پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق سیکورٹی فورسز نے 10 سے 13 ستمبر کے دوران خیبرپختونخوا میں 2 مختلف کارروائیوں میں بھارتی پراکسی فتنہ الخوارج سے تعلق رکھنے والے 35 خوارج کو ہلاک کر دیا جبکہ 12 جوان بھی وطن پر قربان ہو گئے، باجوڑ میں خوارج کی موجودگی کی اطلاع پر انٹیلی جنس بنیاد پر آپریشن کیا گیا،جس کے دوران خوارج کے ٹھکانے کو مؤثر انداز میں نشانہ بنایا گیا اور شدید فائرنگ کے تبادلے میں 22 خوارج کو ہلاک کر دیا۔ایک اور جھڑپ جنوبی وزیرستان میں ہوئی جہاں مزید 13 خوارج کو سیکورٹی فورسز نے ہلاک کیا۔ادھر وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ افغانستان کو واضح کر دیا ہے خارجیوں اور پاکستان میں سے ایک کا انتخاب کر لے۔
پاکستان اور افغانستان دو ایسے پڑوسی ممالک ہیں جن کے درمیان گہرے تاریخی، مذہبی، ہمسائیگی اور نسلی و لسانی رشتے موجود ہیں۔ دونوں ممالک کی سرحد طویل عرصے تک کھلی اور پرسکون تھی۔ لوگ بلاروک ٹوک آتے جاتے تھے، کاروبار کرتے تھے اور خوشیاں و غم بانٹتے تھے لیکن افسوس کہ اب معاملات یکسر مختلف ہوگئے ہیں اور آج یہ تعلق بداعتمادی اور الزام تراشی کے کانٹوں میں الجھا ہوا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کی آزادی کے بعد سے ہی افغانستان نے اپنے رویے میں وہ گرمجوشی نہیں دکھائی جس کی ایک برادر اسلامی ملک سے توقع کی جاتی ہے۔ پاکستان کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ اور اس کی خودمختاری پر شکوک و شبہات رکھنے کی پالیسی نے دونوں ممالک کے تعلقات کو ابتدا ہی سے زہر آلود بنا دیا۔ افغانستان نے ہمیشہ پاکستان دشمن قوتوں کیلئے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کے امن کو بار بار سبوتاژ کیا گیا، دہشت گرد گروہوں کو جگہ فراہم کی گئی اور پاکستان کے اندر خونریزی کیلئے ان کی پشت پناہی کی گئی۔پاکستان نے لمبے عرصے تک صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ اس نے افغانستان کو کبھی دشمن کی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش نہیں کی لیکن جب یہ روش پاکستان کے امن و سلامتی کیلئے مسلسل خطرہ بننے لگی تو ستر کی دہائی کے آخر میں مجبوراً پاکستان کو بھی اپنی پالیسی بدلنا پڑی اور افغانستان سے پھوٹنے والی دہشت گردی کو وہیں پر قابو پانے کے لئے جارحانہ دفاع کی حکمت عملی اختیار کرنا پڑی۔ اسی وقت سے افغان نسل پرست لابی نے پاکستان پر مداخلت کے الزامات لگانے شروع کیے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے کبھی پہل نہیں کی بلکہ ہمیشہ ردعمل دکھایا۔
تازہ واقعات نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کی ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق 10 سے 13 ستمبر کے دوران خیبرپختونخوا میں دو مختلف کارروائیوں میں خوارج کے 35 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔ یہ گروہ بھارتی سرپرستی اور افغان سرزمین کے سہولت کار نیٹ ورک کے ساتھ پاکستان میں امن کو تہ و بالا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ان کارروائیوں میں پاکستان کے 12 جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کس بھاری قیمت پر امن قائم رکھنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔یہ پہلی بار نہیں کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوئی ہے۔ ماضی کی حکومت ہو یا موجودہ طالبان انتظامیہ، دونوں نے مختلف طریقوں سے پاکستان دشمن عناصر کو پنپنے دیا۔ انٹیلی جنس رپورٹس کی روشنی میں یہ بات کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ ان دہشت گرد کارروائیوں میں افغان شہری بھی ملوث ہیں۔ اس تناظر میں وزیرِاعظم شہباز شریف کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ افغانستان کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ پاکستان کا ساتھ دیتا ہے یا خارجیوں کا۔یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت ہمیشہ سے افغانستان کو بطور پراکسی استعمال کرتا رہا ہے۔ پاکستان کیخلاف دہشت گرد نیٹ ورکس کو بھارت کی طرف سے مالی، عسکری اور سفارتی مدد فراہم کی جاتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ افغان سرزمین اس ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ایک بار پھر میدان جنگ بنائی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ طالبان حکومت اس حقیقت سے کس طرح انکار کر سکتی ہے؟ ”اسٹیٹ آف ڈینائل” کی یہ پالیسی بالآخر خود افغانستان کو نقصان پہنچائے گی۔پاکستانی عوام اور ریاست دہشت گردی کیخلاف متحد ہیں۔ حکومت اور ادارے متفق ہیں کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔
یہ بات درست ہے کہ اگر افغانستان اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا تو پاکستان کے پاس سخت اقدامات کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگ کسی کے مفاد میں نہیں، مگر افغانستان کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ دہشت گردی کو برداشت کرنا یا سہولت فراہم کرنا ایک طرح سے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ یہ بھی افسوس ناک حقیقت ہے کہ افغان طالبان حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد بھی وہی پرانی روش برقرار رکھی ہے جو اشرف غنی حکومت کی تھی۔ سرحد پار سے دہشت گردوں کا داخلہ جاری ہے، جدید امریکی اسلحے کے ساتھ یہ گروہ پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں اور کابل انتظامیہ صرف تماشا دیکھ رہی ہے۔ اس رویے سے نہ صرف پاکستان کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ افغانستان کے اپنے استحکام پر بھی سوالیہ نشان لگ رہا ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ سفارتکاری کو ترجیح دی ہے۔ اس نے کئی بار افغان حکومت کو مشترکہ سیکورٹی میکنزم بنانے کی تجاویز دیں لیکن جب جواب میں صرف انکارملے تو پھر صبر کا پیمانہ لبریز ہونا فطری ہے۔ ہم یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات کو دشمنی کی دلدل میں دھکیلنے کی بجائے حقیقت پسندی سے آگے بڑھنا چاہیے۔ افغانستان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان اس کا سب سے قریبی اور قدرتی اتحادی ہے، نہ کہ دشمن۔ اگر وہ بھارت کے ہاتھوں استعمال ہوتا رہا تو نقصان صرف پاکستان کا نہیں بلکہ افغانستان کا بھی ہوگا۔ دشمنی کا راستہ دونوں کیلئے تباہ کن ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ طالبان حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ اگر افغانستان اپنی سرزمین دہشت گردوں کیلئے استعمال ہونے سے نہ روک سکا تو پھر خطے میں ایک بڑی کشیدگی ناگزیر ہو جائے گی۔ اس کے نتائج نہ صرف دو ممالک بلکہ پورے خطے کو بھگتنا پڑیں گے۔ پاکستان اور افغانستان دونوں کو چاہیے کہ اپنے اختلافات کو ختم کریں، دہشت گردوں کیخلاف مشترکہ محاذ بنائیں اور ماضی کے زخموں کو تازہ کرنے کی بجائے مستقبل کی تعمیر پر توجہ دیں۔ یہی واحد راستہ ہے جس سے دونوں ممالک امن، ترقی اور بھائی چارے کی فضا بحال کر سکتے ہیں اور یہی دونوں ملکوں کے عوام کے بہتر مفاد میں ہے۔