اسلامی دنیا کی موجودہ صورت حال عالمی سیاست میں ایک بڑے المیے کی حیثیت رکھتی ہے۔ وسائل کی فراوانی، نوجوان آبادی کی کثرت، بہترین جغرافیائی پوزیشن اور تیل و گیس کے دنیا کے سب سے بڑے ذخائر رکھنے کے باوجود مسلمان ممالک آج بھی عالمی طاقتوں کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ اس کمزوری کی اصل وجہ یہ ہے کہ اکثر اسلامی ممالک یا تو دفاعی لحاظ سے کمزور ہیں یا معاشی اعتبار سے۔ یہی کمزوریاں امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں کے لیے مواقع فراہم کرتی ہیں کہ وہ اسلامی دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیں اور ان کے وسائل اور فیصلوں پر قابض ہو جائیں۔ عرب دنیا خصوصاً خلیجی ریاستیں اپنے دفاع کے لیے امریکا پر انحصار کرتی ہیں۔ امریکا انہیں یہ یقین دہانی کرواتا ہے کہ وہ ان کے دفاع کے لیے موجود ہے اور جدید ترین اسلحہ فراہم کرے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دفاع محض نمائشی ہے۔ قطر کی مثال اس بات کو واضح کرتی ہے کہ وہاں امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈہ ہونے کے باوجود جب اسرائیل نے قطرپر حملے کیے تو امریکا نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا کا مقصد اسلامی ممالک کا دفاع نہیں بلکہ ان سے منافع کمانا ہے۔
تیل کے میدان میں بھی امریکا اور مغربی دنیا اسلامی ممالک کا بھرپور استحصال کرتی ہے۔ عرب ممالک روزانہ لاکھوں بیرل تیل امریکا اور یورپ کو فراہم کرتے ہیں جس کے بدلے انہیں مارکیٹ ریٹ سے بہت کم ڈالرز ملتے ہیں، لیکن یہ ڈالر ز بھی زیادہ دیر اُن کے پاس نہیں رہتے۔ دفاعی معاہدوں، اسلحہ خریداری اور مختلف سکیورٹی پیکجز کے نام پر وہی ڈالر اربوں کی صورت میں دوبارہ امریکا کے خزانے میں واپس چلے جاتے ہیں۔ سعودی عرب اور امارات جیسے ممالک سالانہ اربوں ڈالر کے اسلحہ پیکجز خریدتے ہیں لیکن جب انہیں خطرات کا سامنا ہوتا ہے تو امریکا عملی مدد سے گریز کرتا ہے اور محض بیانات دینے پر اکتفا کرتا ہے۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ اسلامی ممالک کی دولت دراصل مغربی طاقتوں کی معیشت کو سہارا دینے میں صرف ہو رہی ہے جبکہ حقیقی تحفظ انہیں حاصل نہیں ہو رہا۔
پاکستان جیسے ممالک کی مثال بھی نہایت اہم ہے۔ پاکستان دفاعی لحاظ سے ایک ایٹمی طاقت ہے اور خطے میں مضبوط فوجی حیثیت رکھتا ہے، لیکن معاشی اعتبار سے کمزور ہے۔ اس کی معیشت کا زیادہ تر انحصار عالمی مالیاتی اداروں جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر ہے جو براہ راست امریکی اثر و رسوخ میں ہیں۔ جب بھی پاکستان کوئی ایسا فیصلہ کرتا ہے جو امریکی مفادات کے خلاف ہو تو ان اداروں کے ذریعے قرضوں کو روک دیا جاتا ہے یا کڑی شرائط عائد کر دی جاتی ہیں۔ یوں پاکستان جیسے ممالک اپنی داخلی پالیسیوں میں بھی آزاد نہیں رہتے اور ان کی خودمختاری متاثر ہوتی ہے۔ یہی صورتحال مصر، اُردن اور تیونس جیسے کئی دیگر ممالک کی بھی ہے جو معیشتی کمزوری کے باعث مغربی طاقتوں کی مرضی کے پابند ہیں۔ امریکا کا استحصال ایک منظم حکمت عملی کے تحت جاری ہے۔ کمزور دفاع رکھنے والے ممالک کو وہ اسلحہ بیچ کر اربوں ڈالر کماتا ہے۔ معاشی مشکلات میں گھرے ممالک کو قرضوں اور امداد کے نام پر اپنی شرائط قبول کرواتا ہے۔ قدرتی وسائل مثلاً تیل اور گیس کو سستے داموں حاصل کرتا ہے اور عالمی منڈی میں مہنگے داموں فروخت کرتا ہے۔ سیاسی دباؤ ڈال کر ان ممالک کی داخلی خودمختاری کو روندتا ہے اور کسی بھی اسلامی ملک کو اپنی پالیسی سے ہٹنے پر پابندیوں اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ تمام حربے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکا کے نزدیک اِسلامی ممالک صرف منافع اور مفاد کا ذریعہ ہیں، ان کا خیر خواہ ہونا اس کے ایجنڈے کا حصہ نہیں۔
ان حالات میں اسلامی دنیا کے لیے سب سے بڑا تقاضا اتحاد ہے۔ ان کے پاس ہر وہ چیز موجود ہے جو ایک طاقتور بلاک کے قیام کے لیے ضروری ہے۔ خلیجی ممالک کے پاس تیل اور سرمایہ ہے، پاکستان اور ترکی کے پاس فوجی طاقت اور دفاعی ٹیکنالوجی ہے۔ ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک کے پاس صنعتی ڈھانچہ ہے اور دیگر ممالک کے پاس افرادی قوت اور زرعی وسائل ہیں۔ اگر یہ سب وسائل ایک دوسرے کے ساتھ بانٹ لیے جائیں اور ایک دوسرے کے لیے سہارا بن جائیں تو اِسلامی دنیا کو کسی بیرونی طاقت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ عرب ممالک اگر روزانہ لاکھوں بیرل تیل امریکا کو دینے کے بجائے اسلامی ممالک کے مشترکہ دفاعی فنڈ میں سرمایہ لگائیں تو وہ اپنی ہی طاقت کو بڑھا سکتے ہیں۔ اگر پاکستان اور ترکی اپنی دفاعی ٹیکنالوجی برآمد کریں اور بدلے میں عرب ممالک سے سرمایہ اور توانائی کے وسائل حاصل کریں تو ایک ایسا باہمی تعاون قائم ہو سکتا ہے جس سے سب ممالک کو فائدہ پہنچے گا اور امریکا جیسی طاقتوں کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔
اسلامی ممالک کو اب یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ امریکا اور مغربی طاقتیں کبھی بھی ان کی خیرخواہ نہیں ہو سکتیں۔ ان کا مقصد صرف اپنے مفادات کا تحفظ اور اسلامی دنیا کے وسائل پر قبضہ ہے۔ وقت کا سب سے بڑا تقاضا یہی ہے کہ اسلامی ممالک اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک دوسرے کا سہارا بنیں۔ دفاعی لحاظ سے کمزور مگر معاشی طور پر مضبوط ممالک اپنے بھائی ممالک کی مدد کریں اور دفاعی لحاظ سے طاقتور مگر معاشی لحاظ سے کمزور ممالک اپنی خدمات فراہم کریں۔ یہی راستہ ہے جو اسلامی دنیا کو غلامی سے نکال کر آزادی اور خودمختاری کی طرف لے جا سکتا ہے اور انہیں کمزوری سے طاقت کی طرف گامزن کر سکتا ہے۔