے پس منظر پر ڈال لیجیے، بات بہتر طور پر سمجھ آ سکے گی۔ گزشتہ برس جولائی، اگست میں بہت مدت سے موجود بے چینی کی لہر کو SADیعنی Students against discriminationنے تحریک بنا کر عوامی مظاہروں کے ذریعے وزیراعظم حسینہ واجد کو مستعفی ہوکر بھارت فرار ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ بعد ازاں SADکے کچھ رہنما ڈاکٹر یونس کی عبوری حکومت میں شامل ہو گئے اور خود اس تنظیم میں بھی شگاف نمودار ہوئے، جس کے بعد ایک دھڑے نے نئی سیاسی جماعت NCPبنا لی۔ یہ جماعت نظریاتی طور پر عوامی لیگ مخالف ہے لیکن اسلام پسند جماعت شمار نہیں ہوتی۔ عوامی لیگ کی حامی طلبہ تنظیم ‘بنگلہ دیش چھاترا لیگ’ پر پابندی کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی ICSکے مقابل سب سے بڑی تنظیم جاتیاتبادی چھاترا دل(Jatiotabadi Chatra Dal) تھی، جو خالدہ ضیا کی سیاسی جماعت بی این پی کا سٹوڈنٹ ونگ ہے۔ اصل مقابلہ انہی دونوں کے مابین ہوا۔ نائب صدر کے عہدے کیلئے محمد ابو صادق (قائم) نے اپنے مخالف کو 5708کے مقابلے میں 14042ووٹوں سے ہرایا، جبکہ آئی سی ایس کے صدر ایس ایم فرہاد نے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر قریب ترین حریف کو 5283کے مقابل 10794ووٹوں سے شکست دی۔ ایسا ہی بڑا فرق دوسری نشستوں پر نظر آیا۔ 78فیصد طلبہ نے ووٹنگ میں حصہ لیا، جو بڑی تعداد ہے۔

حیران کن طو رپر SADان انتخابات میں کوئی مؤثر کردار ادا نہ کر سکی حالانکہ کئی لوگوں کا خیال تھا کہ جولائی 24ء کی تحریک کی قیادت کے بعد طلبہ میں اس کا بہت اثر ورسوخ ہوگا۔ SADاور JCDنے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا ہے؛ البتہ نوزائیدہ جماعت NCP، جو SADہی سے پھوٹنے والی شاخ ہے، نے سب گروپس کو انتخابی نتائج تسلیم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ میرے خیال میں اس سے ایک اور بات بھی نکھر کر سامنے آ گئی، وہ یہ کہ جولائی 24ء کی تحریک میں اسلامی چھاترا شبر کا نہایت اہم کردار تھا، خواہ وہ اس وقت قیادت کے طور پر سامنے نہ آئی ہو۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو صرف ایک سال کے بعد SADکا بالکل غیر اہم ہوکر رہ جانا سمجھ نہیں آتا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کی منظم قیادت اب پابندیوں سے آزاد ہوئی ہے تو اس نے یہ معاملہ بھی روشن کر دیا ہے۔ بی این پی کی طلبہ تنظیم کا بڑے مارجن سے ہار جانا حیران کن معاملہ ہے، اس لیے کہ عوامی لیگ کے منظر نامے سے ہٹ جانے کے بعد یہی سوچا جا رہا ہے کہ آئندہ انتخابات کا میدان بی این پی کے ہاتھ رہے گا لیکن ان انتخابات نے بی این پی کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ 1971ء کے بعد پہلی بار کوئی اسلام پسند تنظیم ڈھاکہ یونیورسٹی کے انتخابات میں کامیاب ہوئی ہے۔ ملکی انتخابات سے پانچ ماہ قبل یہ نتائج آنا بہت اہم بات ہے۔

فروری 2026ء کے انتخابات پر یہ نتائج کیوں گہرا اثر ڈال سکتے ہیں، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اول تو یہ کہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے ہمیشہ ملکی تاریخ اور تحریکوں میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ بہت بار یہ ہوا ہے کہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں اٹھنے والی تحریکیں ملک گیر بنیں۔ دوسری اہم بات یہ کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سٹوڈنٹ ونگ نے اپنی سٹریٹ پاور کو ووٹ میں بدلنے کی طاقت دکھائی ہے۔ اگر یہ منظر عام انتخابات میں بھی دہرایا گیا تو جماعت اسلامی اقتدار میں آئے یا نہ آئے، ایک اہم طاقت کے طور پر ایوان میں موجود ہو گی اور اس کی شمولیت کے بغیر شاید حکومت بنانا ممکن نہ رہے۔ تیسرا رخ یہ ہے کہ ایک عام بنگالی عوامی لیگ اور بی این پی کے بار بار حکومتوں میں آنے اور عوامی مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے دونوں سے مایوس ہے۔ جماعت ایک متبادل قیادت کے طور پر دیکھی جا رہی، جس پر کرپشن اور لوٹ مار کا کوئی الزام نہیں۔ عوامی سطح پر ایک تبدیلی کی طلب ہے، اور اس قیادت کی جو عوامی مسائل حل کر سکے۔ وہ قیادت کون سی ہو؟ بی این پی کے پاس حسینہ واجد کے نکالے جانے کے بعد کوئی بڑا نعرہ نہیں اور اس میں ملک گیر سطح کی قیادت کا بڑا خلا بھی ہے۔ SADجو عبوری حکومت میں شامل ہے، وہ لہر کھو چکی ہے جو حسینہ واجد کے خلاف جدوجہد میں اسے اوپر لائی تھی۔

اسی سے پھوٹنے والی این سی پی کے پاس بھی حسینہ واجد سے چھٹکارے کے بعد کوئی بڑا نعرہ نہیں۔ وہ اصلاحات کا نعرہ ضرور لگاتی ہے لیکن عبوری حکومت کے خلاف بھی بے چینی موجود ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے مسائل حل نہیں ہوئے۔ این سی پی کو بھی اسی پس منظر میں دیکھا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی تحریکوں کیلئے بہت صبر آزما اور مشکل حالات کے بعد ایک اچھا موقع آیا ہے کہ وہ ملکی اقتدار میں اہم کردار ادا کر سکیں۔ لیکن خوش فہمیوں میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام پسند جماعتوں کا اقتدار میں آنا بھارت سمیت کئی قوتوں کیلئے بھیانک خواب ہو گا۔ وہ سر توڑ کوششیں کریں گی کہ مخالف جماعتوں کا ایک اتحاد بنا کر انہیں ہر طرح مدد دی جائے۔ جلد ہی ایسے کئی اتحاد نظر آنے لگیں گے۔ بی این پی بھی ان میں شامل ہو سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ ڈھاکہ یونیورسٹی کا انتخاب اہم سہی لیکن پورے ملک کا معاملہ قدرے الگ ہے۔ میں فروری انتخابات کا ایک حالیہ سروے پول دیکھ رہا تھا جس میں بی این پی سب سے اوپر ہے، اگرچہ جماعت اسلامی سے اس کا فرق کافی کم ہے۔ اس لیے بہت امکان ہے کہ ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے جس میں چھوٹے گروپ بڑی جماعت کے ساتھ حکومتی اتحاد بنائیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دو بڑی پارٹیاں مل کر حکومت بنا لیں۔ جماعت اسلامی اور بی این پی اگرچہ دونوں حسینہ واجد کا ہدف رہیں لیکن دونوں کے منشور اور مزاج میں خاصا فرق ہے، زیادہ دیر مل کر چلنا مشکل ہوگا۔

بنگالی عوام کا سیاسی مزاج جذباتی، گرم اور حکومت مخالف رہا ہے۔ بیشمار مسائل میں گھرے ملک میں حکومت سنبھالنا ایک کٹھن کام ہوگا اور بہت جلد غیر مقبول ہو جانے کا خطرہ مسلسل رہے گا۔ یہ سب مسائل اپنی جگہ لیکن اسلام پسند قوتوں خاص طور پر جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے طویل عرصہ صبر واستقامت کے ساتھ مقدمات، قید وبند اور پھانسیوں کا سامنا کیا ہے۔ ان قربانیوں کے نتائج اور فوائد انہیں ملنے چاہئیں۔ پاکستان کو بھی اپنی دوست قوتوں کی بھرپور مدد کرنی چاہیے اور بھارت نواز عناصر کو دوبارہ طاقت میں نہیں آنے دینا چاہیے۔ میرے خیال میں بنگلہ دیش ایک تاریخی موڑ پر ہے جو اس کا رخ مکمل تبدیل کر سکتا ہے۔