بیجنگ میں چین کی جاپان پر فتح کی اسی ویں سالگرہ کے موقع پر منعقدہ فوجی پریڈ کی بازگشت نہ صرف عالمی میڈیا میں گونج رہی ہے، بلکہ اس نے سفارتی حلقوں میں بھی ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ اس پریڈ میں چین کی افواج نے اپنی جدید ترین عسکری طاقت کا شان دار مظاہرہ پیش کیا۔ یہ پریڈ انسانی مہارتوں کا ایک زبردست نمونہ تھی۔ متعدد عالمی رہنماؤں کی موجودگی میں دنیا بھر کے میڈیا کے ذریعے جدید اور نہایت تباہ کن ہتھیار پہلی مرتبہ دنیا کے سامنے لائے گئے۔ ماہرین کے مطابق ان میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے جوہری میزائل، ہائی انرجی لیزر، اور ہائی پاور مائیکروویو ہتھیار شامل تھے۔ یہ ہتھیار امریکا جیسے حریف ممالک کے لیے ایک واضح پیغام تھے۔
اس تقریب کی ایک خاص بات جسے دنیا بھر میں توجہ کے ساتھ دیکھا گیا یہ تھی کہ روس، چین اور شمالی کوریا کے صدور کے ساتھ پاکستان کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف بھی پہلی صف میں موجود تھے۔ پڑوسی ملک بھارت میں اس منظر کو اٹھا کر ایک طولانی بحث چھیڑ دی گئی ہے۔ مبصرین کے مطابق اس منظر نے عالمی سطح پر ایک نئے طاقت کے اتحاد کی قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے۔ اب یہ سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا پاکستان مکمل طور پر چین اور روس کے بلاک میں شامل ہو چکا ہے؟اس سوال کی منطقی وجہ تو یہی ہے کہ چین کی جانب سے پیش کردہ طاقت کا یہ مظاہرہ دنیا کے لیے، اور بالخصوص امریکا کے لیے، ایک واضح پیغام ہے کہ بیجنگ اب محض ایک علاقائی طاقت نہیں بلکہ ایک عالمی سپر پاور کے طور پر ابھر چکا ہے۔ یہ پریڈ ماضی کی فتح کی یادگار سے بڑھ کر مستقبل کی نئی عالمی صف بندیوں کا اعلان ہے۔ چین کے جدید ہتھیار، خصوصاً ڈی ایفـ فائیو سی (DFـ5C) بین البراعظمی جوہری میزائل، ہائی انرجی لیزر اور ہائی پاور مائیکروویو ہتھیار، امریکا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں، کیونکہ یہ دفاعی نظام کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور اس طرح یہ پیغام دیتے ہیں کہ چین کے پاس کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کی صلاحیت موجود ہے۔ ان ہتھیاروں کی نمائش ایک طرح سے امریکا کی بحری، فضائی اور ڈرون ٹیکنالوجی پر مبنی بالادستی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ ماہرین کے مطابق جہاں تک چین کی زبردست فوجی تیاریوں سے خطرے کا سوال ہے تو اس کا خطرہ جاپان، جنوبی کوریا، اور تائیوان جیسے ان ممالک کو لاحق ہو سکتا ہے جو بحر الکاہل میں امریکا کے قریبی اتحادی ہیں۔ چین کی اسٹریٹیجک میزائلوں کی بیس ہزار کلو میٹر تک کی رینج یہ بتاتی ہے کہ اس کی پہنچ دنیا کے کسی بھی کونے تک ہے۔ اس کے علاوہ، روس کی سرکاری نیوکلیئر ایجنسی کی جانب سے چین کو نیوکلیئر ری ایکٹرز کی تیاری میں مدد کی پیشکش جو امریکا کو پیچھے چھوڑنے کے اظہار ِ خیال کے ساتھ کی گئی ہے، عالمی سطح پر اہمیت رکھتی ہے کیوں کہ یہ پیش کش دراصل ایک تزویراتی مہارتوں پر مشتمل دفاعی شراکت کا عندیہ ہے جس کا مقصد توانائی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مغربی بالادستی کو چیلنج کرنا ہے۔
ان حالات میں پاکستان کو اس کی جغرافیائی ساخت، جوہری قوت، عالم اسلام میں حاصل ایک اہم مقام اور اس کے بہادر عوام کی وجہ سے ایک خاص اہمیت حاصل ہوچکی ہے لیکن پاکستان کے لیے اس بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے میں اپنا کردار ادا کرنا ایک نازک سفارتی معاملہ ہے۔ تجز یہ کاروں کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کا پہلی صف میں ہونا اس بات کا عکاس ہے کہ پاکستان خطے میں چین کا ایک اہم اور قریبی اتحادی ہے۔ یہ امر ایک طرف پاکستان کے لیے سفارتی سطح پر نئے مواقع پیدا کرتا ہے، جیسا کہ چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے اقتصادی اور دفاعی تعاون سے ظاہر ہوتا ہے، اور دوسری طرف پاکستان کے لیے مغربی دنیا خصوصاً امریکاکے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کا چیلنج بھی واضح طورپر موجود ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان کی پالیسی کو ایک بلاک میں بندھنے کے بجائے عالمی سطح پر ایک توازن قائم رکھنے پر مرکوز ہونا چاہیے، کیونکہ اس سے پاکستان کے قومی مفادات بہتر طور پر محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات قابلِ غور ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کا فعال کردار اور چین کے ساتھ اقتصادی تعاون کے نئے امکانات ایک ایسی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں جو پاکستان کو ایک نئے عالمی نظام میں ایک اہم موقع دے رہے ہیں، ان حالات میں پاکستان کی قیادت کو عقل و دانش، تدبر و فراست اور دور اندیشی کے ساتھ ساتھ اسلامی احکام اور شریعت کی جانب سے دی گئی ہدایات کو خاص طورپر ملحوظ رکھنا چاہیے۔ ہمیں من حیث القوم اپنی اصلاح کی جانب متوجہ ہونا چاہیے۔ خاص طور پر قیادت کو چاہیے کہ وہ ہر حال میں عدل، انصاف اور سچائی کو اپنا شعار بنائے، بین الاقوامی تعلقات میں دیانت داری اور وعدے کی پاسداری کو مقدم رکھے، اور مسلم اُمہ کے اتحاد و استحکام کے لیے جدوجہد کرے تاکہ دنیا میں طاقت کے نئے بلاک بنانے سے زیادہ ہمارا کردارانسانوں کے لیے امن، سلامتی اور استحکام کی وجہ بن سکے۔
سیلاب کی ہمہ گیر آفت
ملک میں بارشوں، گلیشئر پگھلنے اور بھار ت کی جانب سے چھوڑے گئے پانی کی وجہ سے پیدا ہونے والا سیلاب ا یک ہمہ گیر قدرتی آفت کی صورت میں اس وقت پنجاب کے طول وعرض کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے سندھ کی جانب بڑھ رہاہے جہاں دریائے سندھ کے قرب وجوار میں رہنے والی آبادیاں اس وقت خطرات کی لپیٹ میں آچکی ہیں۔ بارش اور سیلابی ریلے اس وقت گجرات، ملتان اور ارد گرد کے متعدد علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں جہاں بڑے پیمانے پر انسانی آبادی کا انخلا کیا جا رہا ہے جبکہ لاکھوں ایکڑ زرعی رقبہ زیر آب آچکا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ملک کو سات سے آٹھ ارب ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ پنجاب حکومت کے ذمہ دارانہ کردار کی وجہ سے شہری آبادی کے محفوظ انخلا نے انسانی جانوں کا تحفظ کیا ہے تاہم اب امدادی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ متأثرین کی بحالی کا بہت بڑا چیلنج حکومت کے سامنے موجود ہے۔ اس ہمہ گیر سیلاب نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اب اہل وطن کو اپنے طرزِ زندگی میں تبدیلیوں کے متعلق سنجیدگی سے سوچنا ہی نہیں ہوگا بلکہ عملی اقدامات بھی فی الفور کرنا ہوں گے۔ تبدیلیوں کا یہ سلسلہ حکومتی اقدامات سے لے کر عام آدمی کی زندگی تک رونما ہونے چاہئیں۔ سیاسی مفادات سے بلند ہوکر ملک و قوم کے مستقبل کے حوالے سے درست فیصلے اور ان پر عمل کا یہی وقت ہے۔ ہم قدرتی آفات کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن اپنے اعمال، اخلاق اور کردار کی اصلاح اور درست تدابیر اختیار کر کے آزمائش میں کامیابی ضرور حاصل کر سکتے ہیں۔ نئے آبی ذخائر کی تعمیر، زرعی اصلاحات، زرعی شعبے میں عمومی شمولیت، جنگلات کی افزائش اور پانی کے راستوں کی مکمل بحالی جیسے اقدامات اس وقت ضروری ہیں تا کہ آنے والے دنوں میں ہم قحط اور دیگر مصائب سے محفوظ رہ سکیں۔